امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے روسی ہم منصب ولادیمیر پوٹن کو وائٹ ہاؤس میں مدعو کیا ہے۔ ان دونوں رہنماؤں کے درمیان ملاقات رواں برس موسم خزاں میں ہو گی۔
اشتہار
ہیلسنکی میں امریکی اور روسی صدور کی ملاقات کے چند ہی روز بعد ڈونلڈ ٹرمپ نے اعلان کیا ہے کہ وہ پوٹن کو وائٹ ہاؤس مدعو کر رہے ہیں۔ انہوں نے اس سے قبل اپنے ایک ٹوئیٹ میں کہا تھا کہ وہ پوٹن سے دوبارہ ملاقات کے خواہش مند ہیں، تاکہ پہلی ملاقات میں طے کردہ امور پر عمل درآمد کا آغاز ہو سکے۔
دونوں رہنماؤں کے درمیان اس ملاقات پر ٹرمپ کو داخلی سطح پر شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا، تاہم ڈونلڈ ٹرمپ نے اس تمام تنقید کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کی پوٹن کے ساتھ ملاقات نہایت کامیاب رہی، جس میں اہم امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق ایک ایسے موقع پر جب امریکی خفیہ اداروں کی جانب سے روس پر امریکی صدارتی انتخابات میں مداخلت کے الزامات عائد کیے جا رہے ہیں، روسی صدر کو وائٹ ہاؤس مدعو کرنا، ایک طرح سے روسی مداخلت ’درست‘ سمجھے جانے کا اشارہ دینے کے مترادف ہو گا۔
ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق پوٹن کو وائٹ ہاؤس کو مدعو کرنے کا ایک مطلب یہ بھی ہو گا کہ امریکا مشرقی یوکرائن، شام اور دیگر معاملات میں روس کے اقدامات کی توثیق کر رہا ہے۔ یہ بات اہم ہے کہ گزشتہ ایک دہائی میں اس سے قبل کسی روسی رہنما کو وائٹ ہاؤس میں مدعو نہیں کیا گیا تھا۔
وائٹ ہاؤس کی پریس سیکرٹری سارہ ہوکابی نے جمعرات کے دن کہا کہ صدر ٹرمپ نے قومی سلامتی کے مشیر جان بولٹن سے کہا ہے کہ وہ پوٹن کو مدعو کریں۔ ہوکابی کا کہنا تھا کہ اس دعوت کا مقصد زیر گفت گو امور کو آگے بڑھانا ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کے جرمنی کے بارے میں بیانات
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ جرمنی کی تعریف بھی کر چکے ہیں اور جرمنی پر تنقید بھی کر چکے ہیں۔ انہوں نے چانسلر میرکل کو ’عظیم‘ بھی کہا ہے اور ان کا یہ دعوی بھی ہے کہ برلن حکومت امریکا کی ’مقروض‘ ہے۔
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/C. May
کبھی ایسا تو کبھی ویسا
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 2015ء میں جرمن چانسلر انگیلا میرکل کے مہاجرین کے لیے سرحدیں کھولنے کے فیصلے کو ایک بہت بڑی غلطی سے تعبیر کیا تھا۔ وہ جرمنی کی پالیسیوں پر تنقید بھی کرتے رہے ہیں اور کبھی ان حق میں بیان بھی دیتے رہے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/C. May
’عظیم‘
ٹرمپ نے 2015ء میں اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ جرمنی خاموشی سے رقم جمع کرنے اور دنیا کی ایک عظیم رہنما میرکل کے سائے میں قسمت بنانے میں لگا ہوا ہے۔
تصویر: Picture alliance/AP Photo/M. Schreiber
بہت برا
’’جرمن برے ہوتے ہیں، بہت ہی برے۔ دیکھو یہ امریکا میں لاکھوں گاڑیاں فروخت کرتے ہیں۔ افسوس ناک۔ ہم اس سلسلے کو ختم کریں گے۔‘‘ جرمن جریدے ڈیئر شپیگل کے مطابق ٹرمپ نے یہ بیان مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کے ایک سربراہ اجلاس کے دوران دیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/AP/E. Vucci
کچھ مشترک بھی
ٹرمپ نے مارچ میں ایک پریس کانفرنس کے دوران کہا، ’’ ٹیلفون سننے کی بات ہے، تو میرے خیال میں جہاں تک اوباما انتظامیہ کا تعلق تو یہ چیز ہم میں مشترک ہے۔‘‘ ان کی اشارہ ان الزامات کی جانب تھا، جو وہ ٹیلیفون سننے کے حوالے سے اوباما انتظامیہ پر عائد کرتے رہے ہیں۔ 2013ء میں قومی سلامتی کے امریکی ادارے کی جانب سے میرکل کے ٹیلیفون گفتگو سننے کے واقعات سامنے آنے کے بعد جرمنی بھر میں شدید و غصہ پایا گیا تھا۔
تصویر: Picture alliance/R. Sachs/CNP
غیر قانونی
’’میرے خیال میں انہوں نے ان تمام غیر قانونی افراد کو پناہ دے کر ایک بہت بڑی غلطی کی ہے۔ ان تمام افراد کو، جن کا تعلق جہاں کہیں سے بھی ہے‘‘۔ ٹرمپ نے یہ بات ایک جرمن اور ایک برطانوی اخبار کو مشترکہ طور پر دیے جانے والے ایک انٹرویو میں کہی۔
تصویر: Getty Images/S. Gallup
’مقروض‘ جرمنی
ٹرمپ نے 2017ء میں میرکل سے پہلی مرتبہ ملنے کے بعد کہا تھا، ’’جعلی خبروں سے متعلق آپ نے جو سنا ہے اس سے قطع نظر میری چانسلر انگیلا میرکل سے بہت اچھی ملاقات ہوئی ہے۔ جرمنی کو بڑی رقوم نیٹو کو ادا کرنی ہیں اور طاقت ور اور مہنگا دفاع مہیا کرنے پر برلن حکومت کی جانب سے امریکا کو مزید پیسے ادا کرنے چاہیں۔‘‘
تصویر: Picture alliance/dpa/L. Mirgeler
منہ موڑنا
امریکی صدر نے جرمن حکومت کے داخلی تناؤ کے دوران اپنی ایک ٹوئٹ میں لکھا، ’’جرمن عوام تارکین وطن کے بحران کے تناظر میں، جس نے مخلوط حکومت کو مشکلات کا شکار کیا ہوا ہے، اپنی قیادت کے خلاف ہوتے جا رہے ہیں۔ جرمنی میں جرائم کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ لاکھوں افراد کو داخل کر کے یورپی سطح پر بہت بڑی غلطی کی گئی ہے، جس سے یورپی ثقافت پر بہت تیزی سے تبدیل ہو گئی ہے۔‘‘
تصویر: AFP/Getty Images/L. Marin
7 تصاویر1 | 7
اس سے قبل صدر ٹرمپ نے ایک ٹوئٹ میں کہا تھا کہ وہ روسی صدر ولادیمیر پوٹن سے ’دوسری ملاقات‘ کے خواہش مند ہیں۔ ٹرمپ کا کہنا تھا، ’’بہت سے چیلنجز کا جوابات موجود ہیں، کچھ آسان ہیں اور کچھ مشکل۔ مگر تمام مسائل قابل حل ہیں۔‘‘
روس نے صدر پوٹن کے واشنگٹن کے دورے پر مزید گفتگو کرنے پر رضامندی ظاہر کی ہے۔