1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
سیاستشمالی امریکہ

ٹرمپ کو سابق صدر کے طورپر استثنٰی حاصل ہے، سپریم کورٹ

2 جولائی 2024

امریکی سپریم کورٹ نے ایک اہم فیصلے میں کہا ہے کہ سرکاری عہدے کی حیثیت سے کیے گئے اقدامات پر سابق صدر کو استثنیٰ حاصل ہے۔ اس فیصلے کا تعلق چھ جنوری کو کیپیٹل ہل پر ہونے والے حملے کے مقدمے سے ہے۔

ڈونلڈ ٹرمپ
سابق صدر ٹرمپ رواں برس ہونے والے صدارتی انتخابات میں ریپبلکن پارٹی کے ممکنہ امیدوار ہیں، جنہوں نے سوشل میڈیا پر اس فیصلے پر خوشی کا اظہار کیاتصویر: Chris Szagola/AP/picture alliance

امریکی سپریم کورٹ کے ججوں نے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے سن 2020 کے صدارتی انتخابات کے نتائج کو پلٹنے کی ان کی مبینہ کوششوں پر ان کے خلاف مقدمہ چلائے جانے سے استثنیٰ حاصل کرنے کے بارے میں ایک اپیل پر فیصلہ سنایا ہے۔

امریکہ: بائیڈن اور ٹرمپ میں صدارتی انتخابات کا پہلا مباحثہ کیسا رہا؟

 واضح رہے کہ نچلی عدالت نے وفاقی فوجداری مقدمے سے تحفظ کے لیے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی درخواست کو مسترد کر دیا تھا، جس کے خلاف ٹرمپ نے سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی تھی۔

پاکستانی الیکشن: مبینہ بےضابطگیوں کی تفتیش کا امریکی مطالبہ

سپریم کورٹ کے ججوں نے نچلی عدالت کے فیصلے کو مسترد کر دیا اور کیس دوبارہ انہیں کے پاس واپس بھیج دیا۔ البتہ عدالت نے اس بارے میں کوئی واضح فیصلہ بھی نہیں سنایا کہ آیا ٹرمپ کو حقیقت میں عدالتی کارروائی سے مطلق استثنیٰ حاصل ہے یا نہیں۔

امریکی صدارتی انتخابات: بھارتی نژاد راماسوامی ٹرمپ کے نائب؟

لیکن اس فیصلے سے اب ایک بات تو واضح ہو گئی ہے کہ نومبر کے صدارتی انتخابات سے پہلے اس مقدمے کی سماعت کا امکان بہت کم ہے۔

سپریم کورٹ کے ججوں نے کیا کہا؟

سپریم کورٹ کی نو رکنی بینچ نے فیصلہ سنایا۔ بینچ کے چھ کنزرویٹیو ججوں نے ٹرمپ کے حق میں فیصلہ سنایا جبکہ تین نے نچلی عدالت کے فیصلے کو درست قرار دیا۔ ججوں کی اکثریت نے کہا کہ سابق صدور کو ان کے سرکاری کاموں کے لیے پراسیکیوشن سے مکمل استثنیٰ حاصل ہے اور غیر سرکاری کاموں کے لیے انہیں کوئی استثنیٰ حاصل نہیں ہے۔

امریکہ میں ایک اور تاریخی مقدمہ،اب صدر بائیڈن کے لیے بری خبر

تاہم ججوں نے اس بات کی وضاحت بھی نہیں پیش کی کہ سرکاری اور غیر سرکاری کارروائیوں میں فرق کیا ہے، جس کا مطلب شاید یہ ہوا کہ نجی حیثیت سے کی جانے والی کارروائیاں شاید استثنیٰ سے مبرا ہیں اور اسی لیے فیصلہ نچلی عدالت کو دوبارہ بھیجا دیا۔

’ڈونلڈ ٹرمپ کو جیل ہونی چاہیے‘، بالغ فلموں کی اداکارہ

فیصلے سے متعلق ایک بیان میں کہا گیا کہ ایک صدر ''اپنے تمام سرکاری کاموں کے لیے کم از کم پراسیکیوشن سے ممکنہ استثنیٰ کا حقدار ہوتا ہے۔ غیر سرکاری کاموں کے لیے کوئی استثنیٰ نہیں ہوتا ہے۔''

بائیڈن نے کہا کہ امریکی عوام کو اب یہ فیصلہ کرنا ہو گا کہ کیا وہ ایک بار پھر ڈونلڈ ٹرمپ کو صدارت سونپنا چاہتے یا نہیںتصویر: Kyle Mazza/NurPhoto/IMAGO IMAGES

ٹرمپ کا 'بڑی جیت' پر جشن

سابق صدر ٹرمپ رواں برس ہونے والے صدارتی انتخابات میں ریپبلکن پارٹی کے ممکنہ امیدوار ہیں، جنہوں نے سوشل میڈیا پر اس فیصلے پر خوشی کا اظہار کیا۔

انہوں نے سوشل میڈیا پیلٹ فارم ٹروتھ پر لکھا، ''ہمارے آئین اور جمہوریت کی یہ بڑی جیت ہے۔ ایک امریکی ہونے پر فخر ہے!''

سابق امریکی صدر ٹرمپ تمام چونتیس الزامات میں مجرم قرار

 صدارتی انتخابات میں ان کے متوقع حریف موجودہ صدر جو بائیڈن ہیں۔ بائیڈن کی ٹیم نے اس پر اپنے تبصرے میں کہا کہ اس فیصلے کے بعد ٹرمپ یہ سوچ رہے ہیں کہ ''وہ قانون سے بالاتر ہیں۔''

نیٹو سے متعلق ٹرمپ کے بیان پر امریکہ اور یورپی یونین کی شدید نکتہ چینی

ایسوسی ایٹیڈ پریس نے انتخابی ماہر ڈیوڈ بیکر کے حوالے سے پیر کے فیصلے کو ''انتہائی پریشان کن'' قرار دیا ہے۔

انہوں نے اس فیصلے کے بعد نامہ نگاروں کے ساتھ ایک فون کال پر کہا، ''تقریباً ہر وہ چیز جو صدر ایگزیکٹو شاخ کے ساتھ کرتا ہے، اسے ایک سرکاری عمل کے طور پر بیان کیا جاتا ہے۔''

فیصلے پر بائیڈن کی تنقید

پیر کے روز وائٹ ہاؤس میں اپنے ایک خطاب میں بائیڈن نے عدالتی فیصلے پر تنقید کی۔

انہوں نے کہا، ''تمام عملی مقاصد کے لیے، آج کے فیصلے کا یقینی طور پر تقریباً مطلب یہ ہوتا ہے، کہ صدر جو کچھ بھی چاہے کر سکتا ہے اور اس کی کوئی حد نہیں ہے۔ بنیادی طور پر ایک نیا اصول ہے، اور یہ ایک خطرناک نظیر ہے۔''

بائیڈن نے مزید کہا، ''امریکی عوام کو یہ فیصلہ کرنا ہو گا کہ کیا وہ ایک بار پھر ڈونلڈ ٹرمپ کو صدارت سونپنا چاہتے ہیں، یہ جانتے ہوئے کہ اب وہ اس بات کی زیادہ حوصلہ افزائی کریں گے کہ وہ جس بات سے بھی خوش ہوں اور جب بھی کرنا چاہیں، وہ کرنے کے مجاز ہیں۔''

واضح رہے کہ سابق صدر ٹرمپ کا استدلال ہے کہ امریکی صدور کو سرکاری کارروائیوں کے لیے قانونی چارہ جوئی سے استثنیٰ حاصل ہے اور وہ انتخابی مداخلت کے الزام میں جس فرد جرم کا سامنا کر رہے ہیں اسے مسترد کر دینا چاہیے۔

نو رکنی سپریم کورٹ میں چھ قدامت پسند ججوں میں سے تین کو انہیں اپنے دور اقتدار میں نامزد کیا تھا۔ اس سے پہلے قدامت پسند ججوں نے اس بات پر تشویش کا اظہار کیا تھا کہ صدور کسی بھی سطح کے استثنیٰ سے محروم ہوں۔

ص ز/ ج ا (اے پی، اے ایف پی، ڈی پی اے، روئٹرز)

کیا یورپ ٹرمپ کے دوسرے دورِ اقتدار کے لیے تیار ہے؟

04:06

This browser does not support the video element.

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں