ٹرمپ کے انکار کے بعد جرمنی فلسطینیوں کے ساتھ کھڑا ہو گیا
31 اگست 2018
امریکی صدر ٹرمپ کے فلسطینیوں کی مالی امداد کی بندش کے فیصلے کے بعد جرمنی فلسطینیوں کے ساتھ کھڑا ہو گیا ہے۔ جرمن وزیر خارجہ ماس کے بقول فلسطینیوں کے پاس رقوم ختم ہو گئیں تو قابو میں نہ آنے والی صورت حال پیدا ہو جائے گی۔
اشتہار
وفاقی جرمن وزیر خارجہ ہائیکو ماس کے مطابق فلسطینیوں کو مالی امداد کی اشد ضرورت ہے اور اگر ان کو دستیاب مالی وسائل ختم ہو گئے، تو ’اسباب و نتائج کا ایک دوسرے سے جڑا ایسا طویل سلسلہ شروع ہو جائے گا، جسے قابو کرنا ممکن نہیں ہو گا‘۔ ہائیکو ماس کے الفاظ میں اسی وجہ سے جرمنی اب فلسطینیوں کے لیے بین الاقوامی سطح پر ایک نئی پیش رفت کی کوشش کر رہا ہے۔
خبر رساں ادارے ڈی پی اے نے سفارتی ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ جرمن حکومت فلسطینی مہاجرین کے لیے اقوام متحدہ کی ایجنسی کی فنڈنگ میں ’واضح‘ اضافہ کرنے پر غور کر رہی ہے۔ عالمی ادارے کی ریلیف اینڈ ورکس ایجنسی برائے فلسطینی مہاجرین UNRWA ایسے فلسطینیوں کو مدد فراہم کرتی ہے، جو مشرق وسطیٰ کے تنازعے کے نتیجے میں اپنے گھر بار سے محروم ہو چکے ہیں۔
اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق یہ ایجنسی تقریباﹰ پچاس لاکھ فلسطینیوں کو خوراک اور طبی مدد فراہم کرنے کے علاوہ متعدد اسکول بھی چلاتی ہے۔ تاہم امریکی حکام کا کہنا ہے کہ اس ایجنسی کی وجہ سے فلسطینی مہاجرین کے بحران میں تیزی پیدا ہوئی ہے۔ امریکا میں ٹرمپ انتظامیہ نے اس سال اس ایجنسی کو صرف ساٹھ ملین ڈالر کی رقوم فراہم کیں۔ ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ ٹرمپ انتظامیہ اس ایجنسی کی فنڈنگ مکمل طور پر روک بھی سکتی ہے۔
سن دو ہزار سترہ کے دوران واشنگٹن حکومت کی طرف سے UNRWA کے لیے 365 ملین ڈالر مختص کیے گئے تھے، جو ترقیاتی اور انسانی بنیادوں پر چلائے جانے والے امدادی منصوبوں پر صرف کی گئی تھیں۔ امریکا کی طرف سے اس فنڈنگ کی کمی کے باعث فلسطینی مہاجرین کی مشکلات میں اضافے کا خطرہ پیدا ہو چکا ہے۔ اس تناظر میں اقوام متحدہ اپنے تحفظات کا اظہار بھی کر چکا ہے۔
اس صورتحال میں جرمن وزیر خارجہ ہائیکو ماس نے یورپی یونین کے رکن ممالک کے اپنے ہم منصب وزراء کو ارسال کردہ ایک خط میں لکھا ہے کہ برلن حکومت اس ایجنسی کی فنڈنگ میں اضافہ کرنا چاہتی ہے۔ تاہم ابھی تک یہ واضح نہیں کہ جرمنی اس حوالے سے کتنی رقوم فراہم کرنے پر غور کر رہا ہے۔ ڈی پی اے نے سفارتی ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ یہ رقوم اتنی ہوں گی کہ ان سے امریکی فنڈنگ میں کمی کی وجہ سے ہونے والے 217 ملین یورو کے خسارے کا ازالہ ہو سکے گا۔
ہائیکو ماس نے کہا ہے کہ اہم بات یہ کہ یورپی یونین اس ایجنسی کی مدد کے لیے مشترکہ اقدامات کرے۔ انہوں نے کہا کہ مشرق وسطیٰ میں استحکام کے تناظر میں UNRWA انتہائی اہم کردار ادا کر رہی ہے۔ ماس نے خبردار کیا ہے کہ اگر یہ ایجنسی غیرفعال ہوئی تو اس کے نتیجے میں ’ناقابل کنٹرول ردعمل‘ پیدا ہو جائے گا۔ رواں برس جرمنی نے اس ایجنسی کو تقریباﹰ 96 ملین ڈالر کی فنڈنگ فراہم کی ہے۔
امریکی صدر کا الزام ہے کہ فلسطینیوں کی وجہ سے مشرق وسطیٰ میں قیام امن کی کوششوں میں مشکلات درپیش ہیں جبکہ فلسطینی اتھارٹی ٹرمپ کو اسرائیل نواز قرار دیتی ہے۔ دوسری طرف یورپی یونین اس تنازعے کے خاتمے کے لیے ابھی تک دو ریاستی حل کو ناگزیر سمجھتی ہے۔ فلسطینی حکام اور اسرائیل کے مابین امن مذاکرات کا سلسلہ عرصے سے تعطل کا شکار ہے۔
ع ب / م م / خبر رساں ادارے
یروشلم سن 1967 میں اور اب سن 2017 میں؟
فلسطینی اسرائیلی تنازعے میں یروشلم ایک اہم وجہ اختلاف قرار دیا جاتا ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ سن 1967 کی چھ روزہ جنگ میں یہ شہر کیسا تھا اور اب تقریبا پچاس برس بعد یہ کیسا دکھتا ہے؟
تصویر: Reuters/A. Awad
آج کا ’جبل زیتون‘
’ماؤنٹ آف اولیوَز‘ یا جبل زیتون سے لی گئی اس تصویر میں یروشلم کا منظر نمایاں ہے۔ سنہری رنگت والا ’گنبد الصخرا‘ قدیمی شہر کے مشرق میں واقع ہے۔ اس مقام پر یہودیوں کا قدیمی قبرستان بھی ہے۔ یہاں زیتون کے درخت بہتات میں پائے جاتے تھے، اس مقام کا نام اسی نسبت سے رکھا گیا تھا۔
تصویر: Reuters/R. Zvulun
تب کا ’جبل زیتون‘
عرب اسرائیل چھ روزہ جنگ پانچ سے دس جون تک جاری رہی تھی۔ یہ تصویر سات جون سن 1967 کو لی گئی تھی۔ اگر اس تصویر میں قدیمی شہر واضح نہ ہوتا تو دیکھنے والا شائد سمجھ نہ سکتا کہ یہ کون سا مقام ہے۔
تصویر: Government Press Office/REUTERS
آج کی الاقصیٰ مسجد
یہ مسجد ٹمپل ماؤنٹ میں واقع ہے۔ یہ مقام نہ صرف مسلمانوں کے لیے انتہائی مقدس ہے بلکہ یہودیت میں بھی اسے بہت زیادہ احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ یہودی روایات کے مطابق اسی مقام پر دو انتہائی مقدس ٹمپل تھے، جن کا تذکرہ بائیبل میں بھی ملتا ہے۔ مکہ اور مدینہ کے بعد اسلام میں یہ تیسرا سب سے زیادہ مقدس مقام ہے۔ اسی طرح مسیحیت میں بھی ٹمپل ماؤنٹ مذہبی اعتبار سے بہت مقدس ہے۔
تصویر: Reuters/A. Awad
تب کی الاقصیٰ مسجد
الاقصیٰ مسجد یروشلم کی سب سے بڑی مسجد ہے۔ چھ روزہ عرب اسرائیل جنگ میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد اسرائیل نے اس علاقے کا کنٹرول بھی سنبھال لیا تھا۔ تب سے یہاں اسرائیلی حکومت کا سخت کنٹرول ہے۔ تاہم اتفاق کیا گیا تھا کہ یروشلم میں واقع ٹمپل ماؤنٹ کا انتظام ’وقف‘ نامی ایک مسلم مذہبی ٹرسٹ چلائے گی۔
تصویر: Reuters/
آج کا ’باب دمشق‘
یروشلم کا یہ تاریخی دروازہ قدیمی شہر میں داخل ہونے کا ایک انتہائی اہم راستہ ہے۔ گزشتہ دو برسوں سے اسی علاقے میں فلسطینوں کی طرف سے اسرائیلیوں پر کیے جانے والے حملوں میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ آج کل یہ مقام سکیورٹی کے حوالے سے انتہائی اہم تصور کیا جاتا ہے۔
تصویر: Reuters/R. Zvulun
تب کا ’باب دمشق‘
یہ دروازہ جولائی سن 1537 میں عثمانیہ دور کے سلطان سلیمان نے بنوایا تھا۔ یہ تصویر جولائی سن 1967 میں لے گئی ہے، جس میں یہ دروازہ واضح دکھائی دے رہا ہے۔ قدیمی شہر میں داخل ہونے کے سات دروازے ہیں، جن میں سے یہ ایک ہے۔
تصویر: Reuters/
آج کا قدیمی شہر
یروشلم کا قدیمی شہر سن انیسو اکیاسی سے یونیسکو کی عالمی ثقافتی ورثے کی فہرست میں شامل ہے۔ یہ مختلف مذاہب کا گڑھ تصور کیا جاتا ہے۔ مسلمانوں کی مسجد الاقصیٰ اور گنبد الصخرہ کے علاوہ یہودیوں کا ٹمپل ماؤنٹ اور ویسٹرن وال بھی یہیں واقع ہیں جبکہ مسیحیوں کا مقدس ترین مقام ’چرچ آف دی ہولی سپلکر‘ بھی یروشلم میں ہے۔
تصویر: Reuters/A. Awad
تب کا قدیمی شہر
یہ مقام ہمیشہ سے ہی انتہائی مصروف رہا ہے، جہاں دکانیں بھی ہیں اور سیاحوں کے لیے دلکش مناظر بھی۔ یہ تصویر جولائی سن 1967 میں لی گئی تھی۔ پچاس سال بعد بھی یروشلم کے اس قدیمی بازار میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی ہے۔ یہ تب بھی انتہائی شاندار تھا اور اب بھی ویسا ہی ہے۔
تصویر: Reuters/Fritz Cohen/Courtesy of Government Press Office
آج کی ’مغربی دیوار‘
ویسٹرن وال (مغربی دیوار) یا دیوار گریہ یہودی مذہب میں بہت زیادہ مقدس تصور کی جاتی ہے۔ یہودی مذہب کے ماننے والے اس دیوار کو چھو کر اور اس کے ساتھ کھڑے ہو کر عبادت بھی کرتے ہیں۔ اس دیوار کی زیارت کی خاطر خواتین اور مردوں کے لیے الگ الگ مقامات تفویص بھی کیے گئے ہیں تاہم یہاں ہر کوئی سکیورٹی چیک کے بعد جا سکتا ہے۔
تصویر: Reuters/R. Zvulun
تب کی ’مغربی دیوار‘
مغربی دیوار (ویسٹرن وال) کو دیوار گریہ بھی کہا جاتا ہے لیکن یہودی مذہب میں اسے حقارت آمیز اصطلاح تصور کیا جاتا ہے اور یہودی اسے اس نام سے نہیں پکارتے۔ یہ تصویر یکم ستمبر سن 1967 میں لی گئی تھی۔