امریکی صدر کے قریبی مشیر گیری کوہن نے مستعفی ہونے کا اعلان کر دیا ہے۔ اقتصادی اُمور کے مشیر کوہن ایک ایسے وقت پر وائٹ ہاؤس کو چھوڑ رہے ہیں، جب ٹرمپ اسٹیل اور ایلومینیم کی درآمد پر ٹیکس میں اضافہ کرنا چاہتے ہیں۔
اشتہار
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ میں شامل بڑے نام آہستہ آہتسہ ان کا ساتھ چھوڑ رہے ہیں اور گیری کوہن بھی ان میں سے ایک ہیں۔ جرمن نیوز ایجنسی ڈی پی اے کے مطابق ٹرمپ کی طرف سے اپنے موقف میں لچک نہ دکھانے پر کوہن نے استعفیٰ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ کوہن کا کہنا ہے کہ اگر اسٹیل اور ایلومینیم کی درآمد پر زیادہ ٹیکس عائد کیے گئے تو متاثرہ ممالک جوابی اقدامات اٹھا سکتے ہیں، جن سے امریکی معیشت کو زیادہ نقصان ہونے کا خدشہ ہے۔ سن دو ہزار سترہ میں امریکی ٹیکس نظام میں اصلاحات کے مسودے کی تیاری میں کوہن کا مرکزی کردار تھا۔
ٹرمپ انتظامیہ نے ان نئے متنازعہ محصولات کا اعلان چند روز پہلے کیا تھا اور ان پر چین کے علاوہ کئی دیگر ممالک کی طرف سے بھی شدید تنقید کی گئی تھی۔ چین کی طرف سے امریکا کو واضح تنبیہ کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ واشنگٹن نے اسے تجارتی نقصان پہنچایا تو بیجنگ جواباﹰ خاموش نہیں بیٹھا رہے گا۔
گیری کوہن کے استعفے سے ایک ہفتہ پہلے ہی کمیونیکیشنز کی سربراہ ہوپ ہیکس اپنے عہدے سے مستعفی ہو گئی تھیں۔ ان سے پہلے وائٹ ہاؤس کے ایک اعلیٰ مشیر روب پورٹر نے بھی استعفیٰ دے دیا تھا۔
ٹرمپ کے ایسے نو ساتھی جو برطرف یا مستعفی ہو گئے
وائٹ ہاؤس کی کمیونیکیشن ڈائریکٹر ہوپ ہیکس نے اپنے عہدے سے الگ ہونے کا اعلان کر دیا ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ کے کتنے اعلی عہدیدار برطرف یا مستعفی ہو چکے ہیں، یہ ان تصاویر کے ذریعے جانیے۔
انتیس سالہ سابق ماڈل ہوپ ہیکس امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتہائی قریبی اور پرانی ساتھی قرار دی جاتی ہیں۔ سن دو ہزار پندرہ میں ٹرمپ کی صدارتی مہم کی ترجمان ہوپ نے کہا ہے کہ انہوں نے اپنی ذمہ داریاں بڑے احسن طریقے سے نبھائی ہیں۔ امریکی صدارتی انتخابات میں مبینہ روسی مداخلت پر ان سے پوچھ گچھ بھی کی گئی تھی۔
تصویر: Reuters/C. Barria
اسٹیو بینن
سن دو ہزار سولہ کے انتخابات میں ٹرمپ کی فتح اور اُن کے قوم پرستی اور عالمگیریت کے خلاف ایجنڈے کے پس پشت کارفرما قوت اسٹیو بینن ہی تھے۔ گزشتہ ہفتے امریکی ریاست ورجینیا میں شارلٹس ویل کے علاقے میں ہونے والے سفید فام قوم پرستوں کے مظاہرے میں ہوئی پُر تشدد جھڑپوں کے تناظر میں ٹرمپ کو ریپبلکنز کی جانب سے سخت تنقید کے ساتھ بینن کی برطرفی کے مطالبے کا سامنا بھی تھا۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/A. Brandon
انٹونی سکاراموچی
’مُوچ‘ کی عرفیت سے بلائے جانے والے 53 سالی انٹونی سکاراموچی وائٹ ہاؤس میں محض دس روز ہی میڈیا چیف رہے۔ بہت عرصے خالی رہنے والی اس آسامی کو نیو یارک کے اس شہری نے بخوشی قبول کیا لیکن اپنے رفقائے کار کے ساتھ نامناسب زبان کے استعمال کے باعث ٹرمپ اُن سے خوش نہیں تھے۔ سکاراموچی کو چیف آف سٹاف جان کیلی نے برطرف کیا تھا۔
امریکی محکمہ برائے اخلاقیات کے سابق سربراہ والٹر شاؤب نے رواں برس جولائی میں وائٹ ہاؤس سے ٹرمپ کے پیچیدہ مالیاتی معاملات پر اختلاف رائے کے بعد اپنے منصب سے استعفی دے دیا تھا۔ شاؤب ٹرمپ کے منصب صدارت سنبھالنے کے بعد اُن کے ذاتی کاروبار کے حوالے سے بیانات کے کڑے ناقد رہے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/J.S. Applewhite
رائنس پریبس
صدر ٹرمپ نے اقتدار میں آنے کے فوراﹰ بعد رپبلکن رائنس پریبس کو وائٹ ہاؤس کا چیف آف اسٹاف مقرر کیا تھا۔ تاہم تقرری کے محض چھ ماہ کے اندر ہی اس وقت کے مواصلات کے سربراہ انٹونی سکاراموچی سے مخالفت مول لینے کے سبب اپنے عہدے سے استعفیٰ دینا پڑا تھا۔
تصویر: Reuters/M. Segar
شین اسپائسر
وائٹ ہاؤس کے سابق پریس سیکرٹری شین اسپائسر کے ٹرمپ اور میڈیا سے بہت اچھے تعلقات تھے۔ تاہم اُنہوں نے ٹرمپ کی جانب سے انٹونی سکاراموچی کی بطور ڈائرکٹر مواصلات تعیناتی کے بعد احتجاجاﹰ استعفیٰ دے دیا تھا۔ اسپائسر اس تقرری سے خوش نہیں تھے۔
تصویر: Reuters/K.Lamarque
مائیکل ڈیوبک
وائٹ ہاؤس پریس سیکرٹری مائیکل ڈیوبک کو اُن کے امریکی انتخابات میں روس کے ملوث ہونے کے الزامات کو صحیح طور پر ہینڈل نہ کرنے کے سبب ان کے عہدے سے فارغ کر دیا گیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/S. Walsh
جیمز کومی
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے وفاقی تفتیشی ادارے ایف بی آئی کے سربراہ جیمز کومی کو بھی برطرف کر دیا تھا۔ کومی پر الزام تھا کہ اُنہوں نے ہلیری کلنٹن کی ای میلز کے بارے میں درست معلومات فراہم نہیں کی تھیں۔ تاہم ٹرمپ کے ناقدین کو یقین ہے کہ برطرفی کی اصل وجہ ایف بی آئی کا ٹرمپ کی انتخابی مہم میں روس کے ملوث ہونے کے تانے بانے تلاش کرنا تھا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/J. S. Applewhite
مائیکل فلن
قومی سلامتی کے لیے ٹرمپ کے مشیر مائیکل فلن کو رواں برس فروری میں اپنے عہدے سے استعفی دینا پڑا تھا۔ فلن نے استعفے سے قبل بتایا تھا کہ اُنہوں نے صدر ٹرمپ کے حلف اٹھانے سے قبل روسی سفیر سے روس پر امریکی پابندیوں کے حوالے سے بات چیت کی تھی۔ فلن پر اس حوالے سے نائب امریکی صدر مائیک پنس کو گمراہ کرنے کا الزام بھی عائد کیا گیا تھا۔
تصویر: Reuters/C. Barria
9 تصاویر1 | 9
نیوز ایجنسی ڈی پی اے کے مطابق ایسی افواہیں بھی گردش کر رہی ہیں کہ ممکنہ طور پر وائٹ ہاؤس کے چیف آف اسٹاف جان ایف کیلی اور امریکی صدر کے قومی سلامتی کے مشیر مک ماسٹر بھی ان کو چھوڑ کر جانے والے ہیں۔
صدر ٹرمپ کے اعلان کے مطابق امریکا درآمد کردہ اسٹیل پر پچیس فیصد اور ایلومینیم کی مصنوعات پر دس فیصد نئے محصولات عائد کر دے گا۔ صدر ٹرمپ کی طرف سے بیرونی ممالک کے اعتراضات کو مسترد کرتے ہوئے کہا گیا تھا، ’’تجارتی جنگیں اچھی ہوتی ہیں، جنہیں آسانی سے جیتا جا سکتا ہے۔‘‘
تاہم منگل کے دن امریکی وزارت خزانہ کی طرف سے صدر ٹرمپ کے برعکس ایک بیان جاری کیا گیا ہے۔ امریکی وزارت خزانہ کا کہنا ہے کہ محصولات کے حوالے سے امریکا اپنے تجارتی پارٹنرز کے ساتھ کوئی محاذ آرائی نہیں چاہتا۔ بیان کے مطابق فی الحال ٹرمپ کی طرف سے تفصیلات فراہم کرنے کا انتظار کیا جا رہا ہے۔