بائیڈن کا دورہ وسکونسن، متاثرہ سیاہ فام شخص سے ملاقات
4 ستمبر 2020
ڈیموکریٹک پارٹی کے صدارتی امیدوار جو بائیڈن نے کینوشا میں پولیس کی فائرنگ میں شدید طور پر زخمی ہونے والے سیاہ فام شخص جیکب بلیک کے اہل خانہ سے ملاقات کی ہے۔
اشتہار
امریکا میں ڈیموکریٹک پارٹی کے صدارتی امیدوار جو بائیڈن نے صدر ٹرمپ کے دورے کے دو روز بعد ریاست وسکونسن کے شہر کینوشا کا دورہ کیا اور چند روز قبل پولیس کی فائرنگ میں شدید طور پر زخمی ہونے والے سیاہ فام شخص جیکب بلیک کے اہل خانہ سے ایک گھنٹے تک ملاقات کی۔ اس موقع پر انہوں نے ایک مقامی چرچ کابھی دورہ کیا اور وہاں موجود کمیونٹی رہنماؤں سے خطاب کرتے ہوئے امریکا میں غلامی کی تاریخ پر باتیں کیں۔
امریکا کے سابق نائب صدر نے جیکب بلیک، جن پر پولیس نے سات بار فائرنگ کی تھی، سے فون پر 15 منٹ تک بات چیت کی۔ 29 سالہ جیکب بلیک پولیس کی گولیوں سے چھلنی اب بھی اسپتال میں ہیں۔ ان کی جان تو بچ گئی ہے تاہم ان کے وکیل کا کہنا ہے کہ گولیوں کے سبب کمر سے نیچے کا ان کا جسم مفلوج ہوسکتا ہے۔
جو بائیڈن نے کینوشا کے دورے کے دوران جیکب بلیک کے اہل خانہ کے ساتھ ایک گھنٹے تک ملاقات کی اور مقامی چرچ کا دورہ کرتے وقت انہوں نے اہم شخصیات کی ایک میٹنگ سے اپنے خطاب میں امریکا میں دور غلامی میں نسل پرستانہ تفریق اور اس دور کی افرا تفری کے خلاف ان کی جد و جہد کو یاد کیا۔
جو بائیڈن نے کہا، ''آخر کار اب ہم اس مقام پر پہنچ رہے ہیں جہاں ہم اس ملک کے اصل گناہ، 400 سالہ قدیم غلامی کی تاریخ اور اس کے آثار، کو ختم کرنے کی کوشش میں ہیں۔'' انہوں نے کہا کہ صدر ٹرمپ لاکھ کوششوں کے باوجود بھی 'بلیک لائیوز میٹر' مہم کو جس طرح کی بھاری اکثریت کی حمایت حاصل ہے اس پر وہ قابو نہیں پا سکے۔
بائیڈن کا یہ دورہ صدر ٹرمپ کے دورے کے دو روز بعد ہوا اور دونوں میں بہت فرق تھا۔ ٹرمپ نے اپنے دورے کے دوران محکمہ پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی حمایت کی اور جیکب بلیک کے اہل خانہ سے ملاقات تک نہیں کی۔
امریکا میں حالیہ مہینوں میں نسل پرستی اور پولیس کے زیادتیوں کے خلاف ملکی سطح پر مظاہرے ہوتے رہے ہیں اور ان مظاہروں کے دوران بعض دفعہ تشدد بھڑکنے کی وجہ سے چند افراد ہلاک بھی ہوئے ہیں۔ ان مظاہروں کی ابتداء ایک سیاہ فام شخص جارج فلوئیڈ کی پولیس کی تحویل میں ہلاکت کے بعد ہوئی تھی۔ دو سفید فام پولیس افسران نے جارج کو پکڑا تھا اور ان میں ایک نے انہیں زمین پر گرا کر ان کی گردن پر اپنا گھٹنا رکھ کر نو منٹ تک دبا ئے رکھا تھا۔ وہ اس دوران یہ کہتے رہے کہ میرا دم گھٹ رہا ہے تاہم پولیس نے ایک نہ سنی اور بالآخر ان کی جان نکل گئی۔
ریاست وسکونسن کے شہر کینوشا میں بھی چند روز قبل پولیس اہلکاروں نے ایک نہتھے سیام فام 29 سالہ جیکب بلیک پر سات بار فائر کیا تھا جس کے خلاف بڑے پیمانے پر مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ وقت پر اسپتال پہنچنے کے سبب ان کی جان بچ گئی۔ تاہم اس واقعہ کے خلاف بھی احتجاجی مظاہروں کے دوران فائرنگ کے ایک واقعے میں دو افراد ہلاک ہوئے۔ اس سلسلے میں ایک 17 سالہ شخص کو گرفتار کیا گیا ہے۔
ص ز / ج ا (ایجنسیاں)
پولیس کے ہاتھوں سیاہ فاموں کے قتل پر امریکا سراپا احتجاج
امریکا میں پولیس کے ہاتھوں سیاہ فاموں کے خلاف منظم غیر منصفانہ سلوک کے خلاف مظاہروں نے پر تشدد شکل اختیار کر لی ہے۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مطابق ملکی فوج اس صورتحال کو کنٹرول کرنے کے لیے تیار ہے اور استعمال کی جا سکتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/newscom/C. Sipkin
’میرا دم گھٹ رہا ہے‘
پولیس کی طرف سے سیاہ فام باشندوں کے ساتھ گزشتہ کئی دہائیوں سے جاری مبینہ ظالمانہ طرز عمل کے خلاف تازہ مظاہروں کا آغاز پیر 25 مئی کو چھیالیس سالہ افریقی نژاد امریکی شہری جارج فلوئڈ کی ہلاکت کے بعد ہوا۔ ایک پولیس افسر نے فلوئڈ کو منہ کے بل گرا کر اس کے ہاتھوں میں ہتھ کڑی ڈالنے کے باوجود اس کی گردن کو اپنے گھٹنے سے مسلسل دبائے رکھا۔ اس کی وجہ سے فلوئڈ سانس گھٹنے سے موت کے منہ میں چلا گیا۔
تصویر: picture-alliance/newscom/C. Sipkin
پر امن احتجاج سے پرتشدد جھڑپیں
ہفتے کے دن تک زیادہ تر مظاہرے پر امن تھے مگر رات کے وقت کچھ جگہوں پر پرتشدد واقعات بھی پیش آئے۔ واشنگٹن میں وائٹ ہاؤس کے باہر نیشنل گارڈز تعینات کر دیے گئے۔ انڈیاناپولس میں کم از کم ایک شخص گولی لگنے سے ہلاک ہو گیا مگر پولیس کا کہنا تھا کہ اس میں اس کا کوئی کردار نہیں۔ فلاڈیلفیا میں پولیس اہلکار زخمی ہوئے جبکہ نیویارک میں پولیس کی گاڑی نے احتجاجی مظاہرین کو ٹکر دے ماری۔
تصویر: picture-alliance/ZUMA/J. Mallin
دکانوں میں لوٹ مار اور توڑ پھوڑ
لاس اینجلس میں ’بلیک لائیوز میٹر‘کے نعرے لگانے والے مظاہرین پر پولیس کی طرف سے لاٹھی چارج کیا گیا اور ان پر ربڑ کی گولیاں چلائی گئیں۔ بعض شہروں، جن میں لاس اینجلس، نیویارک، شکاگو اور مینیاپولس شامل ہیں، مظاہرے جھڑپوں میں بدل گئے۔ ساتھ ہی لوگوں نے مقامی دکانوں اور کاروباروں میں تھوڑ پھوڑ اور لوٹ مار کی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/C. Pizello
’لوٹ مار کب شروع ہوئی ۔۔۔‘
امریکی صدر نے دھمکی دی ہے کہ وہ مظاہروں کو کچلنے کے لیے فوج بھیج سکتے ہیں۔ ٹرمپ کے بقول ان کی انتظامیہ پرتشدد مظاہروں کو سختی سے روکے گی۔ ٹرمپ کے یہ الفاظ ملک بھر میں غم و غصے کا سبب بنے۔ ٹرمپ نے تشدد کی ذمہ داری انتہائی بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے گروپوں پر عائد کی۔ تاہم مینیسوٹا کے گورنر کے بقول ایسی غیر مصدقہ اطلاعات ہیں کہ سفید فاموں کی برتری پر یقین رکھنے والے لوگ تشدد کو بھڑکا رہے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/ZUMA/K. Birmingham
میڈیا بھی نشانہ
ان مظاہروں کی کوریج کرنے والے بہت سے صحافیوں کو بھی سلامتی کے ذمہ دار اداروں کے اہلکاروں نے نشانہ بنایا۔ جمعے کو سی این این کے سیاہ فام رپورٹر عمر جیمینیز اور ان کے ساتھی کو پولیس نے گرفتار کر لیا۔ کئی صحافیوں کو اس وقت نشانہ بنایا گیا یا گرفتار کیا گیا جب وہ براہ راست رپورٹنگ کر رہے تھے۔ ڈی ڈبلیو کے صحافی اسٹیفان سیمونز پر بھی اس وقت گولی چلا دی گئی جب وہ ہفتے کی شب براہ راست رپورٹ دینے والے تھے۔
تصویر: Getty Images/S. Olson
مظاہروں کا سلسلہ دنیا بھر میں پھیلتا ہوا
یہ مظاہرے پھیل کر اب دیگر ممالک تک پہنچ چکے ہیں۔ ہمسایہ ملک کینیڈا میں ہفتے کے روز ہزاروں افراد نے ٹورانٹو اور وینکوور میں سڑکوں پر مارچ کیا۔ جرمنی، برطانیہ اور نیوزی لینڈ کے علاوہ کئی یورپی ملکوں میں بھی سیاہ فاموں کے خلاف ناروا سلوک اور نسل پرستی کے خلاف مظاہرے کیے گئے ہیں۔ ان مظاہروں میں امریکی مظاہرین کے ساتھ اظہار یک جہتی بھی کیا گیا۔
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/A. Shivaani
ہیش ٹیگ جارج فلوئڈ
ہفتے کے روز جرمن دارالحکومت برلن میں واقع امریکی سفارت خانے کے سامنے ہزاروں لوگوں نے مارچ کیا۔ مظاہرین نے جارج فلوئڈ کی ہلاکت اور امریکا میں منظم انداز میں نسل پرستی پھیلائے جانے کے خلاف احتجاج کیا۔