ٹرمپ کو بھی صدام کی طرح شکست دیں گے، ایرانی صدر روحانی
22 ستمبر 2018
ایرانی صدر حسن روحانی کے مطابق تہران اپنا میزائل پروگرام ترک نہیں کرے گا اور امریکی صدر ٹرمپ کو بھی سابق عراقی آمر صدام حسین کی طرح شکست سے دوچار کر دے گا۔ ان کے بقول امریکا ایران کے ساتھ اپنے تصادم میں ناکام رہے گا۔
اشتہار
متحدہ عرب امارات میں دبئی سے موصولہ نیوز ایجنسی روئٹرز کی رپورٹوں کے مطابق ایران صدر حسن روحانی نے مشرق وسطیٰ کی دو طاقتوں کے طور پر برسوں پہلے اسلامی جمہوریہ ایران اور صدام دور کے عراق کے مابین ہونے والی جنگ کا حوالہ دیتے ہوئے ہفتہ اکیس ستمبر کے روز کہا کہ ایران امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو بھی ان کے ارادوں میں اسی طرح ناکام بنا دے گا، جیسے اس نے عراقی صدر صدام حسین کو ارادوں کا ناکام بنا دیا تھا۔
امریکا اور ایران کے مابین کشیدگی اس سال مئی میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس فیصلے کے بعد سے اور زیادہ ہو چکی ہے، جس میں انہوں نے عالمی طاقتوں کے ایران کے ساتھ اس کے جوہری پروگرام سے متعلق معاہدے سے امریکا کے اخراج کا اعلان کر دیا تھا۔ اس فیصلے کے بعد ٹرمپ نے گزشتہ ماہ اگست میں ایران کے خلاف امریکی پابندیاں بھی بحال کر دی تھیں۔
ایران پر امریکی پابندیوں کا نفاذ، کیا کچھ ممکن ہے!
ٹرمپ انتظامیہ نے ایران پر پابندیوں کے پہلے حصے کا نفاذ کر دیا ہے۔ بظاہر ان پابندیوں سے واشنگٹن اور تہران بقیہ دنیا سے علیحدہ ہو سکتے ہیں۔پابندیوں کے دوسرے حصے کا نفاذ نومبر میں کیا جائے۔
تصویر: Reuters/TIMA/N. T. Yazdi
ٹرمپ نے پابندیوں کے ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط کر دیے
پابندیوں کے صدارتی حکم نامے پر صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پانچ اگست کو دستخط کیے۔ ٹرمپ کے مطابق ایران پر اقتصادی دباؤ انجام کار اُس کی دھمکیوں کے خاتمے اور میزائل سازی کے علاوہ خطے میں تخریبی سرگرمیوں کے خاتمے کے لیے ایک جامع حل کی راہ ہموار کرے گا۔ ٹرمپ کے مطابق جو ملک ایران کے ساتھ اقتصادی رابطوں کو ختم نہیں کرے گا، اُسے شدید نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔
تصویر: Shealah Craighead
رقوم کہاں جائیں گی؟
پانچ اگست کو جاری کردہ پابندیوں کے حکم نامے پر عمل درآمد سات اگست سے شروع ہو گیا ہے۔ اس پابندی کے تحت ایران کی امریکی کرنسی ڈالر تک رسائی کو محدود کرنا ہے تاکہ تہران حکومت اپنی بین الاقوامی ادائیگیوں سے محروم ہو کر رہ جائے اور اُس کی معاشی مشکلات بڑھ جائیں۔ اسی طرح ایران قیمتی دھاتوں یعنی سونا، چاندی وغیرہ کی خریداری بھی نہیں کر سکے گا اور اس سے بھی اُس کی عالمی منڈیوں میں رسائی مشکل ہو جائے گی۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Kenare
ہوائی جہاز، کاریں اور قالین
سات اگست سے نافذ ہونے والی پابندیوں کے بعد ایران ہوائی جہازوں کے علاوہ کاریں بھی خریدنے سے محروم ہو گیا ہے۔ ایران کی امپورٹس، جن میں گریفائٹ، ایلومینیم، فولاد، کوئلہ، سونا اور بعض سوفٹ ویئر شامل ہیں، کی فراہمی بھی شدید متاثر ہو گی۔ جرمن کار ساز ادارے ڈائملر نے ایران میں مرسیڈیز بینز ٹرکوں کی پروڈکشن غیر معینہ مدت کے لیے معطّل کر دی ہے۔
تصویر: picture alliance/AP Photo
جلتی آگ پر تیل ڈالنا
ایران پر پابندیوں کے دوسرے حصے کا نفاذ رواں برس پانچ نومبر کو ہو جائے گا۔ اس پابندی سے ایران کی تیل کی فروخت کو کُلی طور پر روک دیا جائے گا۔ تیل کی فروخت پر پابندی سے یقینی طور پر ایرانی معیشت کو شدید ترین دھچکا پہنچے گا۔ دوسری جانب کئی ممالک بشمول چین، بھارت اور ترکی نے عندیہ دے رکھا ہے کہ وہ توانائی کی اپنی ضروریات کے مدِنظر اس پابندی پر پوری طرح عمل نہیں کر سکیں گے۔
تصویر: Reuters/R. Homavandi
نفسیاتی جنگ
ایران کے صدر حسن روحانی نے امریکی پابندیوں کے حوالے سے کہا ہے کہ واشنگٹن نے اُن کے ملک کے خلاف نفسیاتی جنگ شروع کر دی ہے تا کہ اُس کی عوام میں تقسیم کی فضا پیدا ہو سکے۔ روحانی کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ اپنے اتحادیوں چین اور روس پر تکیہ کرتے ہوئے اپنے تیل کی فروخت اور بینکاری کے شعبے کو متحرک رکھ سکتا ہے۔ انہوں نے ایران میں امریکی مداخلت سے پہنچنے والے نقصان کا تاوان بھی طلب کیا ہے۔
یورپی یونین کی خارجہ امور کی چیف فیڈیریکا موگیرینی کا کہنا ہے کہ اُن کا بلاک ایران کے ساتھ چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبار کو جاری رکھنے کی حوصلہ افزائی کرے گا۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ تہران سن 2015 کی جوہری ڈیل کے تحت دی گئی کمٹمنٹ کو پورا نہ کرنے پر بھی شاکی ہے۔ یہ امر اہم ہے کہ یورپی یونین یورپی تاجروں کے تحفظ کا خصوصی قانون متعارف کرا رکھا رکھا ہے۔
ایرانی صدر نے اپنے اس بیان میں بیک وقت ٹرمپ اور صدام حسین کا حوالہ اس لیے دیا کہ آج ہفتے کے روز جب حسن روحانی نے یہ بات کہی، اسی وقت ایران خلیج کے علاقے میں اپنی بحری طاقت کا مظاہرہ بھی کر رہا تھا۔ یہ مظاہرہ ایرانی بحریہ کی ان سالانہ پریڈوں میں کیا گیا، جو ملکی دارالحکومت تہران کے علاوہ خلیج کی ایرانی بندرگاہ بندر عباس میں بھی کی جا رہی تھیں۔ ان دونوں مقامات پر ایرانی عسکری طاقت کے مظاہرے کی وجہ ایران اور عراق کے مابین اس جنگ کے آغاز کی سالگرہ منانا تھا، جو 1980ء میں شروع ہو کر 1988ء تک جاری رہی تھی۔
ایران کے خلاف امریکی پابندیوں کی بحالی کے بعد سے گزشتہ چند ہفتوں میں تہران بین السطور میں ایک سے زائد مرتبہ یہ بھی کہہ چکا ہے کہ اگر واشنگٹن نے ایرانی خام تیل کی فروخت یا برآمد کو روکنے کی کوشش کی، تو تہران کی طرف سے خلیج کے علاقے میں عسکری اقدامات بھی خارج از امکان نہیں ہوں گے۔
ایرانی حکومت کی طرف سے دیے جانے والے ان اشاروں کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ امریکا نے خلیج کے علاقے میں اپنا ایک ایسا بحری بیڑہ بھی تعینات کر رکھا ہے جو وہاں تجارتی جہاز رانی کے لیے استعمال ہونے والے سمندری راستوں کی حفاظت کرتا ہے۔
اسی تناظر میں صدر روحانی نے ہفتے کے روز ٹیلی وژن سے براہ راست نشر کردہ ایرانی قوم سے اپنے خطاب میں کہا، ’’ٹرمپ کے ساتھ بھی وہی کچھ ہو گا۔ امریکا کا مقدر بھی وہی شکست ہو گی، جو صدام حسین کا مقدر بنی تھی۔‘‘
اس موقع پر حسن روحانی نے مزید کہا، ’’ایران اپنے لیے دفاعی ہتھیار تیار کرنے کا پروگرام ترک نہیں کرے گا۔ ان ہتھیاروں میں وہ میزائل بھی شامل ہیں، جن پر امریکا بہت تلملا رہا ہے۔‘‘
ایران کے سرکاری میڈیا کے مطابق آج ہفتے کے روز خلیج کے سمندری علاقے میں ہونے والی پریڈ میں ایران کے 600 کے قریب بحری جہازوں اور جنگی کشتیوں نے حصہ لیا۔ اس بحری پریڈ سے ایک روز قبل کل جمعے کو ایران کی طرف سے اسی سمندری علاقے میں فضائی مشقیں بھی کی گئی تھیں۔
اہواز میں فائرنگ
آج ہفتے کے روز ایرانی شہر اہواز میں ایک فوجی پریڈ کے دوران ہونے والی فائرنگ کے نتیجے میں متعدد افراد ہلاک یا زخمی ہو گئے۔ روئٹرز نے مقامی میڈیا کے حوالے سے بتایا کہ اس پریڈ کے دوران ایک نامعلوم مسلح شخص نے فائرنگ کر دی تھی۔ اس کے برعکس سرکاری ٹیلی وژن کے مطابق اہواز میں پریڈ کے دوران چند مسلح افراد نے شرکاء پر پشت کی جانب سے فائرنگ کی، جس کی وجہ سے متعدد افراد ہلاک یا زخمی ہو گئے۔ اس واقعے کی تفصیلات ابھی موصول ہو رہی ہیں۔
م م / ع ب / روئٹرز
ایرانی انقلاب سے لے کر اب تک کے اہم واقعات، مختصر تاریخ
جنوری سن 1979 میں کئی ماہ تک جاری رہنے والی تحریک کے بعد ایرانی بادشاہ محمد رضا پہلوی کے اقتدار کا خاتمہ ہوا۔ تب سے اب تک ایرانی تاریخ کے کچھ اہم واقعات پر ایک نظر اس پکچر گیلری میں۔
تصویر: takhtejamshidcup
16 جنوری 1979
کئی ماہ تک جاری مظاہروں کے بعد امریکی حمایت یافتہ رضا پہلوی ایران چھوڑ کر چلے گئے۔ یکم فروری کے روز آیت اللہ خمینی واپس ایران پہنچے اور یکم اپریل سن 1979 کو اسلامی ریاست کے قیام کا اعلان کیا گیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/AFP/G. Duval
4 نومبر 1979
اس روز خمینی کے حامی ایرانی طلبا نے تہران میں امریکی سفارت خانہ پر حملہ کر کے 52 امریکیوں کو یرغمال بنا لیا۔ طلبا کا یہ گروہ امریکا سے رضا پہلوی کی ایران واپسی کا مطالبہ کر رہے تھے۔ ان مغویوں کو 444 دن بعد اکیس جنوری سن 1981 کو رہائی ملی۔
تصویر: picture-alliance/AP Images/M. Lipchitz
22 ستمبر 1980
عراقی فوجوں نے ایران پر حملہ کر دیا۔ یہ جنگ آٹھ برس تک جاری رہی اور کم از کم ایک ملین انسان ہلاک ہوئے۔ اقوام متحدہ کی کوششوں سے بیس اگست سن 1988 کے روز جنگ بندی عمل میں آئی۔
تصویر: picture-alliance/Bildarchiv
3 جون 1989
خمینی انتقال کر گئے اور ان کی جگہ علی خامنہ ای کو سپریم لیڈر بنا دیا گیا۔ خامنہ سن 1981 سے صدر کے عہدے پر براجمان تھے۔ صدر کا انتخاب نسبتا روشن خیال اکبر ہاشمی رفسنجانی نے جیتا اور وہ سن 1993 میں دوبارہ صدارتی انتخابات بھی جیت گئے۔ رفسنجانی نے بطور صدر زیادہ توجہ ایران عراق جنگ کے خاتمے کے بعد ملکی تعمیر نو پر دی۔
تصویر: Fararu.com
23 مئی 1997
رفسنجانی کے اصلاح پسند جانشین محمد خاتمی قدامت پسندوں کو شکست دے کر ملکی صدر منتخب ہوئے۔ وہ دوبارہ سن 2001 دوسری مدت کے لیے بھی صدر منتخب ہوئے۔ انہی کے دور اقتدار میں ہزاروں ایرانی طلبا نے ملک میں سیکولر جمہوری اقدار کے لیے مظاہرے کیے۔ سن 1999 میں ہونے والے ان مظاہروں میں کئی طلبا ہلاک بھی ہوئے۔
تصویر: ISNA
29 جنوری 2002
امریکی صدر جارج ڈبلیو بش جونیئر نے ایران کو عراق اور شمالی کوریا کے ساتھ ’بدی کا محور‘ قرار دیا۔ امریکا نے ایران پر مکمل تجارتی اور اقتصادی پابندیاں سن 1995 ہی سے عائد کر رکھی تھیں۔
تصویر: Getty Images
25 جون 2005
قدامت پسند سیاست دان محمود احمدی نژاد ایرانی صدر منتخب ہوئے۔ اگست میں انہوں نے کہا کہ ’اسرائیل کو دنیا کے نقشے سے مٹا دینا چاہیے‘ اور انہی کے دور اقتدار میں ایرانی ایٹمی پروگرام تیزی سے بڑھایا گیا۔ سن 2009 میں وہ دوسری مرتبہ صدر منتخب ہوئے تو ملک گیر سطح پر اصلاح پسند ایرانیوں نے احتجاج شروع کیا جس کے بعد ایران میں ایک بحرانی صورت حال بھی پیدا ہوئی۔
تصویر: Fars
25 جون 2005
قدامت پسند سیاست دان محمود احمدی نژاد ایرانی صدر منتخب ہوئے۔ اگست میں انہوں نے کہا کہ ’اسرائیل کو دنیا کے نقشے سے مٹا دینا چاہیے‘ اور انہی کے دور اقتدار میں ایرانی ایٹمی پروگرام تیزی سے بڑھایا گیا۔ سن 2009 میں وہ دوسری مرتبہ صدر منتخب ہوئے تو ملک گیر سطح پر اصلاح پسند ایرانیوں نے احتجاج شروع کیا جس کے بعد ایران میں ایک بحرانی صورت حال بھی پیدا ہوئی۔
تصویر: Reuters/Tima
جنوری 2016
خطے میں ایرانی حریف سعودی عرب نے ایران کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کر دیے جس کا سبب ایران کی جانب سے سعودی عرب میں شیعہ رہنما شیخ نمر کو پھانسی دیے جانے پر تنقید تھی۔ سعودی عرب نے ایران پر شام اور یمن سمیت عرب ممالک کے معاملات میں مداخلت کا الزام بھی عائد کیا۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Kenare
19 مئی 2017
اصلاح پسند حلقوں اور نوجوانوں کی حمایت سے حسن روحانی دوبارہ ایرانی صدر منتخب ہوئے اور اسی برس نئے امریکی صدر ٹرمپ نے جوہری معاہدے کی ’تصدیق‘ سے انکار کیا۔ حسن روحانی پر اصلاحات کے وعدے پورے نہ کرنے پر تنقید کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا اور اٹھائیس دسمبر کو پر تشدد مظاہرے شروع ہو گئے جن میں اکیس ایرانی شہری ہلاک ہوئے۔