امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی ٹویٹس کے ذریعے لوگوں کی تذلیل بھی کی ہے اور ’کوفی فی‘ جیسے ناقابل فہم الفاظ بھی استعمال کیے ہیں۔ اب ایک ڈیجیٹل آرکائیو کے ذریعے ٹرمپ کے متنازعہ ٹویٹر پیغامات کو ترتیب میں لایا جا رہا ہے۔
تصویر: twitter/realDonaldTrump
اشتہار
باراک اوباما ٹویٹر اکاؤنٹ رکھنے والے پہلے امریکی صدر تھے۔ جنوری میں اوباما کا یہ اکاؤنٹ ان کے جانشین ڈونلڈ ٹرمپ کے حوالے کر دیا گیا۔ اوباما کی ٹویٹس آرکائیو کر دی گئیں اور یوں ٹرمپ کو دنیا کے اس طاقتور ترین ٹویٹر اکاؤنٹ تک مکمل رسائی حاصل ہو گئی۔
تاہم نئے صدر اپنے پرانے ٹویٹر اکاؤنٹ @realDonaldtrump کو ہی استعمال کرتے رہے اور اس اکاؤنٹ کی شہرت بھی کچھ کم نہیں۔ ٹرمپ کے نجی ٹویٹر پیغامات کو بھی ان کے عہدے کے تناظر میں دیکھا جانے لگا اور اب مختلف تحقیقی ادارے ان پیغامات کی جانچ پڑتال کر رہے ہیں۔
ٹرمپ نے اپنی ٹویٹس کے ذریعے صرف ذرائع ابلاغ کے اداروں کو ہی نہیں بلکہ کئی معروف شخصیات کو بھی ہدف تنقید بنایا۔ اس دوران انہوں نے ’شکست خوردہ‘ 234 مرتبہ، ’بے وقوف‘ یا ’احمق‘ جیسے الفاظ کو 222 مرتبہ استعمال کیا۔ اس کے علاوہ ان کی ٹویٹس میں خوفناک، پاگل، لاغر اور بے ایمان جیسے الفاظ بار بار پڑھنے کو ملتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/J. Arriens
میکسیکو کی سرحد پر دیوار بنانے کا معاملہ ہو یا پھر مسلم اکثریتی ممالک کے شہریوں پر امریکا کا سفر کرنے پر پابندی عائد کرنے کا فیصلہ۔ ٹرمپ ایک ایسی سیاست کر رہے ہیں، جس میں مسائل کا صرف جارحانہ حل ہی موجود ہے۔ اس کے علاہ ٹرمپ ٹویٹر پر بڑے شوق سے انتہائی پیچیدہ مسائل کا کوئی فوری اور آسان حل پیش کر دیتے ہیں۔
ساتھ ہی ٹرمپ کی بہت سی ٹویٹس میں املا کی غلطیاں بھی ہوتی ہیں۔ اکثر ان غلطیوں کی تصحیح کرنے کی کوشش کی جاتی ہے یا پھر انہیں حذف کر دیا جاتا ہے۔ ٹرمپ اپنی ساٹھ سے زائد ٹویٹس میں سابق صدر باراک اوباما کو موضوع بنا چکے ہیں۔
رواں برس جنوری کے اعداد و شمار کے مطابق ٹویٹر پر اوباما کے اسی ملین سے زائد فالوور ہیں جبکہ ٹرمپ کے بائیس ملین کے لگ بھگ ہیں۔
ایک طویل مدتِ صدارت کے ابتدائی چند مہینوں میں عموماً محتاط طرزِ عمل دیکھنے میں آتا ہے تاہم ڈونلڈ ٹرمپ کے معاملے میں ایسا کچھ بھی نظر نہیں آیا۔ امریکا کے پینتالیس ویں صدر نے اس سال جنوری سے دنیا بھر کے ہوش اڑا رکھے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/D. Leal-Olivas
مفاہمت؟ وہ کیا ہوتی ہے؟
بیس جنوری کو اپنی حلف برداری کے بعد ٹرمپ نے جو خطاب کیا، وہ اُن کی انتخابی مہم ہی کا ایک حصہ معلوم ہوتا تھا۔ اُنہوں نے بڑے جارحانہ انداز میں ’امریکا پہلے‘ کا نعرہ لگاتے ہوئے واضح کیا کہ اُن کی نئی پالیسیاں کس سمت میں جائیں گی۔ ٹرمپ نے کہا کہ ملک میں برسوں سے ایک ’قتلِ عام‘ جاری ہے، جسے اب ختم ہونا ہو گا۔ دنیا انگشت بدنداں ہے کہ یہ لیڈر آخر کیا کرنے والا ہے۔
تصویر: Reuters/C. Barria
نظر کا دھوکا
کیا آپ کو بائیں تصویر میں دائیں تصویر کے مقابلے میں زیادہ لوگ نظر آ رہے ہیں؟ غلط۔ آپ دراصل ’متبادل حقائق‘ والی بات نہیں جانتے۔ دائیں تصویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ بیس جنوری کو ٹرمپ کی حلف برداری میں کتنے کم لوگ شریک ہوئے۔ آٹھ سال پہلے 2009ء میں باراک اوباما کو سننے والوں کی تعداد کہیں زیادہ تھی تاہم ٹرمپ کے مُشیر اس کے برعکس دعویٰ کرتے ہیں۔
تصویر: dpa/picture-alliance
خاتونِ اوّل
صدر کی تیسری اہلیہ میلانیا ٹرمپ کا تعلق سلووینیا سے ہے تاہم اُن کے بارے میں زیادہ تفصیلات معلوم نہیں ہیں۔ وہ ایک ماڈل تھیں اور پہلے اُن کا نام کناؤس تھا۔ ان دونوں کی واحد اولاد ایک بیٹا بیرن ولیم ہے، جس کی پیدائش 2006ء کی ہے اور وہ جان ایف کینیڈی جونیئر کے بعد سے کسی صدر کا سب سے چھوٹا بیٹا ہے۔ کم از کم ملبوسات کے معاملے میں میلانی ٹرمپ کا موازنہ گاہے بہ گاہے جیکی کینیڈی کے سلتھ بھی کیا جاتا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/S. Loeb
نہیں، یہ ٹرمپ کی کامیابی کا جشن منانے والے نہیں
وائٹ ہاؤس کے نئے مکین کے خلاف احتجاج دوسرے روز ہی شروع ہو گیا تھا۔ صرف واشنگٹن میں ہی ’خواتین کے مارچ‘ نامی جلوس میں شرکاء کی تعداد تقریباً پانچ لاکھ رہی۔ نیویارک سے لے کر لاس اینجلس تک ہونے والے مظاہروں میں چالیس لاکھ سے زیادہ افراد شریک ہوئے۔ اس طرح ٹرمپ اپنی صدارت کے آغاز ہی سے امریکی معاشرے میں تقسیم کا اور مختلف گروہوں کے درمیان خلیج کو اور گہرا کرنے کا باعث بن رہے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J.Minchillo
ایک کے بعد دوسرا فرمان
ٹرمپ صدارتی فرامین کے ساتھ حکومت کر رہے ہیں۔ وہ مسلسل ایک کے بعد دوسرے صدارتی فرمان پر دستخط کر رہے ہیں اور یوں ایک ایسا راستہ اختیار کر رہے ہیں، جو مکمل طور پر قانونی بھی ہے اور جس میں وہ کانگریس سے بالا بالا اپنے انتظامی اختیارات استعمال کر رہے ہیں۔ کئی مسلمان ممالک کے شہریوں کے امریکا میں داخلے پر پابندی کے حکم کے ساتھ غالباً وہ بہت آگے چلے گئے کیونکہ عدالت نے اس فرمان پر عملدرآمد روک دیا۔
تصویر: Reuters/A. P. Bernstein
آئے بھی وہ، گئے بھی وہ
ٹرمپ متنازعہ صحافی اور دائیں بازو کے جریدے ’برائٹ بارٹ نیوز‘ کے سابق مدیر اعلیٰ اسٹیفن بینن کے خیالات سے بہت متاثر تھے اور اسی لیے اُنہوں نے خود کو اقتصادی قوم پرست کہنے والے بینن کو وائٹ ہاؤس میں اپنا مُشیرِ اعلیٰ بنا دیا۔ بیننن نے ٹرمپ کو پورے ریاستی ڈھانچے کی از سرِ نو تشکیل کا مشورہ دیا تاہم اپنی صدارت کے 76ویں روز ٹرمپ نے بینن کو قومی سلامتی کونسل سے نکال دیا۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Ngan
اہلِ خانہ کے ساتھ صلاح و مشورہ
کیا ہوا جو سخت گیر بینن کے مشوروں کا سلسلہ ختم ہو گیا۔ کوئی خلا پیدا نہیں ہوا بلکہ ٹرمپ کے ناتجربہ کار داماد جیرڈ کشنر صدر کے لیے زیادہ سے زیادہ اہم ہوتے چلے گئے۔ ٹرمپ کی بیٹی ایوانکا ٹرمپ کو بھی اپنے والد کی باقاعدہ مُشیر بنا دیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ ابھی وہ یہ ذمہ داریاں اعزازی طور پر سرانجام دیں گی۔ کل تک ٹرمپ فیملی کاروبار کی دنیا پر راج کرتی تھی، اب ایک سیاسی خاندان بن گئی ہے۔
تصویر: picture alliance/AP Images/W. Lee
’متبادل حقائق‘ کی ماں
یہ ہیں قانون کی ماہر اور ٹرمپ کی سرکاری مُشیر کیلیئن کونوے، ’متبادل حقائق‘ انہی کی اختراع ہے۔ سیاسی معمولات میں اُن کی موجودگی نمایاں ہے۔ خواہ ایک فرضی ’قتلِ عام‘ ہو، جس کی بنیاد پر مسلمانوں کے امریکا میں داخلے پر پابندی عائد کرنا ضروری ہو یا پھر اوول آفس میں کسی ٹین ایجر کی طرح اُن کا طرزِ عمل ہو، کیلیئن کونوے اکثر موضوعِ گفتگو بنتی رہتی ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/B. Smialowski
لاکھوں میں سے ایک
گواڈالُوپے گارسیا ڈے رایوس کا چہرہ ٹرمپ کے 25 جنوری کے صدارتی فرمان کی ایک علامت بن چکا ہے۔ میکسیکو کی یہ 36 سالہ خاتون امریکا میں پیدا ہونے والے دو بچوں کی ماں ہے۔ یہ خاتون اُن گیارہ ملین سے زائد افراد میں سے ایک ہے، جو بغیر قانونی دستاویزات کے امریکا میں رہ رہے ہیں۔ ٹرمپ نے انتخابی مہم میں کیا ہوا اپنا وعدہ پورا کیا اور اس ماں کو گرفتار کر کے اُس کے اہلِ خانہ کے بغیر واپس میکسیکو بھیج دیا۔
ٹرمپ کی ہنگامہ خیز پالیسیاں کارٹون بنانے والوں کا بھی پسندیدہ موضوع ہیں۔ اس سال جرمنی میں کارنیوال کے جلوس نکالے گئے تو کئی فلوٹس میں ٹرمپ کو بھی موضوع بنایا گیا۔ امریکا آزادی کا دیس کہلاتا ہے لیکن ٹرمپ کی پالیسیوں نے امریکا کی اس ساکھ کو نقصان پہنچایا ہے۔ کئی ایک فلوٹس میں تو ٹرمپ اور مس لبرٹی کو ’قابل اعتراض‘ حالت میں بھی دکھایا گیا۔ آپ کو البتہ یہ ایک تصویر دکھائی جا سکتی ہے۔
تصویر: picture alliance/dpa/F. Gambarini
دکان بند ہونے والی ہے
جس سرحد پر ابھی صرف جالی ہے، وہ آئندہ برسوں میں مکمل طور پر بند کر دی جائے گی۔ میکسیکو کے ساتھ ملنے والی جنوبی سرحد کو ایک ناقابلِ عبور رکاوٹ بنا دیا جائے گا۔ یہ بھی ٹرمپ کے مرکزی انتخابی وعدوں میں سے ایک تھا۔ ایک دوسرے سے الگ کر دیے گئے کنبوں کے ارکان اب صرف جالی کے پیچھے سے ایک دوسرے سے مل سکتے ہیں۔ یہاں ایک دوسرے کو صرف ایک انگلی سے ہی چھوا جا سکتا ہے۔
تصویر: Reuters/J. Duenes
شکست خوردہ چہرے ایسے ہوتے ہیں
سات سال تک ری پبلکن پارٹی کے ارکان ’اوباما کیئر‘ یعنی ٹرمپ کے پیش رو اوباما کی صحت کے شعبے میں اصلاحات کے خلاف بیانات دیتے رہے لیکن جب ان اصلاحات میں ضروری ترامیم کا معاملہ آیا تو سخت گیر ری پبلکنر نے ان اصلاحات کو کُلّی طور پر ہی ختم کرنے کا مطالبہ کر دیا۔ ایوانِ نمائندگان میں ری پبلکنز کے ترجمان پال رائن کو اپنی شکست تسلیم کرنا پڑی۔ ٹرمپ کے ’ڈیل میکر‘ کے امیج کو سخت نقصان پہنچا۔
تصویر: Reuters/J. Ernst
دخترِ اوّل برلن میں
امریکی میڈیا ٹرمپ کی صاحبزادی ایوانکا ٹرمپ کو طنز کا نشانہ بناتا رہتا ہے لیکن جرمن میڈیا، بالخصوص عوامی اخبار ’بِلڈ‘ کی جانب سے ایوانکا ٹرمپ کی زبردست پذیرائی کی گئی، جب وہ حال ہی میں جرمن دارالحکومت برلن میں ڈبلیو ٹونٹی کے اجتماع میں شرکت کے لیے آئیں۔ خواتین کے اس بین الاقوامی اجتماع کے موقع پر جرمن چانسلر انگیلا میرکل بھی اُن کے ساتھ بہت بے تکلفی سے مل رہی ہیں۔