امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکی خلائی ادارے کو پہلے چاند اور بعد ازاں مریخ پر انسان بھیجنے کے منصوبے پر کام شروع کرنے کی ہدایت کی ہے۔
اشتہار
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پیر کے روز امریکی خلائی ادارے ناسا کو جاری کی گئی پالیسی ہدایات میں کہا ہے کہ ناسا ’خلا میں تحقیق و تلاش کے امریکی پروگرام‘ پر پھر سے توجہ مرکوز کرے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کے مطابق ان اقدامات سے ’ایک طویل المدتی تحقیقی مشن کے لیے سن 1972 کے بعد پہلی مرتبہ امریکی خلانوردوں کو دوبارہ چاند پر بھیجا جائے گا‘۔
امریکی خلائی ادارے ناسا کو چاند اور مریخ سے متعلق مشن دوبارہ شروع کرنے کی ہدایات جاری کرتے ہوئے ٹرمپ کا مزید کہنا تھا، ’’اس مرتبہ ہم (چاند پر) نہ صرف امریکی جھنڈا گاڑیں گے اور اپنے نقش قدم چھوڑیں گے بلکہ ہم ایک ایسی بنیاد بھی رکھیں گے جو بعد ازاں مریخ کی جانب مشن اور ممکنہ طور پر کسی دن اس سے دور کی کسی دنیا تک رسائی کی راہ بھی ہموار کر دے گی۔‘‘
انسانی قدم سے پہلے خلا کا سفر انگلیوں نے کیا
چاند پر نیل آرمسٹرانگ کے پہلا قدم رکھنے سے بہت پہلے مصوروں اور لکھاریوں کی انگلیاں اس ’جائنٹ لیپ‘ یا ’دیوتائی چھلانگ‘ کو تصاویر اور ادب میں منتقل کر چکی تھیں۔
تصویر: Diethelm Wulfert
لامحدود فاصلے
چاند پر پہلا قدم رکھنے والے انسان نیل آرمسٹرانگ سے بہت پہلے کئی مصور اور مصنف خلائی سفر کی عکاسی تصاویر اور ادب پاروں میں کر چکے تھے۔ آج کے اسپیس ہیروز جیسے کردار جرمن کہانیوں کی سیریز پیری رہوڈن میں موجود ہیں۔ ایسی کہانیوں کو جدید ادب کے ابتدائی فن پاروں میں پڑھا جا سکتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
آسمان کا راستہ
یورپ میں لیونارڈو ڈا وِنچی اور کئی دیگر مصور نشاة ثانیہ کی تحریک کے دوران خلا کو موضوع بنا چکے ہیں۔ اطالوی فلسفی جوردانو برونو نے نظام شمسی اور کائنات میں اس کی ماہیت کو موضوع بنایا تھا۔ اسی بنیاد پر انہیں سن 16 سو میں کیتھولک چرچ نے سزائے موت سنا دی تھی۔
تصویر: picture-alliance / maxppp
انسان چاند پر
کلیسا ان تمام تر اقدامات کے باوجود سائنس کو دبانے میں ناکام رہا۔ محقق اپنے راستے پر جتے رہے اور لکھاری بھی ان موضوعات پر قلم اٹھاتے رہے۔ 1638 میں انگریز مصنف فرانسس گوڈوِن نے مشہور زمانہ ناول ’مین ان دا مون‘ یا ’انسان چاند پر‘ تحریر کیا۔
تصویر: NASA/Newsmakers
تخیل کا سفر جاری
اسی موضوع پر سن 1828ء تا 1905ء تک زندہ رہنے والے فرانسیسی لکھاری ژولے ویرنے نے اپنا ناول ’فروم ارتھ ٹو دا مُون‘ یا ’زمین سے چاند تک‘ لکھا۔ انہیں اسی ناول کے تناظر میں سائنس فکشن ادب کے بانیوں میں سے ایک قرار دیا جاتا ہے۔
تصویر: picture alliance / Mary Evans Picture Library
خلا کے موضوع پر پہلی فیچر فلم
سن 1902ء میں خلا کے موضوع کو پہلی مرتبہ بڑی اسکرین پر منتقل کیا گیا۔ اس فلم میں زمین سے چاند تک کے تصوراتی سفر کی عکاسی کی گئی۔ اس فلم میں خلا نوردوں کو ایک کیپسول کے ذریعے چاند تک پہنچتے دکھایا گیا۔ اس فلم کے مناظر بعد میں بار بار مختلف حوالوں کے لیے بھی استعمال ہوتے رہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
سیاہ چوکور
روسی مصور کاسیمیر مالیوِچ نے سن 1914 اور 1915 کے درمیان ایک تجریدی پینٹنگ بنائی، جس میں تمثیلی انداز میں بے وزنی کی کیفیت دکھائی گئی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa
راکٹ کا جنون
سن 1929ء میں شہرہ آفاق ہدایت کار فریٹس لانگ نے ’عورت چاند پر‘ کے موضوع پر فلم بنائی۔ اس فلم کے بعد جرمنی میں خلا میں سفر کا بے انتہا جنون پیدا ہوا اور خلائی تحقیق پر توجہ دی جانے لگی، تاہم دوسری عالمی جنگ نے جرمنی میں چاند کے سفر کی امیدوں کو خاک میں ملا دیا۔
تصویر: picture-alliance/KPA
خلائی جہاز ستاروں کے راستے پر
امریکا میں سن 1969ء میں چاند پر اترنے سے قبل سٹار ٹریک نامی فلم منظرِ عام پر آ چکی تھی، تاہم چاند پر انسانی قدم پڑ جانے کے باوجود آگے سے آگے کی خواہش مزید بڑھتی چلی گئی۔ اپالو گیارہ کے ذریعے چاند تک انسان کو لے جانے اور واپس زمین پر پہنچا دینے کے کامیاب سفر کے بعد انسانی نگاہ دیگر سیاروں کی طرف بڑھتی چلی گئی۔ تاہم مصنفین اور مصوروں کے قلم یہاں بھی سائنسدانوں سے آگے ہی رہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
یوایف او ہاؤس
1968ء فن لینڈ کے ماہر تعمیرات ماتی سرونن نے سائنس فکشن سے متاثر ہوتے ہوئے دائرہ نما مکان تعمیر کیا، جسے یو ایف او ہاؤس کا نام دیا گیا۔ جرمن فنکار اور خلا ئی موضوعات پر تخیل دوڑانے والے چارلس ویلپ اسی عمارت میں بیٹھا کرتے تھے۔
تصویر: cc-by-sa-Martin Vogel
ستاروں کی گرد سے فن پارے
جرمن مصورہ اُلریکے آرنولڈ نے خلا کو اپنے فن کا موضوع بنایا۔ انہوں نے سیارچوں کی گرد اور کائناتی مادوں کو اپنی پینٹنگز کا حصہ بنایا۔ انہوں نے ریت کو رنگوں میں شامل کر کے جنت اور جہنم اور خلا و کائنات کے دیگر کئی مناظر کی عکاسی بھی کی۔
تصویر: Diethelm Wulfert
10 تصاویر1 | 10
یہ امر بھی اہم ہے کہ دسمبر سن 1972 میں اپالو 17 نامی مشن کے بعد سے اب تک چاند پر کوئی اور مشن نہیں بھیجا گیا۔ علاوہ ازیں اب تک چاند کی سطح پر قدم رکھنے والے تمام بارہ خلا نورد امریکی شہری تھے۔
ٹرمپ سے قبل بھی ان کے پیش رو امریکی صدور چاند اور مریخ پر مشن بھیجنے کے اعلانات کرتے رہے ہیں تاہم بجٹ کے مسائل کے باعث ان منصوبوں کو عملی شکل نہیں دی جا سکی تھی۔
وائٹ ہاؤس میں منعقدہ ناسا کے لیے تازہ پالیسی ہدایات جاری کیے جانے کی اس تقریب میں کئی موجودہ اور سابقہ امریکی خلابازوں نے بھی شرکت کی۔ ان میں چاند پر قدم رکھنے والے دوسرے خلانورد بزَ الڈرین کے علاوہ اپالو 17 مشن میں شامل خلاباز اور سابق امریکی سینیٹر ہیریسن جیک شمٹ بھی شامل تھے۔
جیک شمٹ کی موجودگی میں ٹرمپ نے کہا، ’’آج ہم عہد کرتے ہیں کہ وہ چاند پر قدم رکھنے والے آخری امریکی نہیں ہوں گے اور ہم چاند کے علاوہ دیگر سیاروں پر بھی امریکی جھنڈا نصب کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔‘‘
صدر ٹرمپ نے ناسا کو جاری کردہ ان ہدایات میں یہ بھی کہا ہے کہ امریکی خلائی ادارہ دیگر ممالک اور نجی ملکیت میں شروع کردہ خلائی پروگراموں سے بھی تعاون کرے گا۔
مریخ پر جانے کے لیے پرعزم سائنسدانوں کا خواب پورا ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ لیکن ان کی پہلی منزل زمین ہی ہو گی۔
تصویر: R. Dückerhoff
شاندار نظارہ
ہوائی کے جزیرے پر آتش فشاں ماؤنا لوآ کی سنگلاخ چٹانوں پر مریخ کا ایک ’مصنوعی تجرباتی سفر‘ کرنے کی تیاری کی گئی ہے۔ اٹھائیس اگست سے شروع ہونے والے اس غیر حقیقی سفر میں ایک سال کے دوران چھ مختلف افراد تجربات کریں گے۔ یہ سائنسدان ایک ایسے گنبد نما خیمے میں رہیں گے، جس کے ارد گرد پتھروں کے علاوہ کچھ نہیں ہو گا۔
تصویر: R. Dückerhoff
مریخ پر قیام
اس مصنوعی مشن HI-SEAS 4 میں جرمن خاتون سائنسدان کرسٹیانے ہائینِکے بھی خدمات سر انجام دے رہی ہیں۔ امریکی خلائی ادارے ناسا کی مالی معاونت سے تیار کردہ اس مشن میں متعدد خلا باز مختلف قسم کی سرگرمیاں مکمل کریں گے۔ اس مشن کا مقصد یہ جاننا ہے کہ مستقبل میں مریخ پر جانے والے خلا بازوں کے مشترکہ مسائل کی وجہ سے ان کا مشن کس حد تک متاثر ہو سکتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/H. Schmidt
آرام دہ رہائش
پانچ امریکی اور یورپی سائنسدانوں کے ہمراہ جرمن سائنسدان کرسٹیانے ہائینِکے بھی اس خیمے میں وقت گزاریں گی۔ اس آرام دہ رہائش گاہ کا قطر گیارہ میٹر ہے۔ ہفتے میں دو مرتبہ یہ سائنسدان اپنا خلائی لباس پہن کر مصنوعی حالات میں اپنے خیمے سے باہر نکل کر تجربات کریں گے۔ باقی تمام وقت یہ اسی خیمے میں ہی گزاریں گے۔ یہ باہر کی دنیا سے صرف ریکارڈ شدہ پیغامات اور ای میل کے ذریعے ہی رابطہ کر سکیں گے۔
تصویر: R. Dückerhoff
سرخ سیارہ، بے جان سیارہ
ہوائی یونیورسٹی کے سائنسدانوں کے مطابق آتش فشاں ماؤنا لوآ مریخ کے اس خیالی مشن کے لیے ایک بہترین مقام ہے۔ ان دونوں مقامات پر نباتات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ جنگلی حیات بھی موجود نہیں اور آپ کہیں پانی بھی نہیں دیکھ سکتے۔
تصویر: NASA/JPL-Caltech/MSSS
خطرناک سفر
حقیقی مشن کے دوران سرخ سیارے پر پہنچنے کے لیے ہی آٹھ ماہ درکار ہوں گے۔ سائنسدان ایسے کسی مشن سے پہلے بھرپور تیاری کے علاوہ یہ بھی جاننا چاہتے ہیں کہ یہ طویل سفر خلا بازوں پر کس طرح کے ممکنہ اثرات مرتب کر سکتا ہے۔ خلا باز تنہائی کا مقابلہ کیسے کریں گے؟ کوئی باہمی تنازعہ پیدا ہوا تو کیا کریں گے؟ سائنسدانوں کو تحفظات کا سامنا ہے کہ اس طویل مشن سے خلا بازوں میں ڈپریشن اور سستی بھی پیدا ہو سکتے ہیں۔
تصویر: imago/United Archives
مریخ 500
’مارس 500‘ نامی ایک اسٹڈی ماسکو میں کی گئی تھی۔ 2010ء اور 2011ء کے دوران کیے گئے اس مطالعے میں بھی مریخ کا ایک مصنوعی مشن مکمل کیا گیا تھا۔ 520 دنوں کے اس طویل مشن میں مریخ سے واپسی کی تصوراتی پرواز بھی شامل تھی۔ خلا بازوں کی تنہائی کے حوالے سے یہ طویل ترین مطالعہ تھا۔ نتائج کے مطابق چند خلا باز مصنوعی حالات کی وجہ سے کچھ ڈپریشن کا شکار ہو گئے تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/ESA
اونچے گلیشیئر پر
گلیشیئر پر مصنوعی تجرباتی مریخ مشن Amadee-15 کے دوران نتائج کچھ مختلف رہے۔ اس مشن کے دوران خلا بازوں نے آسٹریا میں ایلپس کے پہاڑی سلسلے میں انتہائی اونچائی پر واقع برفانی تودوں میں وقت گزارا۔ دو ہفتے طویل اس مصنوعی مشن کو موسم سرما میں مکمل کیا گیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Röder
صحرا میں
خلائی امور کے حوالے سے آگاہی کے منصوبے چلانے والی ’مارس سوسائٹی‘ نامی غیر سرکاری تنظیم نے تجربات کے لیے تین سینٹرز بنائے ہیں۔ ان میں سے ایک صحرائی تحقیقی مرکز امریکا کی ریاست یُوٹاہ کے صحرائی علاقوں میں بھی بنایا گیا ہے۔ ایسا ہی ایک چوتھا سینٹر آسٹریلیا کے شمالی ایڈیلڈ علاقے میں قائم کرنے کا منصوبہ بھی بنایا جا رہا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/G. Frey
دنیا کا سب سے الگ تھلگ علاقہ
مریخ کو بے جان، سرد اور انتہائی الگ تھلگ سیارہ قرار دیا جاتا ہے۔ یہی خصوصیات انٹارکٹیکا کی بھی ہیں۔ اسی لیے مریخ کے سفر کی تیاریوں کے سلسلے میں اس براعظم پر بھی ایک سینٹر بنایا گیا ہے۔ وہاں زندگی انتہائی مشکل ہے، بالخصوص تاریخ موسم سرما کے دوران۔ سائنسدان وہاں قائم تجربہ گاہ میں خلا بازوں پر تنہائی کے اثرات کے علاوہ نفسیاتی دباؤ کی کیفیت اور نیند کے اوقات میں خلل کا معائنہ بھی کرتے ہیں۔
ٹیکنالوجی کے بغیر کوئی انسان نہ تو مریخ پر رہ سکتا ہے اور نہ ہی پانی میں۔ اسی لیے سائنسدانوں نے سمندر کی گہرائیوں میں بھی تجربہ گاہیں قائم کی ہیں، جہاں نہ روشنی ہے اور نہ ہی ہوا۔ ناسا نے فلوریڈا میں کی لارگو نامی جزیرے سے منسلک پانیوں میں 62 فٹ کی گہرائی میں ایک تجرباتی اسٹیشن قائم کیا ہے۔ وہاں تین ہفتوں کے لیے مختلف افراد کو بھیجا جاتا ہے اور ان پر مصنوعی ماحول کا اثر جانچنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/NASA
ہر شے کا تجربہ ضروری
مریخ کے سفر پر تجربات کے علاوہ محققین یہ جاننے کی کوشش میں بھی ہیں کہ اس سرخ سیارے پر قیام کے دوران انسانوں پر کیا اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ جرمن ایئر سپیس سینٹر میں Envihab نامی ایک ایسی طبی تجربہ گاہ بھی بنائی گئی ہے جہاں یہ معلوم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ کسی دوسرے سیارے کا ماحول انسان پر کیا کیا اثرات مرتب کر سکتا ہے۔
تصویر: DW/F. Schmidt
خوراک کا انتظام
مریخ پر کاشت کاری ممکن نہیں ہے۔ تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر انسان اس بے جان سیارے پر طویل قیام کرتے ہیں تو وہ کیا کھائیں گے؟ Envihab میں سرگرم سائنسدان اپنے تجربات میں یہ جاننے کی کوشش میں ہیں کہ وہ ایسا کون سا پودا ہے، جو گلاس کے مرتبان میں نشو ونما پا سکتا ہے، تاکہ مریخ پر قیام کرنے والوں کو تازہ خوراک فراہم ہو سکے۔
تصویر: DW/F.Schmidt
مریخ پر جانے کی بے قراری
ترقی یافتہ ممالک مریخ مشن کو عملی جامہ پہننانے کے حوالے سے ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی خواہش رکھتے ہیں۔ شاید 2030ء یا 2035ء تک مریخ پر جانا ممکن ہو سکتا ہے۔ تاہم فی الحال انسانوں کو اپنی اس خواہش کی تکمیل کے لیے زمین پر ہی تجربات جاری رکھنا ہوں گے۔