نسل پرستی کے خلاف مظاہرے کچلنے کے لیے صدر ٹرمپ کی طرف سے فوج استعمال کرنے کی دھمکیوں پر امریکی عسکری قیادت تحفظات کا اظہار کر رہی ہے۔ امریکا میں سول ملٹری تناؤ اس ہفتے زیادہ کھل کر سامنے آ گیا ہے۔
اشتہار
صدر ٹرمپ کے موجودہ اور سابق وزرائے دفاع پہلے ہی فوج بلانے کی مخالفت کر چکے ہیں۔ جمعرات کو امریکی افواج کے سابق جوائنٹ چیف آف اسٹاف چیئرمین جنرل مارٹن ڈیمپسی بھی اس کی خلاف سامنے آ گئے۔
امریکی نیشنل پبلک ریڈیو پر بات کرتے ہوئے انہوں نے صدر ٹرمپ کی طرف سے فوجی طاقت استعمال کرنے کی دھمکیوں کو ''پریشان کُن اور خطرناک‘‘ قرار دیا۔ انہوں نے کہا، ''امریکا کوئی میدانِ جنگ نہیں اور ہمارے اپنے شہری ہمارے دشمن نہیں۔‘‘
جنرل ڈیمپسی سابق صدر باراک اوباما کے دور میں سن دو ہزار گیارہ سے پندرہ تک امریکی افواج کے سربراہ رہے۔ ان سے پہلے امریکی افواج کے سربراہ ایڈمرل مائیک ملن تھے۔ ایک بیان میں انہوں نے بھی صدر ٹرمپ کی طرف سے امریکی شہروں میں فوج بھیجنے کی دھمکیوں پر نکتہ چینی کی اور کہا کہ، ''مجھے انتہائی تشویش ہے کہ ان احکامات سے فوج کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا جائے گا۔‘‘
بدھ کو سابق امریکی وزیر دفاع جیمز میٹِس نے بھی پہلی بار کُھل کر صدر ٹرمپ پر تنقید کی۔ انہوں نے صدر ٹرمپ پر الزام عائد کیا کہ وہ فوج اور سول سوسائٹی کو ایک دوسرے سے متصادم کر کے امریکوں کو منقسم رہے ہیں۔ جیمز میٹس نے کہا، ''میں نے کبھی خواب میں بھی نہیں سوچا تھا کہ میرے ساتھ حلف اٹھانے والے فوجیوں کو کبھی یہ حکم بھی دیا جا سکتا ہے کہ وہ اپنے شہریوں کے آئینی حقوق پامال کریں۔‘‘
امریکا میں سفید فام پولیس والوں کے ہاتھوں سیاہ فام شہری جارج فلوئیڈ کی ہلاکت کے بعد ملک کے درجنوں شہروں میں پچھلے دس روز سے غم و غصے اور احتجاج کی لہر جاری ہے۔ نسلی تعصب کے خلاف بیشتر مظاہرے پرامن تھے لیکن کئی شہروں میں ہنگامے اور جلاؤ گھیراؤ کے واقعات بھی پیش آئے۔ صدر ٹرمپ نے امن و امان کے قیام کے لیے بارہا بھرپور فوجی طاقت استعمال کرنے کی دھمکیاں دی تھیں۔
وزیر دفاع مارک ایسپر نے ابتدا میں تاثر دیا کہ وہ صدر ٹرمپ کے احکامات بجا لائیں گے۔ تاہم پچھلے چند روز میں انہوں نے اپنا موقف واضح طور پر بدلا ہے اور فوج تعینات کرنے کی کھل کر مخالفت کی ہے۔ انہوں نے کہا، ''حاضر سروس فوجیوں کو صرف انتہائی مجبوری اور سنگین حالات میں طلب کیا جاتا ہے اور میرے خیال میں ابھی ہم اُس طرح کی صورتحال میں نہیں۔‘‘
اطلاعات ہیں کہ ان کے اس بیان کے بعد وائٹ ہاؤس ان سے ناراض ہے۔ صدر ٹرمپ پر کورونا کے بحران، معاشی نقصان اور اب ملک بھر میں مظاہروں کے باعث سیاسی دباؤ بڑھ رہا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ ایسے میں صدر ٹرمپ اپنی ٹیم کے کئی دیگر لوگوں کی طرح وزیر دفاع کو جلد فارغ کر سکتے ہیں۔
امریکا میں فوج ایک اہم اور طاقتور ادارہ ہے، جہاں ملک کے کمانڈر اِن چیف اور عسکری رہنماؤں کے درمیان اس طرح کے سول ملٹری اختلافات یوں کھل کر کم ہی سامنے آتے ہیں۔ مبصرین کا خیال ہے کہ صدر ٹرمپ کو یہ صورتحال نومبر کے صدارتی انتخابات میں مہنگی پڑ سکتی ہے۔
پولیس کے ہاتھوں سیاہ فاموں کے قتل پر امریکا سراپا احتجاج
امریکا میں پولیس کے ہاتھوں سیاہ فاموں کے خلاف منظم غیر منصفانہ سلوک کے خلاف مظاہروں نے پر تشدد شکل اختیار کر لی ہے۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مطابق ملکی فوج اس صورتحال کو کنٹرول کرنے کے لیے تیار ہے اور استعمال کی جا سکتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/newscom/C. Sipkin
’میرا دم گھٹ رہا ہے‘
پولیس کی طرف سے سیاہ فام باشندوں کے ساتھ گزشتہ کئی دہائیوں سے جاری مبینہ ظالمانہ طرز عمل کے خلاف تازہ مظاہروں کا آغاز پیر 25 مئی کو چھیالیس سالہ افریقی نژاد امریکی شہری جارج فلوئڈ کی ہلاکت کے بعد ہوا۔ ایک پولیس افسر نے فلوئڈ کو منہ کے بل گرا کر اس کے ہاتھوں میں ہتھ کڑی ڈالنے کے باوجود اس کی گردن کو اپنے گھٹنے سے مسلسل دبائے رکھا۔ اس کی وجہ سے فلوئڈ سانس گھٹنے سے موت کے منہ میں چلا گیا۔
تصویر: picture-alliance/newscom/C. Sipkin
پر امن احتجاج سے پرتشدد جھڑپیں
ہفتے کے دن تک زیادہ تر مظاہرے پر امن تھے مگر رات کے وقت کچھ جگہوں پر پرتشدد واقعات بھی پیش آئے۔ واشنگٹن میں وائٹ ہاؤس کے باہر نیشنل گارڈز تعینات کر دیے گئے۔ انڈیاناپولس میں کم از کم ایک شخص گولی لگنے سے ہلاک ہو گیا مگر پولیس کا کہنا تھا کہ اس میں اس کا کوئی کردار نہیں۔ فلاڈیلفیا میں پولیس اہلکار زخمی ہوئے جبکہ نیویارک میں پولیس کی گاڑی نے احتجاجی مظاہرین کو ٹکر دے ماری۔
تصویر: picture-alliance/ZUMA/J. Mallin
دکانوں میں لوٹ مار اور توڑ پھوڑ
لاس اینجلس میں ’بلیک لائیوز میٹر‘کے نعرے لگانے والے مظاہرین پر پولیس کی طرف سے لاٹھی چارج کیا گیا اور ان پر ربڑ کی گولیاں چلائی گئیں۔ بعض شہروں، جن میں لاس اینجلس، نیویارک، شکاگو اور مینیاپولس شامل ہیں، مظاہرے جھڑپوں میں بدل گئے۔ ساتھ ہی لوگوں نے مقامی دکانوں اور کاروباروں میں تھوڑ پھوڑ اور لوٹ مار کی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/C. Pizello
’لوٹ مار کب شروع ہوئی ۔۔۔‘
امریکی صدر نے دھمکی دی ہے کہ وہ مظاہروں کو کچلنے کے لیے فوج بھیج سکتے ہیں۔ ٹرمپ کے بقول ان کی انتظامیہ پرتشدد مظاہروں کو سختی سے روکے گی۔ ٹرمپ کے یہ الفاظ ملک بھر میں غم و غصے کا سبب بنے۔ ٹرمپ نے تشدد کی ذمہ داری انتہائی بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے گروپوں پر عائد کی۔ تاہم مینیسوٹا کے گورنر کے بقول ایسی غیر مصدقہ اطلاعات ہیں کہ سفید فاموں کی برتری پر یقین رکھنے والے لوگ تشدد کو بھڑکا رہے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/ZUMA/K. Birmingham
میڈیا بھی نشانہ
ان مظاہروں کی کوریج کرنے والے بہت سے صحافیوں کو بھی سلامتی کے ذمہ دار اداروں کے اہلکاروں نے نشانہ بنایا۔ جمعے کو سی این این کے سیاہ فام رپورٹر عمر جیمینیز اور ان کے ساتھی کو پولیس نے گرفتار کر لیا۔ کئی صحافیوں کو اس وقت نشانہ بنایا گیا یا گرفتار کیا گیا جب وہ براہ راست رپورٹنگ کر رہے تھے۔ ڈی ڈبلیو کے صحافی اسٹیفان سیمونز پر بھی اس وقت گولی چلا دی گئی جب وہ ہفتے کی شب براہ راست رپورٹ دینے والے تھے۔
تصویر: Getty Images/S. Olson
مظاہروں کا سلسلہ دنیا بھر میں پھیلتا ہوا
یہ مظاہرے پھیل کر اب دیگر ممالک تک پہنچ چکے ہیں۔ ہمسایہ ملک کینیڈا میں ہفتے کے روز ہزاروں افراد نے ٹورانٹو اور وینکوور میں سڑکوں پر مارچ کیا۔ جرمنی، برطانیہ اور نیوزی لینڈ کے علاوہ کئی یورپی ملکوں میں بھی سیاہ فاموں کے خلاف ناروا سلوک اور نسل پرستی کے خلاف مظاہرے کیے گئے ہیں۔ ان مظاہروں میں امریکی مظاہرین کے ساتھ اظہار یک جہتی بھی کیا گیا۔
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/A. Shivaani
ہیش ٹیگ جارج فلوئڈ
ہفتے کے روز جرمن دارالحکومت برلن میں واقع امریکی سفارت خانے کے سامنے ہزاروں لوگوں نے مارچ کیا۔ مظاہرین نے جارج فلوئڈ کی ہلاکت اور امریکا میں منظم انداز میں نسل پرستی پھیلائے جانے کے خلاف احتجاج کیا۔