ٹرمپ کا مواخذہ: تحریک ایوان نمائندگان سے اب امریکی سینیٹ میں
16 جنوری 2020
امریکی ایوان نمائندگان نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مواخذے کی کارروائی کی باقاعدہ تجویز اب ملکی سینیٹ کو بھیج دی ہے، جس کے ساتھ ہی اس تاریخی عمل کی پارلیمانی تیاریاں بھی مکمل ہوگئی ہیں۔
امریکی ایوان نمائندگان کی خاتون اسپیکر نینسی پیلوسیتصویر: picture-alliance/Xinhua/T. Shen
اشتہار
امریکا کی تقریباً ڈھائی سو سالہ تاریخ میں یہ صرف چوتھا موقع ہو گا کہ کسی صدر کو سینیٹ میں اپنے خلاف مواخذے کی تحریک کا سامنا کرنا پڑے گا۔ امریکی ایوان نمائندگان کے اراکین نے صدر ٹرمپ کے مواخذے کے لیے سینیٹ کو دو شقیں بھیجی ہیں، جن میں ٹرمپ پر صدارتی اختیارات کے غلط استعمال اور کانگریس یعنی ملکی پارلیمان کے کام میں رکاوٹ ڈالنے کے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپتصویر: Getty Images
قبل ازیں امریکی کانگریس کے ایوان زیریں کے اراکین نے مواخذے کی اس تحریک کو ملکی سینیٹ یا ایوان بالا میں بھیجنے کی اکثریتی رائے سے منظوری دے دی۔ مواخذے کی کارروائی اب امریکی سینیٹ میں مکمل کی جائے گی، جہاں صدر ٹرمپ کی ری پبلکن پارٹی کے ارکان کی اکثریت ہے۔ یہ باضابطہ کارروائی 21 جنوری سے شروع ہونے کا امکان ہے۔ اس کی صدارت امریکی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کریں گے جب کہ صدر ٹرمپ کا دفاع وائٹ ہاؤس کرے گا۔
کسی صدر کو مواخذے کی تحریک کے ذریعے اس کے عہدے سے ہٹانے کے لیے 100رکنی سینیٹ میں دو تہائی اکثریت کی حمایت ضروری ہوتی ہے۔ لیکن چونکہ سینیٹ میں ری پبلکن اراکین کی اکثریت ہے، اس لیے وائٹ ہاؤس کا خیال ہے کہ مواخذے کی یہ پارلیمانی تحریک کامیاب نہیں ہو سکے گی۔ امریکی سینیٹ میں ری پبلکن پارٹی کے 53 اراکین میں سے اب تک کسی بھی رکن نے یہ اشارہ نہیں دیا کہ وہ پارٹی لائن سے ہٹ کر اپنی رائے دے گا۔ مواخذے کی اس تحریک کی کامیابی کے لیے لازمی ہو گا کہ ری پبلکن پارٹی کے کم از کم 20 سینیٹرز صدر ٹرمپ کے خلاف ووٹ دیں۔
ٹرمپ دنيا بھر ميں کس کس سے ناراضی مول لیے بيٹھے ہيں!
مسائل داخلی ہوں يا بين الاقوامی امريکی صدر ٹرمپ کے ان سے نمٹنے کے انداز کو متنازعہ خیال کیا جاتا ہے۔ يہی وجہ ہے کہ روايتی حريف روس اور چين ہی نہيں بلکہ يورپی يونين جيسے قريبی اتحادی بھی ٹرمپ سے نالاں دکھائی دیتے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/N. Kamm
پاکستان اور امريکا، ايک پيچيدہ رشتہ
ڈونلڈ ٹرمپ نے رواں سال کے آغاز پر اپنی ٹوئيٹس ميں پاکستان پر شديد تنقيد کی۔ انتظاميہ چاہتی ہے کہ اسلام آباد حکومت ملک ميں دہشت گردوں کی پناہ گاہوں کے خلاف زيادہ موثر کارروائی کرے۔ دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کے حلیفوں پاکستان اور امريکا کے بيچ فاصلے بڑھتے جا رہے ہيں۔ ستمبر 2018ء ميں امريکی وزير خارجہ کے دورے سے بھی زيادہ فرق نہيں پڑا۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Hassan
اقتصادی جنگ ميں چين اور امريکا ميں مقابل
روسی ہتھياروں کی خريداری پر امريکا نے چينی فوج پر ستمبر 2018ء ميں تازہ پابندياں عائد کيں۔ جواباً چين نے دھمکی دی کہ پابندياں خنم کی جائيں يا پھر امريکا اس کا خميازہ بھگتنے کے ليے تيار رہے۔ چين اور امريکا کے مابين يہ واحد تنازعہ نہيں، دنيا کی ان دو سب سے بڑی اقتصادی قوتوں کے مابين تجارتی جنگ بھی جاری ہے۔ دونوں ممالک ايک دوسرے کی درآمدات پر اضافی محصولات عائد کرتے آئے ہيں۔
تصویر: picture-alliance/newscom/S. Shaver
روس کے ساتھ بھی چپقلش
ادھر روس نے کہا ہے کہ ’امريکا آگ سے کھيل رہا ہے‘ اور اس سے عالمی امن و استحکام کو خطرہ لاحق ہے۔ يہ بيان روس کے خلاف امريکی پابنديوں کے تناظر ميں سامنے آيا۔ امريکا اور روس کے مابين ان دنوں شام، يوکرائن، امريکی صدارتی انتخابات ميں مبينہ مداخلت، سائبر جنگ اور کئی ديگر اہم امور پر سنگين نوعيت کے اختلافات پائے جاتے ہيں۔ کئی ماہرين کے خیال میں اس وقت ’ايک نئی سرد جنگ‘ جاری ہے۔
اسرائيل اور فلسطين کے مابين تنازعے ميں بھی ٹرمپ کے کردار پر سواليہ نشان لگايا جاتا ہے۔ پچھلے سال کے اواخر ميں جب ٹرمپ انتظاميہ نے يروشلم کو اسرائيل کا دارالحکومت تسليم کيا، تو اس کا عالمی سطح پر رد عمل سامنے آيا اور خطہ اس کے نتائج آج تک بھگت رہا ہے۔ يورپی رياستيں اس پرانے مسئلے کے ليے دو رياستی حل پر زور ديتی ہيں، ليکن ٹرمپ کے دور ميں دو رياستی حل کی اميد تقريباً ختم ہو گئی ہے۔
تصویر: Imago/ZumaPress
اتحاديوں ميں بڑھتے ہوئے فاصلے
ٹرمپ کے دور ميں واشنگٹن اور يورپی يونين کے تعلقات بھی کافی حد تک بگڑ چکے ہيں۔ معاملہ چاہے تجارت کا ہو يا ايران کے خلاف پابنديوں کی بحالی کا، برسلز اور واشنگٹن کے نقطہ نظر مختلف ہوتے ہيں۔ امريکی صدر مہاجرين کے بحران، بريگزٹ، يورپی يونين ميں سلامتی کی صورتحال، يورپ ميں دائيں بازو کی قوتوں ميں اضافہ و مغربی دفاعی اتحاد نيٹو کے بجٹ جيسے معاملات پر يورپی قيادت کو کافی سخت تنقيد کا نشانہ بنا چکے ہيں۔
جی سيون بھی تنازعے کی زد ميں
اس سال جون ميں کينيڈا ميں منعقد ہونے والی جی سيون سمٹ تنقيد، متنازعہ بيانات اور الزام تراشی کا مرکز بنی رہی۔ ٹرمپ نے اس اجلاس کے اختتام پر مشترکہ اعلاميے پر دستخط کرنے سے انکار کر ديا، جس پر تقريباً تمام ہی اتحادی ممالک کے رہنماؤں نے ٹرمپ کے اس رويے کی مذمت کی۔ کيوبک ميں ہونے والی جی سيون سمٹ کے بعد ميزبان ملک کے وزير اعظم جسٹن ٹروڈو اور ٹرمپ کے مابين لفظوں کی ايک جنگ بھی شروع ہو گئی تھی۔
تصویر: Reuters/Prime Minister's Office/A. Scotti
6 تصاویر1 | 6
ٹرمپ کی مہم کے ایک عہدیدار نے کہا کہ ایوان زیریں کی خاتون اسپیکر نینسی پیلوسی نے جن الزامات کے تحت صدر کے مواخذے کی تحریک چلانے کی کوشش کی ہے، وہ اس میں کامیاب نہیں ہو سکیں گی۔ اس عہدیدار کا کہنا تھا کہ مواخذے کی کارروائی آئندہ نومبر میں ہونے والے انتخابات میں قبل از وقت دخل انداز ی کی کوشش کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے۔
امریکا میں صدر ٹرمپ سے پہلے منصب صدارت پر فائز ہونے والی چوالیس شخصیات میں سے صرف تین کو مواخذے کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ ان میں سے اینڈریو جانسن اور بل کلنٹن کے خلاف مواخذے کی تحریک ناکام رہی تھی جبکہ صدر نکسن کو مستعفی ہونا پڑ گیا تھا۔
موجودہ صورت حال کو دیکھتے ہوئے اس بات کا قوی امکان ہے کہ ٹرمپ کے خلاف یہ تحریک کامیاب نہیں ہو سکے گی۔ تاہم اصل پریشانی یہ بھی ہے کہ مواخذے کی کارروائی سے کسی بھی صدر کی ساکھ پر داغ تو لگ ہی جاتا ہے، جس کے سیاسی نقصانات بھی ہوتے ہیں۔
امریکی تاریخ میں اب تک جس کسی صدر کو بھی مواخذے کا سامنا کرنا پڑا، اسے اگلے صدارتی الیکشن میں شکست ہی ہوئی ہے۔ اب دیکھنا یہ باقی ہے کہ آیا مواخذے کی اس آئندہ کارروائی کے بعد روا ں برس نومبر میں ہونے والے امریکی صدارتی انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ کے لیے الیکشن کے نتائج میں پیغام فتح کا ہو گا یا شکست کا۔
ج ا / م م (نیوز ایجنسیاں)
ٹرمپ کے ایسے نو ساتھی جو برطرف یا مستعفی ہو گئے
وائٹ ہاؤس کی کمیونیکیشن ڈائریکٹر ہوپ ہیکس نے اپنے عہدے سے الگ ہونے کا اعلان کر دیا ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ کے کتنے اعلی عہدیدار برطرف یا مستعفی ہو چکے ہیں، یہ ان تصاویر کے ذریعے جانیے۔
انتیس سالہ سابق ماڈل ہوپ ہیکس امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتہائی قریبی اور پرانی ساتھی قرار دی جاتی ہیں۔ سن دو ہزار پندرہ میں ٹرمپ کی صدارتی مہم کی ترجمان ہوپ نے کہا ہے کہ انہوں نے اپنی ذمہ داریاں بڑے احسن طریقے سے نبھائی ہیں۔ امریکی صدارتی انتخابات میں مبینہ روسی مداخلت پر ان سے پوچھ گچھ بھی کی گئی تھی۔
تصویر: Reuters/C. Barria
اسٹیو بینن
سن دو ہزار سولہ کے انتخابات میں ٹرمپ کی فتح اور اُن کے قوم پرستی اور عالمگیریت کے خلاف ایجنڈے کے پس پشت کارفرما قوت اسٹیو بینن ہی تھے۔ گزشتہ ہفتے امریکی ریاست ورجینیا میں شارلٹس ویل کے علاقے میں ہونے والے سفید فام قوم پرستوں کے مظاہرے میں ہوئی پُر تشدد جھڑپوں کے تناظر میں ٹرمپ کو ریپبلکنز کی جانب سے سخت تنقید کے ساتھ بینن کی برطرفی کے مطالبے کا سامنا بھی تھا۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/A. Brandon
انٹونی سکاراموچی
’مُوچ‘ کی عرفیت سے بلائے جانے والے 53 سالی انٹونی سکاراموچی وائٹ ہاؤس میں محض دس روز ہی میڈیا چیف رہے۔ بہت عرصے خالی رہنے والی اس آسامی کو نیو یارک کے اس شہری نے بخوشی قبول کیا لیکن اپنے رفقائے کار کے ساتھ نامناسب زبان کے استعمال کے باعث ٹرمپ اُن سے خوش نہیں تھے۔ سکاراموچی کو چیف آف سٹاف جان کیلی نے برطرف کیا تھا۔
امریکی محکمہ برائے اخلاقیات کے سابق سربراہ والٹر شاؤب نے رواں برس جولائی میں وائٹ ہاؤس سے ٹرمپ کے پیچیدہ مالیاتی معاملات پر اختلاف رائے کے بعد اپنے منصب سے استعفی دے دیا تھا۔ شاؤب ٹرمپ کے منصب صدارت سنبھالنے کے بعد اُن کے ذاتی کاروبار کے حوالے سے بیانات کے کڑے ناقد رہے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/J.S. Applewhite
رائنس پریبس
صدر ٹرمپ نے اقتدار میں آنے کے فوراﹰ بعد رپبلکن رائنس پریبس کو وائٹ ہاؤس کا چیف آف اسٹاف مقرر کیا تھا۔ تاہم تقرری کے محض چھ ماہ کے اندر ہی اس وقت کے مواصلات کے سربراہ انٹونی سکاراموچی سے مخالفت مول لینے کے سبب اپنے عہدے سے استعفیٰ دینا پڑا تھا۔
تصویر: Reuters/M. Segar
شین اسپائسر
وائٹ ہاؤس کے سابق پریس سیکرٹری شین اسپائسر کے ٹرمپ اور میڈیا سے بہت اچھے تعلقات تھے۔ تاہم اُنہوں نے ٹرمپ کی جانب سے انٹونی سکاراموچی کی بطور ڈائرکٹر مواصلات تعیناتی کے بعد احتجاجاﹰ استعفیٰ دے دیا تھا۔ اسپائسر اس تقرری سے خوش نہیں تھے۔
تصویر: Reuters/K.Lamarque
مائیکل ڈیوبک
وائٹ ہاؤس پریس سیکرٹری مائیکل ڈیوبک کو اُن کے امریکی انتخابات میں روس کے ملوث ہونے کے الزامات کو صحیح طور پر ہینڈل نہ کرنے کے سبب ان کے عہدے سے فارغ کر دیا گیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/S. Walsh
جیمز کومی
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے وفاقی تفتیشی ادارے ایف بی آئی کے سربراہ جیمز کومی کو بھی برطرف کر دیا تھا۔ کومی پر الزام تھا کہ اُنہوں نے ہلیری کلنٹن کی ای میلز کے بارے میں درست معلومات فراہم نہیں کی تھیں۔ تاہم ٹرمپ کے ناقدین کو یقین ہے کہ برطرفی کی اصل وجہ ایف بی آئی کا ٹرمپ کی انتخابی مہم میں روس کے ملوث ہونے کے تانے بانے تلاش کرنا تھا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/J. S. Applewhite
مائیکل فلن
قومی سلامتی کے لیے ٹرمپ کے مشیر مائیکل فلن کو رواں برس فروری میں اپنے عہدے سے استعفی دینا پڑا تھا۔ فلن نے استعفے سے قبل بتایا تھا کہ اُنہوں نے صدر ٹرمپ کے حلف اٹھانے سے قبل روسی سفیر سے روس پر امریکی پابندیوں کے حوالے سے بات چیت کی تھی۔ فلن پر اس حوالے سے نائب امریکی صدر مائیک پنس کو گمراہ کرنے کا الزام بھی عائد کیا گیا تھا۔