1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
اقتصادیاتامریکہ

ٹرمپ کی کینیڈا، میکسیکو اور چین پر بھاری ٹیرف لگانے کی دھمکی

26 نومبر 2024

نو منتخب امریکی صدر کا کہنا ہے کہ نئے محصولات کے نفاذ کا مقصد منشیات کے حملے اور امریکہ میں تارکین وطن کے داخلے کو روکنا ہے۔ تاہم چین کا کہنا ہے کہ اس طرح سے کوئی بھی تجارتی جنگ جیتنے میں کامیاب نہیں ہو گا۔

ٹرمپ
ڈونلڈ ٹرمپ کا خیال ہے کہ امریکہ کی مینوفیکچرنگ یونٹس کو فروغ دینے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ بیرونی ممالک سے درآمدی سامان پر اضافی محصولات عائد کی جائیںتصویر: picture-alliance/NurPhoto/J. Arriens

امریکہ کے نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے غیر قانونی امیگریشن اور غیر قانونی منشیات کی تجارت پر خدشات کا حوالہ دیتے ہوئے میکسیکو اور کینیڈا کی تمام مصنوعات پر 25 فیصد اور چین سے آنے والی اشیا پر 10 فیصد اضافی ٹیرف لگانے کے منصوبے کا اعلان کیا ہے۔

ٹرمپ نے اپنے سوشل میڈیا ٹروتھ پر ایک پوسٹ میں کہا، "20 جنوری کو، میرے اولین ایگزیکٹو آرڈرز میں سے ایک یہ ہو گا کہ میکسیکو اور کینیڈا کی مضحکہ خیز کھلی سرحدوں سے امریکہ میں آنے والی تمام مصنوعات پر 25 فیصد محصولات عائد کر دی جائیں، جس کے لیے میں تمام ضروری دستاویزات پر دستخط کروں گا۔"

ایلون مسک کا ٹرمپ پر اثر و رسوخ ’بڑی تشویش‘، انگیلا میرکل

انہوں نے چین پر بھی اس بات کے لیے تنقید کی کہ وہ غیر قانونی منشیات کو میکسیکو کے راستے سے امریکہ میں داخل ہونے سے روکنے کے لیے خاطر خواہ اقدامات نہیں کر رہا۔

ٹرمپ نے لکھا، "جب تک وہ اسے روک نہیں دیتے، ہم چین سے امریکہ میں آنے والی ان کی تمام مصنوعات پر کسی بھی اضافی ٹیرف سے بڑھ کر مزید دس فیصد ٹیرف وصول کریں گے۔"

ٹرمپ نے صدارتی انتخابات میں کامیابی حاصل کی ہے اور آئندہ برس 20 جنوری کے دن وہ اپنا عہدہ سنبھالیں گے۔

ٹرمپ کی چین مخالف پالیسی ایشیائی ممالک کو متاثر کرسکتی ہے

ٹیرف میں اضافہ اقتصادی ایجنڈے کا حصہ

انتخابی مہم کے دوران ٹرمپ نے امریکہ میں درآمد کی جانے والی تمام اشیا پر 10 فیصد اور چین کی مصنوعات پر 60 فیصد سے بھی زیادہ ٹیرف لگانے کا عزم کیا تھا۔

ان کا خیال ہے کہ امریکہ کی مینوفیکچرنگ یونٹس کو فروغ دینے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ بیرونی ممالک سے درآمدی سامان پر اضافی محصولات عائد کی جائیں۔

ٹرمپ کی جیت افغانستان کے لیے کیا معنی رکھتی ہے؟

اس حوالے سے وہ چین کو خاص طور پر نشانہ بناتے رہے ہیں اور چینی درآمدات پر 60 فیصد سے زیادہ ٹیرف لگانے کی بات کہتے رہے ہیں۔ ٹرمپ نے اپنی پہلی مدت کے دوران بھی چین کے خلاف ٹیرف عائد کیا تھا، تاہم یہ محصولات اس سے بھی کہیں زیادہ ہیں۔

جب ٹرمپ نے اپنی پہلی میعاد کے دوران بہت زیادہ محصولات عائد کیے تھے، تو کینیڈا سمیت دنیا کے دیگر ممالک نے اپنے طور پر جوابی ٹیرف عائد کر کے اس کا جواب دیا تھاتصویر: Alex Brandon/AP Photo/picture alliance

اگر منصوبے کے مطابق اس پر عمل ہوتا ہے، تو وزارت خزانہ کے لیے ٹرمپ کے نامزد کردہ اسکاٹ بیسنٹ محصولات کے نفاذ کی نگرانی کریں گے۔ وہ بھی ٹیرف کو دوسرے ملکوں کے ساتھ گفت و شنید کے لیے ایک آلے کے طور پر دیکھتے ہیں۔

فوکس نیوز کے ایک انتخابی ایڈ میں بیسنٹ نے دلیل دی تھی کہ محصولات "صدر کی خارجہ پالیسی کے مقاصد کے حصول کے لیے ایک مفید ذریعہ ہیں۔ چاہے یہ اتحادیوں کو اپنے دفاع پر زیادہ خرچ کرنے، امریکی برآمدات کے لیے غیر ملکی منڈیوں کو کھولنے، غیر قانونی امیگریشن کے خاتمے کے لیے تعاون کو محفوظ بنانے کی بات ہو، اسمگلنگ کی روک تھام ہو یا پھر فوجی جارحیت کو روکنے کے لیے ہو، محصولات ان سب میں مرکزی کردار ادا کر سکتے ہیں۔"

ٹرمپ اور بائیڈن کی ملاقات، اقتدار کی پرامن منتقلی کا وعدہ

تجارتی شراکت داروں سے ٹرمپ کو مقابلے کا سامنا

واضح رہے کہ جب ٹرمپ نے اپنی پہلی میعاد کے دوران بہت زیادہ محصولات عائد کیے تھے، تو کینیڈا سمیت دنیا کے دیگر ممالک نے اپنے طور پر جوابی ٹیرف عائد کر کے اس کا جواب دیا تھا۔

اس کی وجہ سے ٹرمپ نے 2020 میں امریکہ، میکسیکو اور کینیڈا کے درمیان ایک معاہدہ کیا تھا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ امریکہ، کینیڈا اور میکسیکو کے درمیان نقل و حمل کا سامان بڑی حد تک ڈیوٹی فری سرحدوں کو عبور کرتا رہے گا۔

غیر قانونی امیگریشن کے تعلق سے اب اس معاہدے کو توڑنے کے جواز کے لیے وہ قومی سلامتی کے مسائل سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہے۔

تاہم میکسیکو کی وزارت خزانہ نے کہا کہ "میکسیکو امریکہ کا اعلی تجارتی پارٹنر ہے اور مذکورہ معاہدہ قومی اور بین الاقوامی سرمایہ کاروں کے لیے یقین دہانی فراہم کرنے کا بھی ایک فریم ورک ہے۔"

ٹرمپ نے یوکرین اور غزہ جنگ کے خاتمے کی کوششیں شروع کر دیں؟

کینیڈا کی نائب وزیر اعظم کرسٹیا فری لینڈ اور پبلک سیفٹی کے وزیر ڈومینک لیبلانک کے مشترکہ بیان میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ وہ آنے والی امریکی انتظامیہ کے ساتھ سرحد اور وسیع اقتصادی تعلقات پر بات چیت کی جائے گی۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ "کینیڈا سرحدی حفاظت اور ہماری مشترکہ سرحد کی سالمیت کو سب سے زیادہ ترجیح دیتا ہے۔ آج ہمارے تعلقات متوازن اور باہمی طور پر فائدہ مند ہیں، خاص طور پر امریکی کارکنوں کے لیے۔"

ادھر واشنگٹن میں چینی سفارت خانے نے اس پر اپنے رد عمل میں خبردار کیا ہے کہ اس سے نہ تو امریکہ اور نہ ہی چین تجارتی جنگ جیت سکیں گے۔

ص ز/ ج ا (اے پی، اے ایف پی، روئٹرز، ڈی پی اے)

جنگ کسی ملک کے لیے سازگار نہیں، حنا ربانی کھر

07:17

This browser does not support the video element.

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں