ٹرمپ کے دستخطوں کے بعد روس پر امریکی پابندیاں قانون بن گئیں
2 اگست 2017واشنگٹن میں وائٹ ہاؤس کے ذرائع نے بتایا کہ روس کے خلاف امریکی کانگریس نے یہ پابندیاں گزشتہ امریکی صدارتی انتخابات میں ماسکو کی طرف سے مبینہ مداخلت کے باعث لگائی تھیں۔ اس بل پر دستخطوں کے ساتھ صدر ٹرمپ نے یہ اشارہ بھی دے دیا ہے کہ وہ روس کے بارے میں کوئی نرم گوشہ نہیں رکھتے۔
نیوز ایجنسی روئٹرز کی رپورٹوں کے مطابق وائٹ ہاؤس کے ایک اہلکار نے تصدیق کر دی کہ امریکی صدر نے اس مسودہ قانون پر دستخط کر دیے ہیں۔ اسی طرح وائٹ ہاؤس ہی کے ایک مشیر کون وے نے بھی نشریاتی ادارے فوکس نیوز کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا کہ امریکی صدر نے اس بل پر دستخط کر دیے ہیں، جس کے بعد یہ مسودہ ایک قانون بن گیا ہے۔
دوسری طرف خود صدر ٹرمپ نے بدھ ہی کے روز جاری کردہ اپنے ایک بیان میں کہا کہ انہوں نے کانگریس کی روس پر پابندیوں سے متعلق منظور کردہ قانون سازی پر صدارتی دستخط تو کر دیے ہیں لیکن اس قانون میں ‘کافی خامیاں‘ بھی پائی جاتی ہیں۔
عدم استحکام کے شکار وائٹ ہاؤس ميں نئے چيف آف اسٹاف مقرر
روس سے امریکی سفارت کاروں کی بیدخلی افسوس ناک ہے، امریکا
روس پر نئی پابندیاں، امریکی سینیٹ میں بل منظور
ڈونلڈ ٹرمپ نے ساتھ ہی امریکی کانگریس سے یہ مطالبہ بھی کیا کہ وہ روس سے متعلق اس نئے قانون کو ان امریکی کوششوں کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے کے لیے استعمال نہ کرے، جو واشنگٹن حکومت اپنے یورپی ساتھی ممالک کے ساتھ مل کر یوکرائن کے تنازعے کے حل کے لیے کر رہی ہے۔ یوکرائن کے تنازعے میں دوسرا فریق روس ہی ہے۔
صدر ٹرمپ نے اپنے اس بیان میں کہا، ’’میں واضح طور پران سخت اقدامات کی حمایت کرتا ہوں، جو ایران، شمالی کوریا اور روس کے عدم استحکام کا باعث بننے والے رویوں کے جواب میں انہیں روکنے کے لیے کیے جا رہے ہیں۔‘‘
لیکن ساتھ ہی ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ بھی کہا، ’’روس پر پابندیاں عائد کرنے سے متعلق کانگریس نے اس مسودے کو منظور کرنے میں جو جلد بازی کی ہے، اس کی وجہ سے اس بل کی کئی شقیں ایسی بھی ہیں، جو واضح طور پر غیر آئینی ہیں۔‘‘
ریپبلکن جماعت نے ہی ٹرمپ کے ہاتھ باندھ دیے
کسی کو بھی معافی دینے کا اختیار ہے، ٹرمپ
ٹرمپ دور میں امریکا کے ساتھ روسی تعاون بہتر ہو سکتا ہے، پوٹن
امریکی کانگریس نے روس پر پابندیاں عائد کرنے سے متعلق اس بل کی منظوری گزشتہ ہفتے دی تھی اور یہ قانون صدر ٹرمپ کی اس خواہش کے برعکس ہے، جس کے تحت وہ واشنگٹن کے ماسکو کے ساتھ تعلقات کے مزید خراب ہو جانے کے بجائے ان میں بہتری چاہتے ہیں۔