امریکی اخبار وال اسٹریٹ جرنل کے مطابق صدر ٹرمپ ایک نئی سیاسی جماعت بنانے پر غور کر رہے ہیں جس کا مجوزہ نام 'پیٹریاٹ پارٹی' ہے۔
اشتہار
صدر ٹرمپ کے قریبی حلقوں کے مطابق حالیہ دنوں میں انہوں نے اپنے ساتھیوں سے اس بارے میں تفصیلی مشورے کیے ہیں۔
اخبار وال اسٹریٹ جرنل کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کے ’’سب سے پہلے امریکا‘‘ نعرے کے تحت اس ممکنہ نئی جماعت کا نام "پیٹریاٹ پارٹی" تجویز کیا گیا ہے۔
اتحادیوں نے پیٹھ دکھا دی
ریپببلکن پارٹی کے سینئر رہنماؤں نے چھ جنوری کو کیپیٹل ہل پر مظاہرین کی چڑھائی کے لیے ٹرمپ کو ذمہ درا ٹھہرایا تھا۔ اطلاعات ہیں کہ صدر ٹرمپ نے اس کے بعد سنجیدگی سے اپنی الگ جماعت کی تشکیل پر غور شروع کر دیا۔
امریکی کانگریس کی عمارت پر اس ہنگامہ آرائی میں پانچ افراد ہلاک ہوئے تھے۔
سینیٹ میں ریپبلکن پارٹی کے قائد ایوان مِچ مِکانیل نے گزشتہ روز کہا کہ ’’کیپیٹل ہل پر حملہ کرنے والوں کو ورغلایا گیا تھا اور خود صدر اور ان کے دیگر ساتھیوں نے نہ صرف انہیں ایسا کرنے کے لیے اشتعال دلایا بلکہ انہوں نے اس مقصد کے لیے خوف و تشدد کا استعمال کیا۔‘‘
اقوام عالم کے ليے اس سال کے اہم ترین چيلنجز کون سے ہيں؟
کورونا وائرس کی عالمی وبا اور کئی ديگر وجوہات کی بنا پر سن 2020 دنیا کے ليے ايک بہت مشکل سال ثابت ہوا مگر 2021ء کيسا رہے گا؟ يوريشيا گروپ کے مطابق دنیا کے لیے رواں سال کے دس سب بڑے چيلنجز يہ ہيں۔
تصویر: John Macdougall/REUTERS
امریکا کے چھياليس ويں صدر
جو بائيڈن امريکی صدارتی انتخابات ميں فاتح رہے۔ گو کہ ٹرمپ يہ اليکشن ہارے، لیکن انہيں سن 2016 کے مقابلے ميں گيارہ ملين زیادہ ووٹ ملے۔ ٹرمپ کے حامی ان کی پھيلائی ہوئی افراتفری کو ’جرأت‘ کا نام دیتے ہیں۔ ٹرمپ ايک با اثر شخيت کی حيثيت سے وائٹ ہاؤس چھوڑ رہے ہيں اور اس وقت امريکی معاشرہ انتہائی منقسم ہے۔ کئی اداروں ميں قدامت پسندوں کا زور ہے۔ کيا چھياليس ويں امريکی صدر بائیڈن ان چيلنجز سے نمٹ پائيں گے؟
کورونا کی وبا کے طويل المدتی اثرات
کورونا کی وبا 2021ء ميں بھی نہ صرف انفرادی سطح پر لوگوں کی صحت اور زندگيوں بلکہ مجموعی طور پر عالمی سياسی استحکام اور معیشت پر بھی اثر انداز ہوتی رہے گی۔ کئی ممالک ويکسينیشن پر توجہ مرکوز رکھيں گے تاہم اسی دوران وبا کے معاشی اور معاشرتی اثرات بھی نمودار ہوتے رہيں گے۔ کئی خطوں ميں بے روزگاری، نقل مکانی، عدم مساوات اور اعتماد کے فقدان جيسے مسائل ابھر سکتے ہيں۔
تصویر: Dinendra Haria/ZUMAPRESS/picture alliance
تحفظ ماحول
تحفظ ماحول کی کوششيں زور پکڑتی جا رہی ہيں، جس کے نتيجے ميں بڑی اقتصادی قوتوں کے مابين کشيدگی بڑھ سکتی ہے۔ چين کی صنعتی پاليسی کو سنجيدہ چيلنجز سے نمٹنا پڑے گا۔ زہريلی گيسوں کے اخراج کو کم سے کم کرنے کے ليے ہر سطح پر اور ہر ميدان ميں نئے مواقع پيدا ہوں گے۔ مگر ايسے ميں کسی کو مالی فائدہ ہو گا تو کسی کو نقصان۔
تصویر: Ahmad AL-BASHA/AFP
امريکا اور چين کے مابین کشيدگی
روايتی حريف ممالک امريکا اور چين کے مابين کئی معاملات پر کشيدگی ميں کمی کا امکان ہے کيونکہ دونوں ہی سياسی سطح پر استحکام کے خواہاں ہيں۔ مگر ہانگ کانگ، ويکسين ڈپلوميسی، قوم پرستی، تحفظ ماحول سے متعلق پاليسيوں اور دفاعی امور پر نئے اختلافات بھی زور پکڑيں گے۔
تصویر: Lintao Zhang/AP Images/picture alliance
انٹرنيٹ پر ڈيٹا کا تبادلہ
حساس ڈيٹا کے تبادلے ميں رکاوٹوں سے انٹرنيٹ پر برنس کا موجودہ ماڈل متاثر ہو گا۔ مصنوعی ذہانت اور فائيو جی جيسی ٹيکنالوجيز وسعت پائيں گی اور بڑی قوتيں ان کے ذريعے حساس ڈيٹا کے تبادلے سے متعلق اضافی شکوک و شبہات کا شکار ہوں گی۔ اس سال انٹرنيٹ پر ڈيٹا کے آزادانہ تبادلے کا مجموعی ماحول کافی حد تک تبديل ہو جانے کا قوی امکان ہے۔
تصویر: Nicolas Asfouri/AFP/Getty Images
سائبر حملوں کا خطرہ، ہميشہ ہی حقيقی
ايسا کوئی مخصوص اشارہ نہيں کہ رواں سال سائبر حملوں کا خطرہ زيادہ ہے ليکن جيسے جيسے ہر ميدان ميں ڈيجیٹلائزيشن بڑھ رہی ہے، سائبر حملوں کا خطرہ حقيقی طور پر بڑھ رہا ہے۔ ہر کمپيوٹر، ہر موبائل فون يا ہر اسمارٹ ڈيوائس ہيکرز کے ليے ايک موقع فراہم کرتی ہے۔ رواں سال اس ماحول ميں اور بھی اضافہ ممکن ہے۔
تصویر: Colourbox
ترکی کا مستقبل
پچھلے سال اقتصادی ميدان اور کورونا سے نمٹنے ميں ناقص کارکردگی کيا صدر رجب طيب ايردوآن کو لے ڈوبے گی؟ وہ قريب دو دہائيوں سے اقتدار میں ہيں اور عوام ميں اب کچھ تھکاوٹ سی پائی جاتی ہے۔ يہ ماحول معاشرتی تقسيم کے علاوہ انہيں اس بات پر بھی مجبور کر سکتا ہے کہ وہ قوم پرستانہ رجحانات کو ہوا دينے کے ليے خارجہ سطح پر کوئی خطرہ مول لے ليں يا اپوزيشن کو نشانہ بنائيں۔ آئندہ انتخابات ميں کيا ہو گا؟
تصویر: Murat Cetinmuhurdar/Turkish Presidency/handout/picture alliance / AA
وبا سے سب سے زيادہ متاثرہ خطہ مشرق وسطیٰ
وبا سے سب سے زيادہ متاثرہ خطہ مشرق وسطیٰ ہے۔ پچھلے سال توانائی کی مانگ ميں کمی کی وجہ سے تيل کی پيداوار سے منسلک ممالک بری طرح متاثر ہوئے۔ يہ سال تو اس سے بھی کٹھن ثابت ہو گا کيونکہ ايندھن کی قيمتوں ميں زيادہ اتار چڑھاؤ کا امکان کم ہی ہے۔ مشرق وسطیٰ کے کئی ملکوں کی حکومتيں اخراجات کم کريں گی، جس سے بے روزگاری بڑھے گی۔ کئی ملکوں ميں عوامی احتجاجی تحريکيں بھی ديکھنے میں آ سکتی ہيں۔
تصویر: picture-alliance/AP/H. Jamali
ميرکل کے بعد کا يورپ
اس سال جرمنی ميں عام انتخابات ہوں گے۔ چانسلر انگيلا ميرکل کے بعد کے يورپ کے بارے میں سوچنا کئی لوگوں کے ليے واقعی ناقابل تصور بات ہے۔ پندرہ برس سے بھی زیادہ عرصے تک حکومت کرتے ہوئے ميرکل نے نہ صرف جرمنی بلکہ يورپ کو بھی کئی بحرانوں سے نکالا۔ ان کا سیاست کو الوداع کہنا اپنے پیچھے ايک بہت بڑا خلا چھوڑے گا، جس سے يورپی سطح پر اقتصادی بحالی اور بہت سے معاملات ميں خلل پڑ سکتا ہے۔
تصویر: Markus Schreiber/REUTERS
لاطينی امريکا
مشرق وسطیٰ کے بعد پچھلے سال سب سے زيادہ متاثرہ خطہ لاطينی امريکا رہا۔ اس خطے کے ممالک کو ويسے ہی سياسی اور اقتصادی مسائل کا سامنا تھا اور يہی وجہ ہے کہ کورونا ويکسين کی دستيابی کے باوجود اکثر لاطينی امريکی ممالک ميں ويکسينیشن کا عمل شروع ہی نہ ہو سکا۔ اس سال ارجنٹائن اور ميکسيکو ميں عام انتخابات ہونا ہيں جبکہ چلی، پيرو اور ايکواڈور ميں نئے ملکی صدور کے ليے انتخابات بھی ہوں گے۔
تصویر: AP Photo/picture alliance
10 تصاویر1 | 10
ریپبلکن پارٹی کی تقسیم
پارٹی رہنماؤں اور صدر کے درمیان اس بیان بازی کے باوجود، ریپبلکن ووٹرز کا ایک اچھا خاصا حصہ اب بھی صدر ٹرمپ کا حامی ہے۔ ان میں ایسے ریپبلکن ووٹرز کی بڑی تعداد ہے جو 2016 میں ٹرمپ کی صدارتی مہم سے سیاست میں سرگرم ہوئے۔
امریکا میں انتخابی سیاست ڈیموکریٹک اور ریپبلکن کے درمیان رہی ہے۔ ماضی میں تیسری جماعت کے پلیٹ فارم پر الیکشن لڑنے والوں کو خاص پذیرائی نہ مل سکی۔ تجزیہ کاروں کے مطابق ان حالات میں سیاسی طور پر تنہائی کے شکار صدر ٹرمپ کے لیے ایک نئی جماعت کھڑی کرنا مشکل ہوگا۔
مبصرین کے مطابق ٹرمپ کی نئی سیاسی جماعت بننے سے ریپبلکن پارٹی کا ووٹ تقسیم ہو سکتا ہے۔ اس لیے قوی امکان ہے کہ ریپبلکن پارٹی ایسے کسی نقصان سے خود کو بچانے کے لیے ٹرمپ کی زبردست مخالفت پر اتر آئے۔
ص ز/ ش ج
امریکی جمہوری تاریخ کا بدنما داغ، دنیا حیران
گزشتہ روز واشنگٹن میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے سینکڑوں حامیوں نے ملکی کانگریس کی کیپیٹل ہل کہلانے والی عمارت پر دھاوا بول دیا تھا۔ یہ مشتعل افراد اس وقت اس عمارت میں گھس گئے تھے، جب وہاں کانگریس کا اجلاس جاری تھا۔
تصویر: Leah Millis/REUTERS
پولیس کے مطابق پارلیمانی عمارت میں بدامنی کے دوران چار افراد مارے گئے۔ ان میں سے ایک شخص گولی لگنے سے ہلاک ہوا۔ باقی تین افراد کی موت کی وجہ میڈیکل ایمرجنسی بتائی گئی ہے۔
تصویر: Win McNamee/Getty Images
اس سے قبل ڈونلڈ ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس کے قریب نکالے جانی والی ایک ریلی کے شرکاء سے کیپیٹل ہل کی جانب مارچ کرنے کا کہا تھا اور یہ بھی کہا تھا کہ ایک موقع پر وہ بھی کیپیٹل ہل میں ان کے ساتھ شریک ہو جائیں گے۔ اس موقع پر ان کے الفاظ اور انداز انتہائی اشتعال انگیز تھا۔
تصویر: Roberto Schmidt/AFP/Getty Images
بعدازاں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کیپیٹل ہل پر دھاوا بولنے والے اپنے حامیوں سے گھر واپس چلے جانے کے لیے کہا۔ ٹرمپ نے ان افراد کو پر امن رہنے کی تلقین کرتے ہوئے ہنگامہ آرائی کے باوجود ان کے اس مشن کی پذیرائی بھی کی۔ یہ افراد ٹرمپ کی صدارتی انتخابات میں شکست پر احتجاج کر رہے تھے۔
تصویر: J. Scott Applewhite/AP Photo/picture alliance
نو منتخب امریکی صدر جو بائیڈن نے امریکی پارلیمان کی عمارت کیپیٹل ہل پر دھاوے پر تنقید کرتے ہوئے کہا، ’’یہ حملہ اس مقدس امریکی عمارت پر ہے، جو عوام کے لیے کام کرتی ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ یہ احتجاج نہیں بلکہ بغاوت ہے۔
تصویر: Manuel Balce Ceneta/AP Photo/picture alliance
اس بدامنی میں ملوث باون افراد کو گرفتار بھی کر لیا گیا۔ اب اس عمارت کو مظاہرین سے خالی کروا لیا گیا ہے۔ امریکی جمہوری تاریخ میں ایسا کوئی واقع پہلی مرتبہ پیش آیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اسے امریکی تاریخ کا ’برا ترین دن‘ قرار دیا جا رہا ہے۔
تصویر: Win McNamee/Getty Images
سابق صدر باراک اوباما نے اس پرتشدد واقعے کی ذمہ داری صدر ٹرمپ پر عائد کرتے ہوئے کہا، ’’یہ ہماری قوم کے لیے بے عزتی اور بے شرمی کا لمحہ ہے۔‘‘
تصویر: Win McNamee/Getty Images
امریکا میں عنقریب اپنے عہدے سے رخصت ہونے والے ریپبلکن صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے سینکڑوں حامیوں کی طرف سے کیپیٹل ہل میں بدامنی کے واقعے کی بین الاقوامی سطح پر مذمت کرتے ہوئے اس پر افسوس کا اظہار کیا گیا ہے۔
تصویر: Andrew Harnik/AP Photo/picture alliance
جرمن وزیر خارجہ ہائیکو ماس نے کہا کہ ٹرمپ اور ان کے حامیوں کو ’جمہوریت کو پاؤں تلے کچلنے‘ کا عمل بند کر دینا چاہیے۔
تصویر: Saul Loeb/AFP/Getty Images
برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن نے امریکی کانگریس کی عمارت میں پیش آنے والے واقعات کو شرمناک قرار دیتے ہوئے ان کی مذمت کی۔
تصویر: Win McNamee/Getty Images
اسی طرح یورپی یونین کے خارجہ امور کے نگران اعلیٰ ترین عہدیدار یوزیپ بورَیل نے کہا کہ امریکا ایسے واقعات جیسا تو نہیں ہے۔
تصویر: Andrew Caballero-Reynolds/AFP/Getty Images
آسٹرین چانسلر سباستیان کُرس نے بھی کیپیٹل ہل پر دھاوا بولے جانے پر صدمے کا اظہار کرتے ہوئے اس بدامنی کی مذمت کی۔
تصویر: Leah Millis/REUTERS
اس واقعے کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ نے بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ معمول کے مطابق اقتدار نو منتخب صدر جو بائیڈن کے حوالے کر دیں گے۔ تاہم انہوں نے ابھی تک گزشتہ روز کے واقعے کی مذمت نہیں کی۔