ٹرمپ کی سفری پابندیاں نافذ ہو گئیں
30 جون 2017امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے یہ پابندیاں ایک صدارتی حکم نامے کے ذریعے عائد کی گئی تھیں تاہم ان کا نفاذ سپریم کورٹ کی جانب سے عبوری اجازت ملنے پر مقامی وقت کے مطابق جمعرات انتیس جون کی شام آٹھ بجے ہوا ہے۔ عالمی وقت کے مطابق یہ جمعرات اور جعمہ کی درمیانی نصف شب تھی۔
امریکی سپریم کورٹ رواں برس ستمبر میں اس 90 روزہ عبوری پابندی کا دوبارہ جائزہ لے گی۔ اس پابندی کے زمرے میں آنے والے مسلمان ملکوں میں لیبیا، ایران، صومالیہ، سوڈان، شام اور یمن شامل ہیں۔ اس حکم میں امریکا میں پہلے سے مقیم افراد کے انتہائی قریبی رشتہ داروں کو استثنیٰ دیا گیا ہے۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی سفری پابندی سے متاثرہ چھ مسلم ممالک کے شہريوں کے ليے امريکی ويزے کے حصول کے ليے اب يہ لازم ہو گا کہ ان کا امريکا ميں کوئی قريبی رشتہ دار ہو يا پھر ان کے کسی کمپنی کے ساتھ براہ راست اور مضبوط روابط ہوں۔ ان پابندیوں کے مطابق متاثرہ ممالک کے شہريوں کو امريکی ويزا اسی صورت ديا جائے گا جب ان کے والدين، بيٹا يا بيٹی، بہن يا بھائی اور داماد يا بہو امريکا ميں مقيم ہوں۔ اس کے علاوہ جن افراد کو ملازمت يا کسی تعليمی ادارے وغيرہ ميں بطور مہمان سرکاری طور پر دعوت دی گئی ہو، انہيں بھی اس پابندی سے استثنی حاصل ہو گا۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے رواں برس 20 جنوری کو عہدہ صدارت سنبھالا تھا۔ اس کے صرف ایک ہفتہ بعد یعنی ستائیس جنوری کو انہوں نے ایک صدارتی حکم نامہ جاری کیا تھا، جس میں سات مسلم اکثریتی ممالک کے شہریوں کے امریکا میں داخلے پر پابندی عائد کر دی گئی تھی، جن میں عراق بھی شامل تھا۔ اس ابتدائی حکم نامے کے خلاف امریکا کی مختلف عدالتوں میں قریب دو درجن مقدمات درج کرائے گئے تھے۔ تین فروری کو ایک امریکی عدالت نے ڈونلڈ ٹرمپ کے اس فیصلے کو کالعدم قرار دے دیا تھا۔
تاہم ڈونلڈ ٹرمپ نے پیر چھ مارچ کو سفری پابندیوں کے ایک تبدیل شدہ صدارتی حکم نامے پر دستخط کیے۔ اس حکم نامے میں سے عراق کا نام خارج کر دیا گیا۔ نئے حکم نامے میں چھ مسلم اکثریتی ممالک ایران، لیبیا، شام، صومالیہ، سوڈان اور یمن کے شہریوں پر 90 روز تک سفری پابندیاں عائد کی گئیں۔ اس پابندی کا اطلاق 16 مارچ سے ہونا تھا تاہم اس حکم نامے کو بھی عدالتوں میں چیلنج کر دیا گیا اور جس کا فیصلہ امریکی سپریم کورٹ کی طرف سےپیر 26 جون کو آیا۔
ٹرمپ انتظامیہ کے مطابق ان سفری پابندیوں کا مقصد پابندیوں کی زد میں آنے والے ممالک سے ممکنہ دہشت گردوں کو امریکا میں داخل ہونے سے روکنا ہے۔