1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ٹرمپ کے دور میں امریکہ سے تعلقات مزید گہرے ہوں گے، پاکستان

24 جنوری 2025

اسلام آباد کا کہنا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ کے دور میں امریکہ کے ساتھ پاکستان کے تعلقات مزید گہرے ہونے کی توقع ہے۔ دفتر خارجہ کے مطابق امریکہ نے آئندہ ستمبر تک تمام افغان باشندوں کو اپنے یہاں دوبارہ آباد کرنے کا وعدہ کیا تھا۔

پاکستانی دفتر خارجہ کا دفتر
پاکستانی دفتر خارجہ نے دونوں ملکوں کے تعلقات کی کثیر جہتی نوعیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ تعلقات،متعدد شعبوں کا احاطہ کرتے ہیں اور ہم اپنے تعلقات کی مثبت رفتار کو جاری رکھنے اور نئی انتظامیہ کے ساتھ منسلک رہنے کے منتظر ہیںتصویر: Anjum Naveed/AP/picture alliance

جمعرات کے روز پاکستانی دفتر خارجہ نے اس امید کا اظہار کیا کہ ٹرمپ انتظامیہ کی نئی حکومت کے دوران امریکہ کے ساتھ پاکستان کے تعلقات مزید گہرے ہوں گے۔ تاہم ترجمان نے اس بات پر بھی زور دیا کیا کہ اندرونی معاملات میں عدم مداخلت ہی دو طرفہ تعلقات کی ایک اہم بنیاد ہے۔

دفتر خارجہ کے ترجمان شفقت علی خان نے ہفتہ وار بریفنگ کے دوران کہا، ’’پاکستان امریکہ تعلقات ہمارے لیے بہت اہم ہیں۔ یہ دہائیوں پرانی، مضبوط میراث پر مبنی ہیں، جس پر ہم انہیں تعمیر کر سکتے ہیں اور ہم ان تعلقات کو آگے بڑھانے کے لیے نئی انتظامیہ کے ساتھ مل کر کام کرنے کے لیے تیار ہیں۔‘‘

جنوبی ایشیا سے متعلق ٹرمپ انتظامیہ کا نقطہ نظر قدر مختلف ہے، جس میں بھارت اور چین کے تئیں امریکی پالیسیوں کو ترجیح حاصل ہو گی، اس لیے بہت سے ماہرین متنبہ کر رہے ہیں کہ اس صورتحال میں اسلام آباد اور واشنگٹن کے تعلقات کے سرد مہری کا شکار ہونے کا امکان ہے۔

پاکستان کبھی بھی امریکہ کا ٹیکٹیکل اتحادی نہیں رہا، وائٹ ہاؤس

واضح رہے کہ سی پیک جیسے منصوبوں کے تحت چین کے ساتھ پاکستان کا تعاون اور بھارت کے ساتھ اس کے کشیدہ تعلقات کو واشنگٹن میں اکثر تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔

پاکستانی دفتر خارجہ نے اس پر مزید کیا کہا؟

تعلقات کی کثیر جہتی نوعیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے دفتر خارجہ کے ترجمان شفقت علی خان نے کہا کہ یہ تعلقات،’’متعدد شعبوں کا احاطہ کرتے ہیں اور ہم اپنے تعلقات کی مثبت رفتار کو جاری رکھنے اور نئی انتظامیہ کے ساتھ منسلک رہنے کے منتظر ہیں۔‘‘

مضبوط امریکی تعلقات کے لیے پاکستان کی مسلسل وابستگی پر زور دیتے ہوئے شفت خان نے اندرونی معاملات میں عدم مداخلت کے اصول کو برقرار رکھنے پر زور دیا۔ ان کا کہنا تھا،’’یہ ان اصولوں کا جزو ہے، جن پر بین ریاستی تعلقات کی تشکیل ہوتی ہے۔‘‘

ٹرمپ انتظامیہ کے خصوصی ایلچی برائے خصوصی مشن رچرڈ گرینل نے بھی عمران خان کے ساتھ ہونے والے سلوک پر کھل کر تنقید کی اور ان کی رہائی پر زور دیا ہےتصویر: Reuters/J. Ernst

نئی امریکی انتظامیہ اور پاکستان

واضح رہے کہ پاکستان کی اندرونی سیاست اور اس حوالے سے پائے جانے والے خدشات بھی معاملات کو پیچیدہ بناتے ہیں۔ گذشتہ برس امریکی کانگریس میں پاکستان میں جمہوریت اور انسانی حقوق جیسے امور پر سوالات اٹھائے گئے تھے۔

اس حوالے سے درجنوں ارکان کانگریس نے اس وقت کے صدر جو بائیڈن سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ سابق وزیر اعظم عمران خان سمیت سیاسی قیدیوں کی رہائی کی وکالت کریں۔

اب امریکہ اور برطانیہ نے بھی پاکستان میں فوجی عدالتوں پر سوال اٹھایا

اس دوران اسلام آباد کے خدشات میں مزید اضافہ کرتے ہوئے ٹرمپ انتظامیہ کے خصوصی ایلچی برائے خصوصی مشن رچرڈ گرینل نے بھی عمران خان کے ساتھ ہونے والے سلوک پر کھل کر تنقید کی اور ان کی رہائی پر زور دیا ہے۔

دوسری طرف عمران خان کی جماعت پی ٹی آئی نے بھی امریکی حکومت کے ارکان کے ساتھ لابنگ شروع کر دی ہے اور اسی تناظر میں امریکی انتظامیہ کے ممکنہ تنقیدی موقف پر اسلام آباد میں خدشات اور اندیشے پائے جاتے ہیں۔ 

اسلام آباد میں دفتر خارجہ کے ترجمان کی جانب سے عدم مداخلت پر زور انہیں خدشات کا مقابلہ کرنے اور خود مختاری کے حوالے سے اپنی پوزیشن کو مضبوط کرنے کی ایک کوشش ہے۔

طویل فاصلے والے پاکستانی میزائل امریکہ تک مار کر سکتے ہیں، وائٹ ہاؤس

ان تمام اندیشوں کے باوجود پاکستان امریکہ کے ساتھ اپنے تعلقات کو اہم سمجھتا ہے۔ اسی لیے شہباز شریف کی حکومت نے ٹرمپ انتظامیہ کے ساتھ بات چیت کو آگے بڑھانے کے لیے ابتدائی کوشش کے طور پر خاموشی سے وزیر داخلہ محسن نقوی کو ٹرمپ انتظامیہ کی ٹیم اور ارکان کانگریس سے ملاقات کے لیے بطور خصوصی ایلچی امریکہ روانہ کیا۔

محسن نقوی کے دورہ امریکہ اور صدر ٹرمپ کی افتتاحی تقریب میں ان کی شرکت کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال پر دفتر خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ ’’ہمارے سفیر نے حکومت پاکستان کی نمائندگی کی، جیسا کہ ماضی کی حلف برداری کی تقریبات میں بھی ہوا کرتا تھا۔‘‘

حکومت پاکستان کے مطابق تقریباً 25,000 افغان، جو امریکی فوج اور ان کے ٹھیکیداروں کے لیے کام کرتے تھے، اب بھی پاکستان میں پھنسے پڑے ہیںتصویر: picture alliance/dpa

افغانوں کو دوبارہ آباد کرنے کا واشنگٹن کا وعدہ

دفتر خارجہ نے جمعرات کے روز پہلی بار اس بات کا بھی انکشاف کیا کہ،
’’ امریکہ نے ستمبر 2025 تک ان تمام افغانوں، جو اس وقت پاکستان میں ہیں، کو دوبارہ آباد کرنے پر رضامندی ظاہر کی تھی۔‘‘

پاکستانی اداروں پر امریکی پابندیاں، اسلام آباد کا ردعمل

ترجمان شفقت علی خان نے بتایا کہ افغان مہاجرین کی آباد کاری کے منصوبے کو معطل کرنے کے لیے نئی انتظامیہ کے اقدام کے بارے میں ابھی تک واشنگٹن نے باضابطہ طور پر اسلام آباد سے کوئی بات نہیں کی ہے۔

حکومت پاکستان کے مطابق تقریباً 25,000 افغان، جو امریکی فوج اور ان کے ٹھیکیداروں کے لیے کام کرتے تھے، اس وقت پاکستان میں ہیں۔ اگست 2021 میں امریکہ کے زیر قیادت غیر ملکی افواج کے افراتفری والے انخلاء کے نتیجے میں یہ افغان طالبان کی حکومت سے فرار ہو کر پاکستان پہنچے تھے۔

پاکستان نے انہیں واشنگٹن کی درخواست پر عارضی قیام فراہم کیا، کیونکہ واشنگٹن نے ان تمام افغانوں کو امریکہ منتقل کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ تاہم اس امریکی عزم کے باوجود ہزاروں افغان اب بھی اسلام آباد میں موجود ہیں۔

امریکہ تنقید کے بجائے پاکستانی اصلاحات کی حمایت کرے، پاکستان

دفتر خارجہ کے ترجمان شفقت علی نے ان امور پر صحافیوں کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے کہا،’’امریکہ کے ساتھ ہمارا ایک منظم طریقہ کار ہے، جس کے تحت امریکی انتظامیہ پاکستان میں رہنے والے ایسے تمام افغانوں کو ستمبر 2025 تک امریکہ لے جانے کے لیے پرعزم ہے۔‘‘

ترجمان نے کہا کہ پاکستان امریکہ کی طرف سے کیے گئے وعدے پر اب بھی قائم ہے۔ انہوں نے بتایا، ’’انتظامات اپنی جگہ پر موجود ہیں۔ ہمیں اس بارے میں ابھی تک سرکاری سطح پر مزید کوئی اطلاع نہیں فراہم کی گئی ہے۔‘‘

ترجمان نے تعداد بتائے بغیر یہ بھی کہا کہ امریکہ کے علاوہ اور بھی ممالک ہیں، جنہوں نے افغانوں کو اپنے اپنے ممالک میں آباد کرنے کا وعدہ کر رکھا ہے۔

شفقت علی خان نے بتایا، ’’ہمیں لگتا یہ ہے کہ بعض اوقات یہ ہمیں انتہائی سست نظر آتا ہے۔ ہم چاہیں گے کہ اس میں تیزی آئے اور عمل تیزی سے آگے بڑھے۔ ہم دوسری ان دوست حکومتوں کے ساتھ بھی رابطے میں ہیں، جو افغانوں کو اپنے ملک میں آباد کاری کے لیے لینا چاہتی ہیں۔‘‘

واضح رہے کہ ٹرمپ انتظامیہ نے آئندہ چند ماہ کے لیے تمام طرح کی امیگریشن سرگرمیوں پر مکمل طور پر روک لگا دی ہے، جس کی وجہ سے بہت سے وہ افغان جنہیں امریکہ روانہ ہونا تھا، ان کی پروازوں  کا سلسلہ بھی رک گیا ہے۔

ص ز/ ک م/ نیوز ایجنسیاں)

جنگ کسی ملک کے لیے سازگار نہیں، حنا ربانی کھر

07:17

This browser does not support the video element.

ڈی ڈبلیو کی ٹاپ اسٹوری سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی ٹاپ اسٹوری

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں