امریکی سینیٹ نے سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مواخذے کے حق میں ووٹ دے دیا ہے۔ ٹرمپ پر الزام ہے کہ انہوں نے اپنے حامیوں کو کیپیٹل ہل پر حملے کے لیے اکسایا تھا۔ یہ حملہ چھ جنوری کو کیا گیا تھا۔
اشتہار
سو رکنی امریکی سینیٹ کے چھپن اراکین نے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مواخذے کے حق میں ووٹ دیا۔ ان سینیٹرز کا کہنا تھا کہ ٹرمپ کی طرف سے اپنے حامیوں کوتشدد کے لیے اکسانے پر ان کے احتساب کا عمل آئینی ہے اور اسے پایہ تکمیل تک پہنچانا چاہیے۔ اس تاریخی فیصلے کے بعد سینیٹ کی کارروائی بدھ تک معطل کر دی گئی۔
امریکی سینیٹرز ووٹنگ کیسے کرتے ہیں؟
عمومی طور پر ہر سینیٹر اپنی پارٹی کو ووٹ دیتا ہے۔ تاہم اس ووٹنگ میں چھ ری پبلکن سینیٹرز نے اپنی پارٹی کے خلاف ووٹ دیا۔ لویزیانا کے ری پبلکن سینیٹر بل کاسیڈی آخری وقت میں اپنی پارٹی سے دوری اختیار کرتے ہوئے ڈیموکریٹس کے ساتھ مل گئے۔ ان کی طرف سے ٹرمپ کے مواخذے کے حق میں جانا ایک اہم پش رفت قرار دی جا رہی ہے۔
تاہم سینیٹ کے سابق اکثریتی رہنما مچ مک کونل نے اس تحریک کے خلاف ووٹ دیا۔ کینٹکی کے ری پبلکن سینیٹر نے سابق صدر ٹرمپ کے مواخذے کی قرار داد ان کے سبکدوش ہونے تک معطل کرنے کی درخواست کی تھی۔
اگرچہ ری پبلکن پارٹی کی چھ سینیٹرز نے پارٹی کے خلاف ووٹ دیا ہے تاہم ڈیموکریٹس کو ٹرمپ کے مواخذے کے عمل کو یقینی بنانے کے لیے گیارہ مزید ری پبلکن ممبران کو توڑنا ہو گا۔
امریکی جمہوری تاریخ کا بدنما داغ، دنیا حیران
گزشتہ روز واشنگٹن میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے سینکڑوں حامیوں نے ملکی کانگریس کی کیپیٹل ہل کہلانے والی عمارت پر دھاوا بول دیا تھا۔ یہ مشتعل افراد اس وقت اس عمارت میں گھس گئے تھے، جب وہاں کانگریس کا اجلاس جاری تھا۔
تصویر: Leah Millis/REUTERS
پولیس کے مطابق پارلیمانی عمارت میں بدامنی کے دوران چار افراد مارے گئے۔ ان میں سے ایک شخص گولی لگنے سے ہلاک ہوا۔ باقی تین افراد کی موت کی وجہ میڈیکل ایمرجنسی بتائی گئی ہے۔
تصویر: Win McNamee/Getty Images
اس سے قبل ڈونلڈ ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس کے قریب نکالے جانی والی ایک ریلی کے شرکاء سے کیپیٹل ہل کی جانب مارچ کرنے کا کہا تھا اور یہ بھی کہا تھا کہ ایک موقع پر وہ بھی کیپیٹل ہل میں ان کے ساتھ شریک ہو جائیں گے۔ اس موقع پر ان کے الفاظ اور انداز انتہائی اشتعال انگیز تھا۔
تصویر: Roberto Schmidt/AFP/Getty Images
بعدازاں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کیپیٹل ہل پر دھاوا بولنے والے اپنے حامیوں سے گھر واپس چلے جانے کے لیے کہا۔ ٹرمپ نے ان افراد کو پر امن رہنے کی تلقین کرتے ہوئے ہنگامہ آرائی کے باوجود ان کے اس مشن کی پذیرائی بھی کی۔ یہ افراد ٹرمپ کی صدارتی انتخابات میں شکست پر احتجاج کر رہے تھے۔
تصویر: J. Scott Applewhite/AP Photo/picture alliance
نو منتخب امریکی صدر جو بائیڈن نے امریکی پارلیمان کی عمارت کیپیٹل ہل پر دھاوے پر تنقید کرتے ہوئے کہا، ’’یہ حملہ اس مقدس امریکی عمارت پر ہے، جو عوام کے لیے کام کرتی ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ یہ احتجاج نہیں بلکہ بغاوت ہے۔
تصویر: Manuel Balce Ceneta/AP Photo/picture alliance
اس بدامنی میں ملوث باون افراد کو گرفتار بھی کر لیا گیا۔ اب اس عمارت کو مظاہرین سے خالی کروا لیا گیا ہے۔ امریکی جمہوری تاریخ میں ایسا کوئی واقع پہلی مرتبہ پیش آیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اسے امریکی تاریخ کا ’برا ترین دن‘ قرار دیا جا رہا ہے۔
تصویر: Win McNamee/Getty Images
سابق صدر باراک اوباما نے اس پرتشدد واقعے کی ذمہ داری صدر ٹرمپ پر عائد کرتے ہوئے کہا، ’’یہ ہماری قوم کے لیے بے عزتی اور بے شرمی کا لمحہ ہے۔‘‘
تصویر: Win McNamee/Getty Images
امریکا میں عنقریب اپنے عہدے سے رخصت ہونے والے ریپبلکن صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے سینکڑوں حامیوں کی طرف سے کیپیٹل ہل میں بدامنی کے واقعے کی بین الاقوامی سطح پر مذمت کرتے ہوئے اس پر افسوس کا اظہار کیا گیا ہے۔
تصویر: Andrew Harnik/AP Photo/picture alliance
جرمن وزیر خارجہ ہائیکو ماس نے کہا کہ ٹرمپ اور ان کے حامیوں کو ’جمہوریت کو پاؤں تلے کچلنے‘ کا عمل بند کر دینا چاہیے۔
تصویر: Saul Loeb/AFP/Getty Images
برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن نے امریکی کانگریس کی عمارت میں پیش آنے والے واقعات کو شرمناک قرار دیتے ہوئے ان کی مذمت کی۔
تصویر: Win McNamee/Getty Images
اسی طرح یورپی یونین کے خارجہ امور کے نگران اعلیٰ ترین عہدیدار یوزیپ بورَیل نے کہا کہ امریکا ایسے واقعات جیسا تو نہیں ہے۔
تصویر: Andrew Caballero-Reynolds/AFP/Getty Images
آسٹرین چانسلر سباستیان کُرس نے بھی کیپیٹل ہل پر دھاوا بولے جانے پر صدمے کا اظہار کرتے ہوئے اس بدامنی کی مذمت کی۔
تصویر: Leah Millis/REUTERS
اس واقعے کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ نے بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ معمول کے مطابق اقتدار نو منتخب صدر جو بائیڈن کے حوالے کر دیں گے۔ تاہم انہوں نے ابھی تک گزشتہ روز کے واقعے کی مذمت نہیں کی۔
تصویر: Spencer Platt/Getty Images
12 تصاویر1 | 12
ٹرمپ کے خلاف اور حق میں دلائل کیا ہیں؟
سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو صرف ایک الزام کا سامنا ہے۔ چھ جنوری کو کیپیٹل ہل پر ہوئے حملےکے لیے انہیں مورد الزام ٹھہرایا جا رہا ہے۔ الزام ہے کہ انہوں نے اپنے حامیوں کو اکسایا کہ وہ یہ پرتشدد کارروائی سر انجام دیں۔
آئینی ماہرین کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کے سبکدوش ہونے کے بعد بھی ان کا مواخذہ کیا جا سکتا ہے۔ تاہم ری پبلکن پارٹی کا کہنا ہے کہ بطور صدر ٹرمپ کا مواخذہ نہیں کیا جا سکتا ہے کیونکہ اب وہ دفتر میں نہیں رہے۔
سینیٹ کی کارروائی میں کیا ہوا؟
ڈونلڈ ٹرمپ کے مواخذے کی تحریک کی سربراہی کرنے والے ڈیموکریٹ سینیٹر جمی راسکن نے کہا کہ ٹھوس شواہد موجود ہیں کہ ٹرمپ نے اپنے حامیوں کو تشدد پر اکسایا۔ انہوں نے کہا کہ ٹرمپ کو استثنا نہیں دیا جا سکتا۔
ڈونلڈ ٹرمپ کے اٹارنی بروس کاسٹر نے دلیل دی کہ اب اس مواخذے کی کوئی اہمیت نہیں رہی کیونکہ حالیہ صدارتی الیکشن میں 'امریکی ووٹرز‘ نے ٹرمپ کو مسترد کر دیا ہے، جس سے آئینی مقصد ہو گیا ہے۔
اٹارنی ڈیوڈ شوین نے اس تناظر میں کہا کہ مواخذے کا یہ 'نام نہاد عمل‘ امریکا کو تقسیم کر دے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ڈیموکریٹس 'متعصبابہ سیاسی عمل‘ اور 'نفرت و خوف‘ کی وجہ سے یہ کارروائی کرنا چاہتے ہیں۔
نتیجہ کیا ہو سکتا ہے؟
زیادہ تر ری پبلکن سینیٹرز یہ کہہ چکے ہیں کہ وہ ٹرمپ کے خلاف ووٹ نہیں دیں گے۔ اس کا مطلب ہے کہ سینیٹ میں دو تہائی اکثریت نہ مل سکنے کے باعث یہ تحریک ناکامی سے دوچار ہو جائے گی۔
ٹرمپ کے خلاف مواخذے کے عمل کو یقینی بنانے کی خاطر سترہ ری پبلکن سینیٹرز کو پچاس ڈیموکریٹس کے ساتھ ملنا ہو گا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کے خلاف مواخذے کی دوسری کوشش، پہلی کوشش کے مقابلے میں مختصر ہو گی۔ ٹرمپ کے مواخذے کی پہلی کوششتین ہفتے تک جاری رہنے کے بعد ناکامی سے دوچار ہو گئی تھی۔
ع ب / ک م / خبر رساں ادارے
امریکی صدر کتنا طاقت ور ہوتا ہے؟
اوول آفس کا سربراہ جو بھی ہو، کہتے ہیں کہ دنیا کی سیاست اس کے ہاتھوں میں ہوتی ہے۔ تاہم اصل میں امریکی صدر کے اختیارات محدود ہوتے ہیں۔ دیگر سرکاری محکمے بھی اس کے فیصلوں پر اثر انداز ہوتے ہیں۔
تصویر: Klaus Aßmann
آئین کہتا ہے کہ
صدارتی مدت چار سال ہے اور کوئی بھی صرف دو مدت کے لیے ہی سربراہ مملکت کے منصب پر فائز رہ سکتا ہے۔ امریکی صدر ملک اور حکومت کا سربراہ ہوتا ہے۔ وفاقی انتظامیہ میں اس کے ماتحت لگ بھگ چالیس لاکھ ملازمین ہوتے ہیں، جن میں فوجی اہلکار بھی شامل ہیں۔ کانگریس کی جانب سے منظور کردہ قوانین کا نفاذ صدر کی ذمہ داری ہے۔ اعلی سفارت کار کی حیثیت سے صدر سفیروں کا استقبال کرتا ہے اور ریاستوں کو تسلیم کرتا ہے۔
تصویر: Klaus Aßmann
چیک اور بیلنس
حکومت کی تین شاخیں ایگزیکیٹو( انتظامیہ)، عدلیہ اور مقننہ بھی فیصلہ سازی میں شامل ہوتے ہیں اور یہ تینوں ایک دوسرے کے اختیارات کو بھی حد میں رکھتے ہیں۔ صدر شہریوں کو معاف کر سکتا ہے اور ججوں کو نامزد کر سکتا ہے لیکن ان فیصلوں کی تصدیق صرف سینیٹ کی منظوری سے ہی ہوتی ہے۔ اسی طرح کابینہ اور سفیروں کی نامزدگی کے لیے صدر کو سینیٹ پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔
تصویر: Klaus Aßmann
سٹیٹ آف دی یونین
صدر کو کانگریس کو آگاہ کرنا ہوتا ہے کہ ملکی نظم و نسق کس طرح سے چل رہا ہے۔ ایسا وہ اپنے سٹیٹ آف دی یونین سالانہ خطاب کے ذریعے کرتا ہے۔ اگرچہ صدر کو قانون سازی کی کوئی قرارداد پیش کرنے کا اختیار نہیں تاہم وہ دیگر موضوعات اور اپنے ارادوں پر بات کر سکتا ہے۔ یہ کانگریس پر عوامی دباؤ برقرار رکھنے کا ایک حربہ ہے۔
تصویر: Klaus Aßmann
’نہیں‘ آسانی سے نہیں کہہ سکتا
امریکی صدر دستخط کے بغیر کسی بھی بل کو ویٹو کرتے ہوئے کانگریس کو واپس بھیج سکتا ہے۔ تاہم کانگریس کے دونوں ایوان اپنی دو تہائی اکثریت کے ساتھ اس صدر کے ان خصوصی اختیارات کو ختم بھی کر سکتے ہیں۔ سینیٹ کے مطابق اب تک صدر کی جانب سے تقریباﹰ پندرہ سو مرتبہ ویٹو کا استعمال کیا گیا، جن میں سے صرف ایک سو گیارہ کو کامیابی کے ساتھ منسوخ کیا گیا، جو صرف سات فیصد کے قریب بنتا ہے۔
تصویر: Klaus Aßmann
غیر واضح اختیارات
نا تو آئین اور نہ ہی عدالت عالیہ صدر کو حاصل اختیارات کو پوری طرح سے بیان کرتے ہیں۔ صدر کے پاس ایک اور طاقت بھی ہوتی ہے، جسے ’پاکٹ ویٹو‘ کہا جاتا ہے۔ ’پاکٹ ویٹو‘ صدر کو مخصوص حالات میں کسی بھی قانون سازی کو کالعدم قرار دینے کا اختیار دیتا ہے۔ اس ویٹو کے خلاف کانگریس بے بس ہوتی ہے۔ یہ اختیار مختلف صدور ایک ہزار سے زائد مرتبہ استعمال کر چکے ہیں۔
تصویر: Klaus Aßmann
احکامات جو قانون کی طرح لاگو ہوتے ہیں
صدر سرکاری ملازمین کو فرائض مخصوص طریقے سے انجام دینے اورخاص انداز میں ختم کرنے کے احکامات دے سکتا ہے۔ ان ایگزیکیٹو آرڈرز کو قانون ہی کی طرح سمجھا جاتا ہے۔ اس کے لیے صدر کو کسی منظوری کی ضرورت نہیں پڑتی۔ مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ صدر جو چاہے وہ کر سکتا ہے۔ عدالت ان احکامات کو منسوخ کر سکتی ہے یا کانگریس بھی ان کے خلاف قانون سازی کر سکتی ہے۔ اگلا صدر آسانی سے انہیں کالعدم قرار دے سکتا ہے۔
تصویر: Klaus Aßmann
کانگریس کا کھیل
صدر دیگر ممالک کے ساتھ معاہدوں پر بات چیت کر سکتا ہے مگرسینیٹ کی دو تہائی اکثریت ہی انہیں منظور کر سکتی ہے۔ صدر اسے اگر ’’ایگزیکیٹو معاہدہ‘‘ قرار دے دے تو اسے کانگریس کی اجازت کی ضرورت نہیں ہو گی۔ اس کی حیثیت اس وقت تک قانونی ہوتی ہے، جب تک کانگریس اس پر اعتراض نہ اٹھائے یا اس کے خلاف کوئی قانون پاس کرے۔
تصویر: Klaus Aßmann
فوجیوں کا انخلاء
صدر امریکی افواج کا کمانڈر ان چیف بھی ہوتا ہے، مگر اعلان جنگ کا اختیار کانگریس کو ہوتا ہے۔ صدر کانگریس کی اجازت کے بغیر افواج کو کسی جنگ میں بھیج سکتا ہے لیکن اس طرح معاملہ پیچیدہ ہوجاتا ہے۔
تصویر: Klaus Aßmann
حتمی کنڑول
اگر صدر اختیارات کا غلط استعمال کرتا ہے یا کسی جرم کا مرتکب ہوتا ہے تو ایوان نمائندگان اس کے خلاف مواخذے کی کارروائی شروع کر سکتا ہے۔ امریکی تاریخ میں ابھی تک ایسا تین مرتبہ ہوچکا ہے مگر آخر میں کسی کومورد الزام نہیں ٹھہرایا گیا۔ یہ کانگریس کا ایک خفیہ ہتھیار بھی ہے کیونکہ بجٹ کی منظوری کانگریس کرتی ہے اور اس کا اثر براہ راست شہریوں کی جیبوں پر پڑ سکتا ہے۔ شہری ایسی صورتحال پر خوش نہیں ہوتے۔