1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
اقتصادیاتایشیا

ٹرمپ کی چین مخالف پالیسی ایشیائی ممالک کو متاثر کرسکتی ہے

17 نومبر 2024

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے انتخابی مہم کے دوران چینی مصنوعات پر 60 فیصد ٹیکس عائد کرنے کا اعلان کیا تھا۔ امریکی حکومت کے اس ممکنہ اقدام کے سبب چین اپنے پیداواری مراکز دیگر ایشیائی ممالک میں منتقل کر سکتا ہے۔

امریکہ چین تجارتی جنگ کی علامتی تصویر
چین کی معیشت میں سست روی کے باعث جنوب مشرقی ایشیائی ممالک بھی متاثر ہوں گےتصویر: Colourbox

ماہرین کے مطابق، امریکی صدر کا یہ فیصلہ چین کی مجموعی ملکی پیداوار میں 0.7 فیصد سے 1.6 فیصد تک کمی کا سبب بن سکتا ہے۔

چین کی معیشت میں سست روی کے باعث جنوب مشرقی ایشیائی ممالک بھی متاثر ہوں گے کیونکہ ان کی اقتصادی ترقی بیجنگ کے ساتھ تجارت اور سرمایہ کاری پر منحصر ہے۔

تحقیقاتی ادارے آکسفورڈ اکنامکس سے تعلق رکھنے والے آدم احمد سمدین کے مطابق، ’’چین پر اضافی ٹیکس عائد کیے جانے کے سبب امریکہ میں چینی مصنوعات کی طلب میں کمی آئے گی، جس کے نتیجے میں آسیان ممالک کی برآمدات بھی متاثر ہوں گی، چاہے امریکہ ان ممالک کی مصنوعات پر براہ راست ٹیکس عائد نہ بھی کرے۔‘‘

ٹرمپ نے اس سے قبل 2018 میں اپنے پہلے دور حکومت میں چینی مصنوعات پر بھاری محصولات عائد کرنے کی منظوری دی تو چینی کمپنیاں ان محصولات سے بچنے کے لیے ان ممالک کے ذریعے اپنی مصنوعات امریکہ بھیجنے لگیں جہاں کم یا کوئی ٹیکس نہیں تھا۔

تاہم اب ایسے ممالک بھی خطرے سے دوچار ہیں۔

ٹرمپ ویتنام کی الیکٹرانکس کی برآمدات پر بھی ٹیکس عائد کر سکتے ہیں تاکہ چینی مصنوعات ویتنام کے ذریعے بھی امریکی مارکیٹ تک نہ پہنچ سکیںتصویر: Patrick Semansky/AP Photo/picture alliance

جاپانی ماہر لائیڈ چان کے مطابق ٹرمپ ویتنام کی الیکٹرانکس کی برآمدات پر بھی اضافی ٹیکس عائد کر سکتے ہیں تاکہ چینی مصنوعات ویتنام کے ذریعے بھی امریکی مارکیٹ تک نہ پہنچ سکیں۔

آکسفورڈ اکنامکس کی ماہر معاشیات آلیکسانڈرا ہیرمان کا کہنا ہے کہ بھارتی مصنوعات میں چینی خام مال کی نمایاں مقدار استعمال کیے جانے کے سبب امریکہ اپنی تجارتی پالیسیوں کے تحت بھارت کو بھی ہدف بنا سکتا ہے۔

درمیانی مدت میں، چین سے باہر فیکٹریاں قائم کر کے اس تجارتی تنازعے کے منفی اثرات کو کم کیا جا سکتا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے پہلے دورِ حکومت میں ''چائنہ پلس ون‘‘ تجارتی حکمت عملی کے تحت مختلف کمپنیوں نے اپنی پیداواری یونٹ بھارت، ملائیشیا، تھائی لینڈ اور ویتنام جیسے ممالک میں منتقل کر لی تھیں۔

اپنے جغرافیائی مقام اور سستی افرادی قوت کے باعث ویتنام پہلے ہی چائنہ پلس ون پالیسی سے اہم فائدے حاصل کر چکا ہے۔

چینی کمپنیاں خود بھی بڑے پیمانے پر ویتنام سے انڈونیشیا تک مختلف شعبوں میں سرمایہ کاری کر رہی ہیں، جن میں شمسی توانائی، بیٹریاں، برقی گاڑیاں، اور معدنیات کے شعبے شامل ہیں۔

پیداوار کے مراکز کو دوسرے ممالک میں منتقل کرنے سے صنعتوں کی کارکردگی متاثر ہو سکتی ہےتصویر: Imago

امریکی چیمبر آف کامرس کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ایڈم سٹکاف کے مطابق ’’امریکی کمپنیاں اور سرمایہ کار ویتنام میں کاروباری مواقع سے فائدہ اٹھانے میں گہری دلچسپی رکھتے ہیں جو کہ ٹرمپ کے دور حکومت میں بھی برقرار رہے گی۔‘‘

تاہم نومورا بنک سے منسلک ماہرین کے مطابق پیداوار کی نوعیت چاہے سادہ ہو یا پھر جدید ٹیکنالوجی اور اعلیٰ معیار کی اشیاء، چین اپنی مصنوعات کو کم قیمت پر، بڑی مقدار میں اور اعلیٰ معیار کے ساتھ تیار کرنے میں مہارت رکھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کسی بھی دوسرے ملک کے لیے عالمی مارکیٹ میں اس کی جگہ لینا مشکل ہے۔

آئی ایم ایف کے نائب ڈائریکٹر برائے ایشیا ٹوماس ہیلبلنگ کے مطابق اگر پیداوار کے مراکز کو دوسرے ممالک میں منتقل کیا جاتا ہے تو اس سے صنعتوں کی کارکردگی متاثر ہو سکتی ہے، مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ ہو سکتا ہے، اور عالمی معیشت پر بھی منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔

وقتی طور پر ایشیائی ممالک کو برآمدات کی مارکیٹ میں زیادہ مواقع اور منافع حاصل ہو سکتا ہے لیکن بالآخر عالمی سطح پر طلب میں کمی کے باعث ان ممالک کی تجارتی و اقتصادی صورتحال خراب ہو سکتی ہے۔

ح ف / ج ا (اے ایف پی)

امریکہ چین سے راہیں جدا کیوں کرنا چاہتا ہے؟

01:41

This browser does not support the video element.

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں