امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے اپنے ایک ٹوئٹر پیغام میں پاکستان کی بابت سخت الفاظ کے استعمال کے بعد امریکی سفیر کو دفتر خارجہ طلب کر کے احتجاج کیا گیا ہے۔
اشتہار
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سال نو کے اپنے پہلے ٹوئٹر پیغام میں پاکستان کا نام لے کر کہا تھا کہ اس ملک کو اربوں ڈالر کی امریکی امداد دی جاتی رہی ہے اور اس کے بدلے ميں امریکا کو جھوٹ اور دھوکے کے سوا کچھ نہیں ملا۔ صدر ٹرمپ کی جانب سے ایک مرتبہ پھر پاکستان پر الزام عائد کیا گیا تھا کہ وہ عسکریت پسندوں کو محفوظ پناہ گاہيں فراہم کر رہا ہے۔
پاکستان میں تعینات امریکی سفیر ڈیوڈ ہیل کو اسی بیان کے تناظر میں پیر کی شب دفتر خارجہ طلب کیا گیا۔ دارالحکومت اسلام آباد میں قائم امریکی سفارت خانے نے ڈیوڈ ہیل اور پاکستانی حکام کے درمیان ملاقات کی تصدیق کی ہے، تاہم اس ملاقات میں ہونے والی گفت گو کی تفصیلات فراہم نہیں کی گئی ہیں۔ فی الحال اس ملاقات کی بابت اسلام آباد حکومت کی جانب سے بھی کوئی تبصرہ سامنے نہیں آیا ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق امريکی صدر کی طرف سے سال نو کے آغاز پر اپنے پہلے ٹوئٹر پیغام میں پاکستان کے حوالے سے اس انداز کے سخت الفاظ کا استعمال کرنا، اسلام آباد حکومت کے لیے باعث تشویش ہے۔
پاکستانی خواتین کوہ پیماؤں نے مشکل اور کٹھن چوٹی سر کر لی
پاکستان میں پہلی مرتبہ خواتین کوہ پیماؤں کی ٹیم نے گلگت بلتستان کی شمشال وادی کی ایک بلند اور مشکل چوٹی کو سر کیا ہے۔ اس ٹیم کا مقصد خواتین میں خود اعتمادی پیدا کرنا اور انہیں کٹھن کھیلوں کی طرف راغب کرنا ہے۔
تصویر: Pakistan Youth Outreach
پاکستانی خواتین کوہ پیما
خواتین کوہ پیماؤں کی اس مہم جوئی کا اعلان پاکستان یوتھ آؤٹ ریچ کی جانب سے سوشل میڈیا پرکیا گیا تھا۔ پاکستان کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والی خواتین نے اس مہم کا حصہ بننے کی خواہش ظاہر کی۔ جسمانی فٹنس کی بنیاد پر چارخواتین کو اس ٹیم کا حصہ بننے کے لیے چنا گیا۔ ماؤنٹ ایورسٹ، کے ٹو سمیت دنیا کے سات براعظموں کے سات بلند ترین پہاڑ سر کرنے والی پاکستانی کوہ پیما ثمینہ بیگ نے اس مہم جوئی کی سربراہی کی۔
تصویر: Pakistan Youth Outreach
خواتین میں خود اعتمادی پیدا کرنا
اس ٹیم میں امریکی اور ناروے کی خواتین کوہ پیما بھی شامل تھیں۔ پاکستان یوتھ آؤٹ ریچ کے مطابق ان کی شمولیت کا مقصد پاکستانی اور بین الاقوامی کوہ پیماؤں کے درمیان صلاحیتوں اور معلومات کا تبادلہ تھا۔ خواتین کی اس ٹیم نے شمشال گاؤں کی گوجریو وادی میں ایک کٹھن اور پانچ ہزار میٹر سے بلند پہاڑ’ بوئیسوم پاس‘ کو سر کیا۔
تصویر: Pakistan Youth Outreach
پانچ سے چھ گھنٹے کی مسافت
کوہ پیمائی کے پہلے دن شمشال گاؤں سے خواتین نے پانچ سے چھ گھنٹے کی مسافت طے کی۔ ٹیم نے پہلا قیام سطح سمندر سے 4100 میٹر بلند ایک مقام پر کیا۔ یہاں ایک دن قیام کے بعد اس ٹیم نے سطح سمندر سے 4700 میٹر بلند مقام تک کوہ پیمائی کی۔
تصویر: Pakistan Youth Outreach
خراب موسم اور کٹھن راستے
خراب موسم اور کٹھن راستے کی وجہ سے کچھ خواتین زخمی بھی ہوئیں اور آکسیجن کی کمی کے باعث کچھ خواتین کو سانس لینے میں دقت کا سامنا رہا۔ اس باعث یہ خواتین مزید کوپیمائی جاری نہ رکھ سکیں۔
تصویر: Pakistan Youth Outreach
منفی چالیس ڈگری سینٹی گریڈ
بالآخر ٹیم کی چار ارکان بسمہ، کومل، ڈاکٹر سیو اور ثمینہ بیگ نے سطح سمندر سے پانچ ہزار چھ سو میٹر بلند پہاڑی کو سر کر لیا۔ اس مقام پر درجہ حرارت منفی چالیس ڈگری سینٹی گریڈ تھا۔
تصویر: Pakistan Youth Outreach
پاکستانی خواتین سخت کھیل میں حصہ لے سکتی ہیں
پاکستان یوتھ آؤٹ ریچ کے مطابق خواتین کوہ پیماؤں کی اس ٹیم نے ثابت کر دیا ہے کہ پاکستان میں خواتین کوہ پیمائی جیسے سخت کھیل میں بھی مردوں کے شانہ بشانہ حصہ لے سکتی ہیں۔
تصویر: Pakistan Youth Outreach
پاکستان میں اسپورٹس معاشرتی اور اقتصادی تبدیلی لا سکتا ہے
پاکستان یوتھ آؤٹ ریچ کے شریک بانی مرزا علی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ وہ اور ان کی بہن ثمنیہ بیگ نوجوانوں، خصوصی طور پر لڑکیوں کی کھیلوں میں شمولیت کو بڑھانا چاہتے تھے اور اسی لیے ’پاکستان یوتھ آؤٹ ریچ‘ کو قائم کیا گیا ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’پاکستان میں اسپورٹس ایک معاشرتی اور اقتصادی تبدیلی لا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ لوگوں کی سوچ اور خیالات کو بھی تبدیل کرنے میں مدد دے سکتا ہے۔‘‘
تصویر: Pakistan Youth Outreach
خواتین کے لیے کم مواقع
مرزا علی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ہمارے معاشرے میں گھروں سے باہر، خصوصی طور پر کھیلوں کے لیے بنائے گٗئے میدانوں میں لڑکیوں کو بہت کم مواقع فراہم کیے جاتے ہیں۔ خواتین کوہ پیمائی کی اس مہم کے ذریعے ہم نے خواتین میں خود اعتمادی اور ان میں قائدانہ صلاحیتیں پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔
تصویر: Pakistan Youth Outreach
8 تصاویر1 | 8
ٹرمپ نے سال نو کی علی الصبح اپنے ٹوئٹر پیغام میں کہا تھا، ’’امریکا نے پچھلے 15 برسوں میں پاکستان کو 33 ارب ڈالر سے زائد کی رقم بے وقوفانہ طور پر دی اور اس کے بدلے انہوں نے ہمیں جھوٹ اور دھوکے کے سوا کچھ نہیں دیا۔ وہ سوچتے ہیں کہ ہمارے رہنما بے وقف ہیں۔‘‘
ان کا مزید کہنا تھا، ’’ہم جنہیں افغانستان میں ڈھونڈتے رہے، ان دہشت گردوں کو پاکستان محفوظ ٹھکانے دیتا رہا۔ مگر اب بس۔‘‘
اس بیان کے بعد پاکستانی وزیرخارجہ اور وزیردفاع کی جانب سے فوری ردعمل میں ایک مرتبہ پھر کہا گیا کہ ملک نے افغانستان میں امریکی عسکری مداخلت کے بعد امریکا کے لیے بہت کچھ کیا اور القاعدہ کے خاتمے میں امریکا کی مدد کی، جس کے بعد اسے فقط ’طعنے اور بداعتمادی‘ ملی۔
امریکا کی جانب سے گزشتہ کئی برسوں سے پاکستان پر الزام عائد کیا جاتا رہا ہے کہ وہ ایک طرف تو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکا کا قریبی اتحادی ہے، تاہم ساتھ ہی وہ پس پردہ افغانستان میں مقامی اور غیرملکی فورسز پر حملوں میں ملوث عسکری گروہوں کی معاونت بھی کرتا ہے۔ پاکستان ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے یہ موقف اپناتا رہا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اس کے ہزاروں شہری مارے گئے اور اس کی معیشت کو اربوں ڈالر کا نقصان ہوا۔
’پاکستانی فوج کے سربراہ کا دورہ کابل بہت مثبت قدم تھا‘ معید یوسف
03:15
امریکا میں گیارہ ستمبر کے حملوں کے بعد امریکا نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کے آغاز پر پاکستان کے ساتھ اسٹریٹیجک اتحاد قائم کيا تھا۔ تاہم امریکی حکام بارہا کہتے آئے ہیں کہ افغانستان میں خون ریز حملوں میں ملوث حقانی نیٹ ورک اور پاکستانی فوج کے درمیان رابطے قائم ہیں۔ حقانی نیٹ ورک کے سربراہ سراج الدین حقانی افغان طالبان کے نائب سربراہ بھی ہیں۔