امریکہ: ٹرمپ نے محکمہ انصاف کے خلاف مقدمہ دائر کر دیا
23 اگست 2022
سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے عدالت سے استدعا کی ہے کہ جو فائلیں ان کی رہائش گاہ سے ضبط کی گئی ہیں، محکمہ انصاف کو اس کی تفتیش سے باز رکھا جائے۔ ان کے وکلاء نے مار-اے-لاگو سے برآمد کی گئی ہر چیز کی رسید بھی طلب کی ہے۔
اشتہار
سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے عدالت سے کہا ہے کہ دو ہفتے قبل ان کی ذاتی رہائش گاہ مار-اے-لاگو سے جو دستاویزات ضبط کی گئی تھیں، ایف بی آئی کو اس کا جائزہ لینے سے اس وقت تک کے لیے روک دیا جائے، جب تک کہ اس عمل کی نگرانی کے لیے کسی غیر جانبدار تیسرے فریق، وکیل، یا خصوص محکم کا تقرر نہ کر دیا جائے۔
ٹرمپ کے وکلاء نے پیر کے روز یہ کیس دائر کرتے ہوئے دلیل پیش کی کہ مذکورہ دستاویزات ''ممکنہ طور پر'' ایگزیکٹو استحقاق کا احاطہ کرتی ہیں۔ اس اصول کے تحت امریکی صدور کو اپنے بعض مواصلات کو عوام میں انکشاف نہ کرنے کی اجازت ہے۔
ٹرمپ کے وکلاء نے لکھا کہ 'اس معاملے نے اب امریکی عوام کی توجہ بھی اپنی جانب کر لی ہے۔ محض 'مناسب' حفاظتی اقدامات قابل قبول نہیں ہیں، کیونکہ اس معاملے میں نہ صرف (سابق) صدر ٹرمپ کے آئینی حقوق شامل ہیں، بلکہ انتظامی استحقاق کا تصور بھی شامل ہے۔''
اشتہار
ضبط شدہ اشیاء کی فہرست کا مطالبہ
ٹرمپ کے وکلاء نے اسی مقدمے میں عدالت سے یہ مطالبہ بھی کیا ہے کہ 8 اگست کو ایف بی آئی نے مار-اے-لاگو سے جو بھی چیزیں ضبط کی تھیں ان تمام اشیاء کی نمبر کے ساتھ رسید بھی فراہم کی جائے۔ انہوں نے ضبط شدہ ایسی تمام اشیاء کو واپس کرنے کا بھی مطالبہ کیا ہے جو تفتیش کے دائرہ کار سے باہر ہوں۔
امریکی محکمہ انصاف کا کہنا ہے کہ مسٹر ٹرمپ نے ممکنہ طور پر سرکاری دستاویزات کو غلط طریقے سے استعمال کیا اور اسی کی تحقیقات کی جا رہی ہیں۔
قانون کے مطابق امریکی صدور کو اپنی تمام سرکاری دستاویزات اور ای میلز کو نیشنل آرکائیوز نامی سرکاری ایجنسی کے حوالے کرنا ہوتا ہے۔
تاہم سابق صدر ٹرمپ اس حوالے سے کسی بھی غلط کام سے انکار کرتے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ ان تمام اشیاء کو ڈی کلاسیفائیڈ کیا جا چکا تھا۔
فلوریڈا کی ایک عدالت میں دائر 27 صفحات پر مشتمل دستاویز میں مسٹر ٹرمپ کی قانونی ٹیم نے محکمہ انصاف کی اس کارروائی پر یہ الزام عائد کیا ہے کہ اس کامقصد، ''صرف اونٹ کی ناک کو خیمے کے نیچے رکھنا ہے تاکہ وہ سیاسی لحاظ سے معاون دستاویزات کو اپنے مفاد کے لیے استعمال کر سکیں یا پھر اس کی مدد سے صدر ٹرمپ کو دوبارہ انتخاب لڑنے سے روکنے کی کوششوں کر سکیں۔''
ٹرمپ سن 2024 کے صدارتی انتخابات کے لیے ریپبلکن کی جانب سے ابتدائی دوڑ میں سب سے آگے ہیں۔
مقدمے میں کہا گیا ہے کہ ''سیاست کو انصاف کی انتظامیہ پر اثر انداز ہونے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ سابق صدر ڈونلڈ جے ٹرمپ 2024 میں ریپبلکن کی جانب سے صدارتی امیدوار کی فہرست میں سب سے آگے ہیں، اگر وہ انتخاب لڑنا چاہیں تو۔''
ایف بی آئی کے سرچ وارنٹ میں خفیہ دستاویزات کے 11 سیٹ درج کیے گئے تھے، جو مبینہ طور متعدد دیگر اشیاء کے علاوہ ٹرمپ کی جائیداد سے متعلق بھی ہیں۔ تاہم ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ ان دستاویزات میں ہے کیا۔ البتہ پہلے گمنام ذرائع نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ کچھ دستاویزات جوہری ہتھیاروں سے متعلق بھی ہیں۔
ص ز/ ج ا (اے پی، روئٹرز)
امریکی جمہوری تاریخ کا بدنما داغ، دنیا حیران
گزشتہ روز واشنگٹن میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے سینکڑوں حامیوں نے ملکی کانگریس کی کیپیٹل ہل کہلانے والی عمارت پر دھاوا بول دیا تھا۔ یہ مشتعل افراد اس وقت اس عمارت میں گھس گئے تھے، جب وہاں کانگریس کا اجلاس جاری تھا۔
تصویر: Leah Millis/REUTERS
پولیس کے مطابق پارلیمانی عمارت میں بدامنی کے دوران چار افراد مارے گئے۔ ان میں سے ایک شخص گولی لگنے سے ہلاک ہوا۔ باقی تین افراد کی موت کی وجہ میڈیکل ایمرجنسی بتائی گئی ہے۔
تصویر: Win McNamee/Getty Images
اس سے قبل ڈونلڈ ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس کے قریب نکالے جانی والی ایک ریلی کے شرکاء سے کیپیٹل ہل کی جانب مارچ کرنے کا کہا تھا اور یہ بھی کہا تھا کہ ایک موقع پر وہ بھی کیپیٹل ہل میں ان کے ساتھ شریک ہو جائیں گے۔ اس موقع پر ان کے الفاظ اور انداز انتہائی اشتعال انگیز تھا۔
تصویر: Roberto Schmidt/AFP/Getty Images
بعدازاں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کیپیٹل ہل پر دھاوا بولنے والے اپنے حامیوں سے گھر واپس چلے جانے کے لیے کہا۔ ٹرمپ نے ان افراد کو پر امن رہنے کی تلقین کرتے ہوئے ہنگامہ آرائی کے باوجود ان کے اس مشن کی پذیرائی بھی کی۔ یہ افراد ٹرمپ کی صدارتی انتخابات میں شکست پر احتجاج کر رہے تھے۔
تصویر: J. Scott Applewhite/AP Photo/picture alliance
نو منتخب امریکی صدر جو بائیڈن نے امریکی پارلیمان کی عمارت کیپیٹل ہل پر دھاوے پر تنقید کرتے ہوئے کہا، ’’یہ حملہ اس مقدس امریکی عمارت پر ہے، جو عوام کے لیے کام کرتی ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ یہ احتجاج نہیں بلکہ بغاوت ہے۔
تصویر: Manuel Balce Ceneta/AP Photo/picture alliance
اس بدامنی میں ملوث باون افراد کو گرفتار بھی کر لیا گیا۔ اب اس عمارت کو مظاہرین سے خالی کروا لیا گیا ہے۔ امریکی جمہوری تاریخ میں ایسا کوئی واقع پہلی مرتبہ پیش آیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اسے امریکی تاریخ کا ’برا ترین دن‘ قرار دیا جا رہا ہے۔
تصویر: Win McNamee/Getty Images
سابق صدر باراک اوباما نے اس پرتشدد واقعے کی ذمہ داری صدر ٹرمپ پر عائد کرتے ہوئے کہا، ’’یہ ہماری قوم کے لیے بے عزتی اور بے شرمی کا لمحہ ہے۔‘‘
تصویر: Win McNamee/Getty Images
امریکا میں عنقریب اپنے عہدے سے رخصت ہونے والے ریپبلکن صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے سینکڑوں حامیوں کی طرف سے کیپیٹل ہل میں بدامنی کے واقعے کی بین الاقوامی سطح پر مذمت کرتے ہوئے اس پر افسوس کا اظہار کیا گیا ہے۔
تصویر: Andrew Harnik/AP Photo/picture alliance
جرمن وزیر خارجہ ہائیکو ماس نے کہا کہ ٹرمپ اور ان کے حامیوں کو ’جمہوریت کو پاؤں تلے کچلنے‘ کا عمل بند کر دینا چاہیے۔
تصویر: Saul Loeb/AFP/Getty Images
برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن نے امریکی کانگریس کی عمارت میں پیش آنے والے واقعات کو شرمناک قرار دیتے ہوئے ان کی مذمت کی۔
تصویر: Win McNamee/Getty Images
اسی طرح یورپی یونین کے خارجہ امور کے نگران اعلیٰ ترین عہدیدار یوزیپ بورَیل نے کہا کہ امریکا ایسے واقعات جیسا تو نہیں ہے۔
تصویر: Andrew Caballero-Reynolds/AFP/Getty Images
آسٹرین چانسلر سباستیان کُرس نے بھی کیپیٹل ہل پر دھاوا بولے جانے پر صدمے کا اظہار کرتے ہوئے اس بدامنی کی مذمت کی۔
تصویر: Leah Millis/REUTERS
اس واقعے کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ نے بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ معمول کے مطابق اقتدار نو منتخب صدر جو بائیڈن کے حوالے کر دیں گے۔ تاہم انہوں نے ابھی تک گزشتہ روز کے واقعے کی مذمت نہیں کی۔