امریکا کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے خلاف مواخذے کی کارروائی کو ’غیر آئینی‘ قرار دیتے ہوئے سینیٹ کے سامنے پیش ہونے سے انکار کر دیا ہے۔
اشتہار
سابق امریکی صدر ڈونلد ٹرمپ کے وکلاء نے امریکی سینیٹ میں مواخذے کی کارروائی کے لیے انہیں پیش کرنے کی ڈیموکریٹ اراکین کی درخواست کو مسترد کرتے ہوئے اس دعوت کو 'پبلک ریلیشنز اسٹنٹ‘ قرار دیا ہے۔
ڈیموکریٹس نے ٹرمپ پر اپنے حامیوں کو بغاوت پر اکسانے کا الزام عائد کیا ہے۔ ایوان نمائندگان میں ڈیموکریٹس کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کے حامیوں کی طرف سے چھ جنوری کو کیپیٹل ہل پر دھاوا بولنے سے قبل سابق صدر نے اپنی انتخابی شکست کے خلاف انہیں 'لڑنے‘ کی تلقین کی تھی۔ اس کے بعد ٹرمپ کے حامیوں اور سکیورٹی فورسز کے درمیان جھڑپیں ہوئیں، قانو ن سازوں کو اپنی جان بچانے کے لیے پناہ لینی پڑی اور جھڑپوں میں ایک پولیس افسر سمیت پانچ افراد مارے گئے۔
ٹرمپ کے مشیر جیسن میلر نے خبر رساں ایجنسی روئٹرزسے بات چیت کرتے ہوئے کہا ”صدر (ٹرمپ) ایک غیر آئینی کارروائی میں گواہی دینے کے لیے پیش نہیں ہوں گے۔" دوسری طرف ٹرمپ کے وکلاء بروس کاسٹر اور ڈیوڈ شوین نے ایک کھلے خط میں ڈیموکریٹ اراکین کی درخواست کو 'پبلک ریلیشنز اسٹنٹ‘ قرار دیا۔
ٹرمپ کے وکلاء نے مواخذے کے الزامات کو رواں ہفتے مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ تین نومبر کو ہونے والی انتخابی شکست بڑے پیمانے پر ہونے والی دھاندلی کا نتیجہ تھی اور صدر (ٹرمپ) کے اس دعوے کو امریکی آئینی کی پہلی ترمیم کے تحت تحفظ حاصل ہے۔ حالانکہ امریکی عدالت اور کئی اداروں نے بھی انتخابات میں دھاندلی کے الزامات کو بے بنیاد قرار دیا تھا۔
سینیٹ میں مواخذے کی کارروائی کے انچارج ڈیموکریٹ رکن جیمی راسکن نے ٹرمپ اور ان کے وکیل کو ایک خط بھیج کر سابق صدر کو حلفیہ گواہی دینے کے لیے ایوان میں حاضر ہونے کی دعوت دی تھی۔
امریکی جمہوری تاریخ کا بدنما داغ، دنیا حیران
گزشتہ روز واشنگٹن میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے سینکڑوں حامیوں نے ملکی کانگریس کی کیپیٹل ہل کہلانے والی عمارت پر دھاوا بول دیا تھا۔ یہ مشتعل افراد اس وقت اس عمارت میں گھس گئے تھے، جب وہاں کانگریس کا اجلاس جاری تھا۔
تصویر: Leah Millis/REUTERS
پولیس کے مطابق پارلیمانی عمارت میں بدامنی کے دوران چار افراد مارے گئے۔ ان میں سے ایک شخص گولی لگنے سے ہلاک ہوا۔ باقی تین افراد کی موت کی وجہ میڈیکل ایمرجنسی بتائی گئی ہے۔
تصویر: Win McNamee/Getty Images
اس سے قبل ڈونلڈ ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس کے قریب نکالے جانی والی ایک ریلی کے شرکاء سے کیپیٹل ہل کی جانب مارچ کرنے کا کہا تھا اور یہ بھی کہا تھا کہ ایک موقع پر وہ بھی کیپیٹل ہل میں ان کے ساتھ شریک ہو جائیں گے۔ اس موقع پر ان کے الفاظ اور انداز انتہائی اشتعال انگیز تھا۔
تصویر: Roberto Schmidt/AFP/Getty Images
بعدازاں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کیپیٹل ہل پر دھاوا بولنے والے اپنے حامیوں سے گھر واپس چلے جانے کے لیے کہا۔ ٹرمپ نے ان افراد کو پر امن رہنے کی تلقین کرتے ہوئے ہنگامہ آرائی کے باوجود ان کے اس مشن کی پذیرائی بھی کی۔ یہ افراد ٹرمپ کی صدارتی انتخابات میں شکست پر احتجاج کر رہے تھے۔
تصویر: J. Scott Applewhite/AP Photo/picture alliance
نو منتخب امریکی صدر جو بائیڈن نے امریکی پارلیمان کی عمارت کیپیٹل ہل پر دھاوے پر تنقید کرتے ہوئے کہا، ’’یہ حملہ اس مقدس امریکی عمارت پر ہے، جو عوام کے لیے کام کرتی ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ یہ احتجاج نہیں بلکہ بغاوت ہے۔
تصویر: Manuel Balce Ceneta/AP Photo/picture alliance
اس بدامنی میں ملوث باون افراد کو گرفتار بھی کر لیا گیا۔ اب اس عمارت کو مظاہرین سے خالی کروا لیا گیا ہے۔ امریکی جمہوری تاریخ میں ایسا کوئی واقع پہلی مرتبہ پیش آیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اسے امریکی تاریخ کا ’برا ترین دن‘ قرار دیا جا رہا ہے۔
تصویر: Win McNamee/Getty Images
سابق صدر باراک اوباما نے اس پرتشدد واقعے کی ذمہ داری صدر ٹرمپ پر عائد کرتے ہوئے کہا، ’’یہ ہماری قوم کے لیے بے عزتی اور بے شرمی کا لمحہ ہے۔‘‘
تصویر: Win McNamee/Getty Images
امریکا میں عنقریب اپنے عہدے سے رخصت ہونے والے ریپبلکن صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے سینکڑوں حامیوں کی طرف سے کیپیٹل ہل میں بدامنی کے واقعے کی بین الاقوامی سطح پر مذمت کرتے ہوئے اس پر افسوس کا اظہار کیا گیا ہے۔
تصویر: Andrew Harnik/AP Photo/picture alliance
جرمن وزیر خارجہ ہائیکو ماس نے کہا کہ ٹرمپ اور ان کے حامیوں کو ’جمہوریت کو پاؤں تلے کچلنے‘ کا عمل بند کر دینا چاہیے۔
تصویر: Saul Loeb/AFP/Getty Images
برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن نے امریکی کانگریس کی عمارت میں پیش آنے والے واقعات کو شرمناک قرار دیتے ہوئے ان کی مذمت کی۔
تصویر: Win McNamee/Getty Images
اسی طرح یورپی یونین کے خارجہ امور کے نگران اعلیٰ ترین عہدیدار یوزیپ بورَیل نے کہا کہ امریکا ایسے واقعات جیسا تو نہیں ہے۔
تصویر: Andrew Caballero-Reynolds/AFP/Getty Images
آسٹرین چانسلر سباستیان کُرس نے بھی کیپیٹل ہل پر دھاوا بولے جانے پر صدمے کا اظہار کرتے ہوئے اس بدامنی کی مذمت کی۔
تصویر: Leah Millis/REUTERS
اس واقعے کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ نے بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ معمول کے مطابق اقتدار نو منتخب صدر جو بائیڈن کے حوالے کر دیں گے۔ تاہم انہوں نے ابھی تک گزشتہ روز کے واقعے کی مذمت نہیں کی۔
تصویر: Spencer Platt/Getty Images
12 تصاویر1 | 12
راسکن نے اپنے خط میں لکھا ہے”اگر آپ اس دعوت کو مسترد کرتے ہیں تو ہم دیگر اور تمام حقوق محفوظ رکھتے ہیں جس میں سماعت کے موقع پر ہمارا یہ حق بھی شامل ہے کہ آپ کی جانب سے گواہی دینے سے انکار، چھ جنوری 2021 کو پیش آنے والا واقعہ آپ کے منفی عمل (اور غیرعملی) کا نتیجہ سمجھا جائے گا۔"
اشتہار
'سینیٹ کو سماعت کا اختیار نہیں‘
ٹرمپ کے وکیل کاسٹر کا کہنا تھا کہ ٹرمپ کو یہ درخواست مسترد کرنے کا حق حاصل ہے۔”الزامات کو ثابت کرنا ایوان کی ذمہ داری ہے اور اس بوجھ کو اٹھانے میں میں ان کی مدد نہیں کروں گا۔"
متعدد ری پبلیکن سینیٹروں کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کو گواہی دینے کے لیے طلب کرنا درست نہیں ہے۔ ٹرمپ کے زبردست حامی ری پبلیکن سنیٹر لنڈ سے گراہم کا کہنا تھا”مجھے نہیں لگتا کہ اس سے کسی کو فائدہ ہوگا۔"
ٹرمپ کے وکلاء اور بیشتر ریپبلیکن سینیٹرز نے سابق صدر کے خلاف مواخذے کی آئینی حیثیت کو چیلنج کیا ہے۔ ان کی دلیل ہے کہ سینیٹ کو اس طرح کی سماعت کا اختیار ہی نہیں ہے کیونکہ ٹرمپ پہلے ہی عہدہ صدارت سے سبکدوش ہو چکے ہیں اور انہیں صدارت سے ہٹایا نہیں جاسکتا۔
اس طرح کے دلائل سے اندازہ ہوتا ہے کہ ٹرمپ کے خلاف کارروائی کے لیے ووٹنگ کے دوران ری پبلیکن اراکین، ان کو سزا دینے کے خلاف ووٹ دے سکتے ہیں۔
ایک سو رکنی سینیٹ میں ری پبلیکن اراکین کی تعداد نصف ہے جبکہ ٹرمپ کو مجرم قرار دینے کے لیے دو تہائی اکثریت کی حمایت ضروری ہوگی جس کا مطلب ہے کہ تمام پچاس ڈیموکریٹ کے علاوہ کم از کم سترہ ری پبلیکن اراکین بھی ٹرمپ کے خلاف ووٹ دیں۔ لیکن گزشتہ ہفتے 45 ری پبلیکن اراکین نے کہا تھا کہ سابق صدر کے خلاف اس طرح کا مقدمہ غیر آئینی ہے۔
امریکی تاریخ میں دوسری مرتبہ مواخذے کی کارروائی کا سامنا کرنے والے صدر ٹرمپ کے خلاف سینیٹ میں سماعت منگل کو شروع ہونے والی ہے۔ سماعت کے دوران ڈیموکریٹ ٹرمپ کے مبینہ اشتعال انگیز بیانات کو مقدمے کی بنیاد بنائیں گے جب کہ ٹرمپ کے وکلاء سماعت کے آئینی جواز پرزور دیں گے۔
ج ا/ ص ز (روئٹرز، اے ایف پی)
اقوام عالم کے ليے اس سال کے اہم ترین چيلنجز کون سے ہيں؟
کورونا وائرس کی عالمی وبا اور کئی ديگر وجوہات کی بنا پر سن 2020 دنیا کے ليے ايک بہت مشکل سال ثابت ہوا مگر 2021ء کيسا رہے گا؟ يوريشيا گروپ کے مطابق دنیا کے لیے رواں سال کے دس سب بڑے چيلنجز يہ ہيں۔
تصویر: John Macdougall/REUTERS
امریکا کے چھياليس ويں صدر
جو بائيڈن امريکی صدارتی انتخابات ميں فاتح رہے۔ گو کہ ٹرمپ يہ اليکشن ہارے، لیکن انہيں سن 2016 کے مقابلے ميں گيارہ ملين زیادہ ووٹ ملے۔ ٹرمپ کے حامی ان کی پھيلائی ہوئی افراتفری کو ’جرأت‘ کا نام دیتے ہیں۔ ٹرمپ ايک با اثر شخيت کی حيثيت سے وائٹ ہاؤس چھوڑ رہے ہيں اور اس وقت امريکی معاشرہ انتہائی منقسم ہے۔ کئی اداروں ميں قدامت پسندوں کا زور ہے۔ کيا چھياليس ويں امريکی صدر بائیڈن ان چيلنجز سے نمٹ پائيں گے؟
کورونا کی وبا کے طويل المدتی اثرات
کورونا کی وبا 2021ء ميں بھی نہ صرف انفرادی سطح پر لوگوں کی صحت اور زندگيوں بلکہ مجموعی طور پر عالمی سياسی استحکام اور معیشت پر بھی اثر انداز ہوتی رہے گی۔ کئی ممالک ويکسينیشن پر توجہ مرکوز رکھيں گے تاہم اسی دوران وبا کے معاشی اور معاشرتی اثرات بھی نمودار ہوتے رہيں گے۔ کئی خطوں ميں بے روزگاری، نقل مکانی، عدم مساوات اور اعتماد کے فقدان جيسے مسائل ابھر سکتے ہيں۔
تصویر: Dinendra Haria/ZUMAPRESS/picture alliance
تحفظ ماحول
تحفظ ماحول کی کوششيں زور پکڑتی جا رہی ہيں، جس کے نتيجے ميں بڑی اقتصادی قوتوں کے مابين کشيدگی بڑھ سکتی ہے۔ چين کی صنعتی پاليسی کو سنجيدہ چيلنجز سے نمٹنا پڑے گا۔ زہريلی گيسوں کے اخراج کو کم سے کم کرنے کے ليے ہر سطح پر اور ہر ميدان ميں نئے مواقع پيدا ہوں گے۔ مگر ايسے ميں کسی کو مالی فائدہ ہو گا تو کسی کو نقصان۔
تصویر: Ahmad AL-BASHA/AFP
امريکا اور چين کے مابین کشيدگی
روايتی حريف ممالک امريکا اور چين کے مابين کئی معاملات پر کشيدگی ميں کمی کا امکان ہے کيونکہ دونوں ہی سياسی سطح پر استحکام کے خواہاں ہيں۔ مگر ہانگ کانگ، ويکسين ڈپلوميسی، قوم پرستی، تحفظ ماحول سے متعلق پاليسيوں اور دفاعی امور پر نئے اختلافات بھی زور پکڑيں گے۔
تصویر: Lintao Zhang/AP Images/picture alliance
انٹرنيٹ پر ڈيٹا کا تبادلہ
حساس ڈيٹا کے تبادلے ميں رکاوٹوں سے انٹرنيٹ پر برنس کا موجودہ ماڈل متاثر ہو گا۔ مصنوعی ذہانت اور فائيو جی جيسی ٹيکنالوجيز وسعت پائيں گی اور بڑی قوتيں ان کے ذريعے حساس ڈيٹا کے تبادلے سے متعلق اضافی شکوک و شبہات کا شکار ہوں گی۔ اس سال انٹرنيٹ پر ڈيٹا کے آزادانہ تبادلے کا مجموعی ماحول کافی حد تک تبديل ہو جانے کا قوی امکان ہے۔
تصویر: Nicolas Asfouri/AFP/Getty Images
سائبر حملوں کا خطرہ، ہميشہ ہی حقيقی
ايسا کوئی مخصوص اشارہ نہيں کہ رواں سال سائبر حملوں کا خطرہ زيادہ ہے ليکن جيسے جيسے ہر ميدان ميں ڈيجیٹلائزيشن بڑھ رہی ہے، سائبر حملوں کا خطرہ حقيقی طور پر بڑھ رہا ہے۔ ہر کمپيوٹر، ہر موبائل فون يا ہر اسمارٹ ڈيوائس ہيکرز کے ليے ايک موقع فراہم کرتی ہے۔ رواں سال اس ماحول ميں اور بھی اضافہ ممکن ہے۔
تصویر: Colourbox
ترکی کا مستقبل
پچھلے سال اقتصادی ميدان اور کورونا سے نمٹنے ميں ناقص کارکردگی کيا صدر رجب طيب ايردوآن کو لے ڈوبے گی؟ وہ قريب دو دہائيوں سے اقتدار میں ہيں اور عوام ميں اب کچھ تھکاوٹ سی پائی جاتی ہے۔ يہ ماحول معاشرتی تقسيم کے علاوہ انہيں اس بات پر بھی مجبور کر سکتا ہے کہ وہ قوم پرستانہ رجحانات کو ہوا دينے کے ليے خارجہ سطح پر کوئی خطرہ مول لے ليں يا اپوزيشن کو نشانہ بنائيں۔ آئندہ انتخابات ميں کيا ہو گا؟
تصویر: Murat Cetinmuhurdar/Turkish Presidency/handout/picture alliance / AA
وبا سے سب سے زيادہ متاثرہ خطہ مشرق وسطیٰ
وبا سے سب سے زيادہ متاثرہ خطہ مشرق وسطیٰ ہے۔ پچھلے سال توانائی کی مانگ ميں کمی کی وجہ سے تيل کی پيداوار سے منسلک ممالک بری طرح متاثر ہوئے۔ يہ سال تو اس سے بھی کٹھن ثابت ہو گا کيونکہ ايندھن کی قيمتوں ميں زيادہ اتار چڑھاؤ کا امکان کم ہی ہے۔ مشرق وسطیٰ کے کئی ملکوں کی حکومتيں اخراجات کم کريں گی، جس سے بے روزگاری بڑھے گی۔ کئی ملکوں ميں عوامی احتجاجی تحريکيں بھی ديکھنے میں آ سکتی ہيں۔
تصویر: picture-alliance/AP/H. Jamali
ميرکل کے بعد کا يورپ
اس سال جرمنی ميں عام انتخابات ہوں گے۔ چانسلر انگيلا ميرکل کے بعد کے يورپ کے بارے میں سوچنا کئی لوگوں کے ليے واقعی ناقابل تصور بات ہے۔ پندرہ برس سے بھی زیادہ عرصے تک حکومت کرتے ہوئے ميرکل نے نہ صرف جرمنی بلکہ يورپ کو بھی کئی بحرانوں سے نکالا۔ ان کا سیاست کو الوداع کہنا اپنے پیچھے ايک بہت بڑا خلا چھوڑے گا، جس سے يورپی سطح پر اقتصادی بحالی اور بہت سے معاملات ميں خلل پڑ سکتا ہے۔
تصویر: Markus Schreiber/REUTERS
لاطينی امريکا
مشرق وسطیٰ کے بعد پچھلے سال سب سے زيادہ متاثرہ خطہ لاطينی امريکا رہا۔ اس خطے کے ممالک کو ويسے ہی سياسی اور اقتصادی مسائل کا سامنا تھا اور يہی وجہ ہے کہ کورونا ويکسين کی دستيابی کے باوجود اکثر لاطينی امريکی ممالک ميں ويکسينیشن کا عمل شروع ہی نہ ہو سکا۔ اس سال ارجنٹائن اور ميکسيکو ميں عام انتخابات ہونا ہيں جبکہ چلی، پيرو اور ايکواڈور ميں نئے ملکی صدور کے ليے انتخابات بھی ہوں گے۔