ٹرمپ کی محصولات کے خلاف عالمی جنگ میں یورپی یونین بھی شامل
2 جون 2018
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے اسٹیل اور ایلمونیئم کی درآمدات پر اضافی محصولات کے نفاذ پر عالمی ردعمل جاری ہے۔ دوسرے ملکوں کی طرح ٹرمپ کے خلاف جوابی اقدامات میں یورپی یونین بھی شامل ہو گئی ہے۔
اشتہار
یورپی یونین نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے اسٹیل اور ایلمونیئم کی برامدات پر اضافی محصولات کے نفاذ کے بعد پہلی مرتبہ کوئی جوابی قدم اٹھانے کا فیصلہ کیا ہے۔ یورپی یونین کی جانب سے امریکی مصنوعات پر اضافی محصولات عائد کرنے کی پلاننگ شروع کر دی گئی ہے۔
یورپی یونین اور کینیڈا نے امریکی محصولات کے نفاذ کے خلاف قانون چارہ جوئی کرتے ہوئے ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن میں اپنی اپنی شکایات کا انداراج کرا دیا ہے۔
یورپی یونین کی جانب سے جن اشیاء پر محصولات کا نفاذ کیا جا رہا ہے، اُن میں امریکی سویٹس، موٹر سائیکل، بلُو جینز خاص طور پر نمایاں ہیں۔ ان اشیاء کی یورپی یونین کے رکن ملکوں میں برآمدات کا حجم اٹھائیس بلین یورو یا تینتیس بلین امریکی ڈالر کے لگ بھگ ہے۔
کینیڈا نے بھی جوابی اقدامات کرتے ہوئے امریکی مصنوعات پر بارہ بلین ڈالر سے زائد کی اضافی برامدی ڈیوٹی لگانے کا فیصلہ کیا ہے۔ دوسری جانب امریکا نے کینیڈا میں اپنے مرکزی تجارتی اتحادیوں کے قدرے برہم وزرائے خزانہ کے ساتھ میٹنگز کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔
فرانس کے وزیر خزانہ بروُونو لا مائر نے کینیڈا میں اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ امریکی صدر کے فیصلے کے خلاف فرانس، جرمنی اور برطانیہ ہم قدم ہیں۔ یورپی یونین کی ٹریڈ کمشنر سیسیلیا مالم اسٹروم کے مطابق اگر تجارتی ضوابط کا احترام نہیں کیا جاتا تو عالمی ٹریڈ سسٹم مفلوج ہو کر رہ جائے گا۔
امریکی محصولات کے نفاذ پر تبصرہ کرتے ہوئے کینیڈا کے وزیراعظم جسٹن ٹرُوڈو کا کہنا ہے کہ اُن کی سمجھ میں یہ نہیں آ رہا کہ واشنگٹن نے اضافی محصولات کے نفاذ کو قومی سلامتی کی ضرورت قرار دیا ہے۔
ٹروڈو کے مطابق کینیڈا کو استثنیٰ نہ دے کر صدر ٹرمپ نے اُس کینیڈا کی بے توقیری کی ہے، جو افغانستان اور دوسرے مقامات پر امریکا کی جنگوں میں اتحادی رہا ہے۔ اسی طرح برطانوی وزیراعظم ٹریزا مَے نے بھی ٹرمپ کے فیصلے پر شدید مایوسی کا اظہار کیا ہے۔
اسی دوران امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے عندیہ دیا ہے کہ وہ کینیڈا اور میکسیکو کے ساتھ چوبیس برس پرانا شمالی امریکی آزاد تجارت ایگریمنٹ (NAFTA) کو منسوخ کرنے کی سوچ رکھتے ہیں۔ اسی دوران ایک اور پیش رفت یہ ہے کہ ٹرمپ کے وزیر تجارت ولبر راس چینی حکام سے مذاکرات کے لیے بیجنگ پہنچ گئے ہیں۔
جرمنی کی بہترین کاریں، کتنی ہی یادیں جن سے جڑی ہیں
یہ گاڑیاں دیکھ کر کاروں سے محبت کرنے والے کسی بھی شخص کی آنکھیں بھیگ سکتی ہیں۔ فالکس ویگن سے بی ایم ڈبلیو اور اوپل سے مرسیڈیز بینز تک، جرمن کار ساز اداروں نے کئی شان دار ماڈلز تیار کیے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/P. Kneffel
ٹریبنٹ 601 (1964)
ٹریبنٹ سابقہ مشرقی جرمنی کے لوگوں کے لیے ویسی ہی تھی جیسی مغربی جرمنی میں فالکس ویگن بیٹل تھی، یعنی عام افراد میں مقبول۔ اسے تیار کرنا سستا تھا، کیوں کہ اس کی بیرونی باڈی پلاسٹک سے بنائی جاتی ہے۔ جب دیوارِ برلن گرائی گئی اور مشرقی جرمن سے تعلق رکھنے والے افراد نے دیگر علاقوں کا رخ کیا، تو یہ گاڑی بھی ہر جگہ دکھائی دینے لگی۔ اب بھی 33 ہزار ٹریبنٹ گاڑیاں جرمن سڑکوں پر دکھائی دیتی ہیں۔
تصویر: Imago/Sven Simon
فالکس ویگن بیٹل (1938)
فالکس ویگن کا یہ سب سے بااعتبار ماڈل کہلاتا ہے۔ مجموعی طور پر اس کار کے 21 ملین یونٹس تیار کیے گئے۔ اسے دنیا کی سب سے مشہور گاڑی ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے، جو سن 1938 سے 2003 تک تیار کی جاتی رہی۔
تصویر: picture-alliance/dpa
فالکس ویگن ٹی ون (1950)
فالکس ویگن کی یہ کیمپر گاڑی جرمنی میں ’بُلی‘ کے نام سے بھی مشہور ہے اور اسے ہپی تحریک میں بہت شہرت حاصل ہوئی۔ فالکس ویگن ابتدا میں اس گاڑی سے خوش نہیں تھی، مگر اس کی فروخت پر کوئی فرق نہ پڑا۔ اب تک فالکس ویگن کی 10 ملین بسیں فروخت ہو چکی ہیں، جن میں سے ایک اٹھارہ لاکھ ٹی ون ماڈل کی گاڑیاں ہیں۔
تصویر: DW/M. Reitz
میسرشمِٹ کیبن اسکوٹر (1953)
تین پہیوں والی یہ ایروڈائنامکس گاڑی میسر شمِٹ نامی ہوائی جہاز بنانے والا ہی تیار کر سکتا تھا۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد اس ادارے کی پیداوار رک گئی تھی، مگر پھر کمپنی نے انجینیئر فرِٹس فینڈ کے ساتھ مل کر فلِٹسر کار متعارف کروائی۔ یہ پارٹنر شپ طویل المدتی نہیں تھی۔ میسرشِمٹ اس کے بعد دوبارہ جہاز سازی میں مصروف ہو گیا۔
تصویر: picture alliance/dpa/H. Galuschka
مرسیڈیز تین سو ایس ایل (1954)
یہ کار ’گُل وِنگ‘ کے نام سے بھی جانی جاتی ہے، وجہ ہے اس کے پروں کی طرح کھلتے دروازے۔ اس ریسنگ گاڑی کی وجہ سے مرسیڈیز ایک مرتبہ پھر حیرت انگیز طور پر موٹر اسپورٹس کھیل میں واپس آئی۔ اس گاڑی نے ریسنگ کے متعدد اہم مقابلے جیتے اور پھر سڑکوں پر دکھائی دینے لگی۔
تصویر: Daimler AG
بی ایم ڈبلیو اِسیٹا (1955)
یہ گاڑی تیز رفتار تو نہیں تھی، مگر سن 1955 سے 1962 تک بی ایم ڈبلیو نے اس سے مالیاتی استحکام حاصل کیا۔ یہ موٹر سائیکل کے انجن والی گاڑی کم قیمت اور کارگر تھی۔ اسے ببل کار کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ یہ کسی فریج کی طرح سامنے سے کھلتی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/P. Kneffel
گوگوموبائل (1955)
یہ چھوٹی گاڑی بھی گاڑیوں کو پسند کرنے والوں میں مقبول ہے۔ کمپنی کے مالک کے پوتے ’ہانس گلاز‘ کی عرفیت ’گوگو‘ کو اس گاڑی سے جوڑا گیا۔ دیگر چھوٹی گاڑیوں کے مقابلے میں گوگو میں چار افراد سوار ہو سکتے تھے۔ صرف ایک اعشاریہ چھ میٹر کی جگہ کی وجہ سے گو کہ ان افراد کو ذرا سکڑ کر بیٹھنا پڑتا تھا۔ اس گاڑی کو چلانے کے لیے صرف موٹرسائیکل چلانے کا لائسنس درکار ہوتا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Gollnow
پورشے نائن ون ون (1963)
پورشے کی نائن ون ون گاڑی کار سازی کی تاریخ کی سب سے زیادہ لمبے عرصے سے بنائی جانے والی گاڑی ہے۔ اس کے پیچھے قریب نصف صدی کی تاریخ ہے۔ یہ پورشے گاڑیوں کا ایک ٹریڈ مارک بن چکی ہے۔ گاڑی کی بناوٹ ایسی ہے کہ پورشے نائن ون ون فوراﹰ پہچانی جاتی ہے۔
تصویر: picture-alliance//HIP
مرسیڈیز بینز 600 (1964)
اس گاڑی میں ٹیلی فون، ایرکنڈیشنر، فریزر ڈبہ اور دیگر لگژری سہولیات، ساٹھ اور ستر کی دہائی میں اسے سب سے لگژری گاڑی بناتے تھے۔ بہت سی مشہور شخصیات نے یہ گاڑی استعمال کی، جس میں پوپ سے جان لینن تک شامل تھے۔ جرمن حکومت کے لیے یہ کچھ مہنگی تھی، اس لیے وہ اہم مواقع پر اسے کرائے پر لیتے تھے۔