’ٹرمپ کے دور صدارت نے دنیا کو غیر محفوظ بنادیا‘ سابق مشیر
2 اگست 2020
امریکا میں قومی سلامتی کے سابق مشیر جان بولٹن نے کہا ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کوئی سیاسی نظریہ نہیں نہ کوئی سوچ ہے۔
اشتہار
اتوار کو جرمن اخبار 'ویلٹ ام زونٹاگ‘ کو دیے گئے انٹرویو میں جان بولٹن نے کہا کہ ٹرمپ 'نہ کسی سیاسی فلسفے اور نہ اسٹریٹیجک سوچ‘ کی پیروی کرتے ہیں اور 'اسی وجہ سے دنیا صدر ٹرمپ کے اقتدار میں آنے کے بعد کم محفوظ‘ ہو گئی ہے۔
سابق مشیر نے جرمنی میں تعینات امریکی فوجی واپس بلانے کے صدر ٹرمپ کے فیصلے کو ایک 'بری علامت‘ قرار دیتے ہوئے شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔
انہوں نے کہا، ''کسی بھی جگہ سے، جہاں ہمارا ہولڈ ہے، فوجی واپس بلا لینا نہ تو ہمارے ملک اور نہ ہی مغرب کی مجموعی سلامتی کے لیے فائدہ مند ہے۔‘‘
جان بولٹن قریب ڈیڑھ برس تک امریکی صدر کے قومی سلامتی سے متعلق مشیر رہے۔ تاہم ستمبر سن 2019 میں صدر ٹرمپ کے ساتھ اختلافات کے بعد وہ اپنے عہدے سے علیحدہ ہوگئے۔
جان بولٹن نے 'ایک کمرہ جہاں یہ سب ہوا‘ کے عنوان سے ایک کتاب لکھی جس میں انہوں نے صدر ٹرمپ پر الزام لگایا ہے کہ وہ امریکا کی قومی سلامتی اور بہتری کی بجائے اپنے ذاتی سیاسی مفادات کو ترجیح دیتے ہیں۔
وائٹ ہاؤس نے جان بولٹن کی کتاب کی اشاعت روکنے کی کوشش کی تھی۔ صدر ٹرمپ بارہا اپنے مخصوص انداز میں جان بولٹن پر شدید تنقید کرتے آئے ہیں اور یہ تک کہا کہ بولٹن کو جیل میں ہونا چاہیے۔
سابق امریکی مشیر نے صدر ٹرمپ کے دوبارہ انتخاب کی شدید مخالفت کرتے ہوئے کہا، ''میں زندگی میں پہلی مرتبہ آئندہ انتخابات میں کسی ریپبلیکن امیدوار کو ووٹ نہیں دوں گا۔‘‘
جینیفر کامینو گونزالس (ش ح / ش ج)
پولیس کے ہاتھوں سیاہ فاموں کے قتل پر امریکا سراپا احتجاج
امریکا میں پولیس کے ہاتھوں سیاہ فاموں کے خلاف منظم غیر منصفانہ سلوک کے خلاف مظاہروں نے پر تشدد شکل اختیار کر لی ہے۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مطابق ملکی فوج اس صورتحال کو کنٹرول کرنے کے لیے تیار ہے اور استعمال کی جا سکتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/newscom/C. Sipkin
’میرا دم گھٹ رہا ہے‘
پولیس کی طرف سے سیاہ فام باشندوں کے ساتھ گزشتہ کئی دہائیوں سے جاری مبینہ ظالمانہ طرز عمل کے خلاف تازہ مظاہروں کا آغاز پیر 25 مئی کو چھیالیس سالہ افریقی نژاد امریکی شہری جارج فلوئڈ کی ہلاکت کے بعد ہوا۔ ایک پولیس افسر نے فلوئڈ کو منہ کے بل گرا کر اس کے ہاتھوں میں ہتھ کڑی ڈالنے کے باوجود اس کی گردن کو اپنے گھٹنے سے مسلسل دبائے رکھا۔ اس کی وجہ سے فلوئڈ سانس گھٹنے سے موت کے منہ میں چلا گیا۔
تصویر: picture-alliance/newscom/C. Sipkin
پر امن احتجاج سے پرتشدد جھڑپیں
ہفتے کے دن تک زیادہ تر مظاہرے پر امن تھے مگر رات کے وقت کچھ جگہوں پر پرتشدد واقعات بھی پیش آئے۔ واشنگٹن میں وائٹ ہاؤس کے باہر نیشنل گارڈز تعینات کر دیے گئے۔ انڈیاناپولس میں کم از کم ایک شخص گولی لگنے سے ہلاک ہو گیا مگر پولیس کا کہنا تھا کہ اس میں اس کا کوئی کردار نہیں۔ فلاڈیلفیا میں پولیس اہلکار زخمی ہوئے جبکہ نیویارک میں پولیس کی گاڑی نے احتجاجی مظاہرین کو ٹکر دے ماری۔
تصویر: picture-alliance/ZUMA/J. Mallin
دکانوں میں لوٹ مار اور توڑ پھوڑ
لاس اینجلس میں ’بلیک لائیوز میٹر‘کے نعرے لگانے والے مظاہرین پر پولیس کی طرف سے لاٹھی چارج کیا گیا اور ان پر ربڑ کی گولیاں چلائی گئیں۔ بعض شہروں، جن میں لاس اینجلس، نیویارک، شکاگو اور مینیاپولس شامل ہیں، مظاہرے جھڑپوں میں بدل گئے۔ ساتھ ہی لوگوں نے مقامی دکانوں اور کاروباروں میں تھوڑ پھوڑ اور لوٹ مار کی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/C. Pizello
’لوٹ مار کب شروع ہوئی ۔۔۔‘
امریکی صدر نے دھمکی دی ہے کہ وہ مظاہروں کو کچلنے کے لیے فوج بھیج سکتے ہیں۔ ٹرمپ کے بقول ان کی انتظامیہ پرتشدد مظاہروں کو سختی سے روکے گی۔ ٹرمپ کے یہ الفاظ ملک بھر میں غم و غصے کا سبب بنے۔ ٹرمپ نے تشدد کی ذمہ داری انتہائی بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے گروپوں پر عائد کی۔ تاہم مینیسوٹا کے گورنر کے بقول ایسی غیر مصدقہ اطلاعات ہیں کہ سفید فاموں کی برتری پر یقین رکھنے والے لوگ تشدد کو بھڑکا رہے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/ZUMA/K. Birmingham
میڈیا بھی نشانہ
ان مظاہروں کی کوریج کرنے والے بہت سے صحافیوں کو بھی سلامتی کے ذمہ دار اداروں کے اہلکاروں نے نشانہ بنایا۔ جمعے کو سی این این کے سیاہ فام رپورٹر عمر جیمینیز اور ان کے ساتھی کو پولیس نے گرفتار کر لیا۔ کئی صحافیوں کو اس وقت نشانہ بنایا گیا یا گرفتار کیا گیا جب وہ براہ راست رپورٹنگ کر رہے تھے۔ ڈی ڈبلیو کے صحافی اسٹیفان سیمونز پر بھی اس وقت گولی چلا دی گئی جب وہ ہفتے کی شب براہ راست رپورٹ دینے والے تھے۔
تصویر: Getty Images/S. Olson
مظاہروں کا سلسلہ دنیا بھر میں پھیلتا ہوا
یہ مظاہرے پھیل کر اب دیگر ممالک تک پہنچ چکے ہیں۔ ہمسایہ ملک کینیڈا میں ہفتے کے روز ہزاروں افراد نے ٹورانٹو اور وینکوور میں سڑکوں پر مارچ کیا۔ جرمنی، برطانیہ اور نیوزی لینڈ کے علاوہ کئی یورپی ملکوں میں بھی سیاہ فاموں کے خلاف ناروا سلوک اور نسل پرستی کے خلاف مظاہرے کیے گئے ہیں۔ ان مظاہروں میں امریکی مظاہرین کے ساتھ اظہار یک جہتی بھی کیا گیا۔
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/A. Shivaani
ہیش ٹیگ جارج فلوئڈ
ہفتے کے روز جرمن دارالحکومت برلن میں واقع امریکی سفارت خانے کے سامنے ہزاروں لوگوں نے مارچ کیا۔ مظاہرین نے جارج فلوئڈ کی ہلاکت اور امریکا میں منظم انداز میں نسل پرستی پھیلائے جانے کے خلاف احتجاج کیا۔