امریکی ایوان نمائندگان کی اسپیکر نینسی پلوسی نے کہا ہے کہ ڈیموکریٹک پارٹی اسی ہفتے صدر کے مواخذے کی کارروائی کا آغاز کرنے کے لیے تیار ہے۔
اشتہار
اتوار کو ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ اگرنائب صدر مائیک پینس نے ٹرمپ کو صدر کے منصب کے لیے غیر موزوں قرار نہ دیا تو انہیں مواخذے کا سامنا کرنا پڑے گا۔ صدر ٹرمپ کی چار سالہ مدت صدارت کے دوران ایسا دوسری بار ہوگا کہ انہیں مواخذے کا سامنا کرنا ہوگا۔
مبصرین کے نزدیک نائب صدر مائیک پینس کی طرف سے پچیسویں آئینی ترمیم کے تحت صدر ٹرمپ کو نااہل قرار دیے جانے کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے۔
سینیئر ڈیموکریٹک ارکان نے اشارہ دیا ہے کہ ایوان نمائندگان میں مواخذے کی کارروائی پر منگل یا بدھ کو ووٹنگ کرائی جا سکتی ہے۔ تاہم امریکی سینٹ میں اس معاملے کو نو منتخب صدر جو بائیڈن کی حکومت قائم ہونے کے تین ماہ بعد بھیجا جاسکتا ہے۔
ڈیموکریٹک پارٹی کے ارکان کی نظر میں نئے صدر کو اپنے ابتدائی تین ماہ میں ملکی حالات سدھارنے پر توجہ دینے کی ضرورت ہوگی اور سینٹ میں ٹرمپ کے مواخذے کی کارروائی اقتدار کے سو روز بعد عمل میں لائی جا سکتی ہے۔
امریکا 'مزید منقسم‘
صدر ٹرمپ کے حامیوں کی طرف سے گذشتہ بدھ کے روز واشنگٹن میں امریکی کانگریس کی عمارت پر ہنگامہ آرائی کے بعد سے ان پر ڈیموکریٹک اور ریپبلکن ارکان دونوں کی طرف سے زبردست تنقید دیکھنے میں آئی ہے۔ کیپیٹل ہِل پر توڑ پھوڑ کے واقعات میں پانچ لوگ مارے گئے اور امریکا میں بیشتر مبصرین نے اس غیرمعمولی فساد کے لیے صدر ٹرمپ کو ذمہ دار ٹہرایا۔
امریکی جمہوری تاریخ کا بدنما داغ، دنیا حیران
گزشتہ روز واشنگٹن میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے سینکڑوں حامیوں نے ملکی کانگریس کی کیپیٹل ہل کہلانے والی عمارت پر دھاوا بول دیا تھا۔ یہ مشتعل افراد اس وقت اس عمارت میں گھس گئے تھے، جب وہاں کانگریس کا اجلاس جاری تھا۔
تصویر: Leah Millis/REUTERS
پولیس کے مطابق پارلیمانی عمارت میں بدامنی کے دوران چار افراد مارے گئے۔ ان میں سے ایک شخص گولی لگنے سے ہلاک ہوا۔ باقی تین افراد کی موت کی وجہ میڈیکل ایمرجنسی بتائی گئی ہے۔
تصویر: Win McNamee/Getty Images
اس سے قبل ڈونلڈ ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس کے قریب نکالے جانی والی ایک ریلی کے شرکاء سے کیپیٹل ہل کی جانب مارچ کرنے کا کہا تھا اور یہ بھی کہا تھا کہ ایک موقع پر وہ بھی کیپیٹل ہل میں ان کے ساتھ شریک ہو جائیں گے۔ اس موقع پر ان کے الفاظ اور انداز انتہائی اشتعال انگیز تھا۔
تصویر: Roberto Schmidt/AFP/Getty Images
بعدازاں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کیپیٹل ہل پر دھاوا بولنے والے اپنے حامیوں سے گھر واپس چلے جانے کے لیے کہا۔ ٹرمپ نے ان افراد کو پر امن رہنے کی تلقین کرتے ہوئے ہنگامہ آرائی کے باوجود ان کے اس مشن کی پذیرائی بھی کی۔ یہ افراد ٹرمپ کی صدارتی انتخابات میں شکست پر احتجاج کر رہے تھے۔
تصویر: J. Scott Applewhite/AP Photo/picture alliance
نو منتخب امریکی صدر جو بائیڈن نے امریکی پارلیمان کی عمارت کیپیٹل ہل پر دھاوے پر تنقید کرتے ہوئے کہا، ’’یہ حملہ اس مقدس امریکی عمارت پر ہے، جو عوام کے لیے کام کرتی ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ یہ احتجاج نہیں بلکہ بغاوت ہے۔
تصویر: Manuel Balce Ceneta/AP Photo/picture alliance
اس بدامنی میں ملوث باون افراد کو گرفتار بھی کر لیا گیا۔ اب اس عمارت کو مظاہرین سے خالی کروا لیا گیا ہے۔ امریکی جمہوری تاریخ میں ایسا کوئی واقع پہلی مرتبہ پیش آیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اسے امریکی تاریخ کا ’برا ترین دن‘ قرار دیا جا رہا ہے۔
تصویر: Win McNamee/Getty Images
سابق صدر باراک اوباما نے اس پرتشدد واقعے کی ذمہ داری صدر ٹرمپ پر عائد کرتے ہوئے کہا، ’’یہ ہماری قوم کے لیے بے عزتی اور بے شرمی کا لمحہ ہے۔‘‘
تصویر: Win McNamee/Getty Images
امریکا میں عنقریب اپنے عہدے سے رخصت ہونے والے ریپبلکن صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے سینکڑوں حامیوں کی طرف سے کیپیٹل ہل میں بدامنی کے واقعے کی بین الاقوامی سطح پر مذمت کرتے ہوئے اس پر افسوس کا اظہار کیا گیا ہے۔
تصویر: Andrew Harnik/AP Photo/picture alliance
جرمن وزیر خارجہ ہائیکو ماس نے کہا کہ ٹرمپ اور ان کے حامیوں کو ’جمہوریت کو پاؤں تلے کچلنے‘ کا عمل بند کر دینا چاہیے۔
تصویر: Saul Loeb/AFP/Getty Images
برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن نے امریکی کانگریس کی عمارت میں پیش آنے والے واقعات کو شرمناک قرار دیتے ہوئے ان کی مذمت کی۔
تصویر: Win McNamee/Getty Images
اسی طرح یورپی یونین کے خارجہ امور کے نگران اعلیٰ ترین عہدیدار یوزیپ بورَیل نے کہا کہ امریکا ایسے واقعات جیسا تو نہیں ہے۔
تصویر: Andrew Caballero-Reynolds/AFP/Getty Images
آسٹرین چانسلر سباستیان کُرس نے بھی کیپیٹل ہل پر دھاوا بولے جانے پر صدمے کا اظہار کرتے ہوئے اس بدامنی کی مذمت کی۔
تصویر: Leah Millis/REUTERS
اس واقعے کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ نے بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ معمول کے مطابق اقتدار نو منتخب صدر جو بائیڈن کے حوالے کر دیں گے۔ تاہم انہوں نے ابھی تک گزشتہ روز کے واقعے کی مذمت نہیں کی۔
تصویر: Spencer Platt/Getty Images
12 تصاویر1 | 12
خود صدر ٹرمپ نے بعد میں ان واقعات کی مذمت کی اور تشدد میں ملوث افراد کو کیفر کردار تک پہنچانے کا اعادہ کیا۔ ایک بیان میں وائٹ ہاؤس نے کہا کہ صدر کے مواخذے کی کوششوں کے پیچھے 'سیاسی محرکات‘ ہیں اور اس سے امریکا 'مزید منقسم‘ ہوگا۔
'بدترین امریکی صدر‘
حالیہ دنوں میں صدر ٹرمپ پر تنقید کرنے والوں میں کئی ریپبلکن رہنما بھی سامنےآئے ہیں۔
اتوار کو ہالی وڈ کے سابق ایکشن ہیرو اور ریاست کیلی فورنیا کے سابق گورنر آرنلڈ شیوازنگر نے ایک وڈیو بیان میں صدر ٹرمپ کو 'بدترین صدر‘ قرار دیا اور کیپیٹل ہل پر ہنگامہ آرائی کو نازی جرمنی کے دور میں یہودی املاک کے خلاف انیس سو اڑتیس میں جلاؤ گھیراؤ سے تشبیہ دی۔
اسی طرح کم از کم دو ریپبلکن سینیٹروں نے کھل کر صدر پر تنقید کی ہے اور ان پر زور دیا ہے کہ وہ مستعفی ہوجائیں۔ تاہم ریپبلکن پارٹی کے کسی سینیٹر نے ابھی تک یہ عندیہ نہیں دیا کہ وہ صدر ٹرمپ کے مواخذے کی حمایت کریں گے۔
صدر ٹرمپ پہلے ہی واضح کرچکے ہیں کہ وہ اگلے ہفتے نو منتخب صدر جو بائیڈن کی تقریب حلف برداری میں شریک نہیں ہوں گے۔ تاہم ان کے نائب صدر مائیک پاینس نے کہا ہے کہ وہ اس تقریب میں شرکت کریں گے۔