ٹرمپ کے دوسرے ’ٹریول بین‘ کے لیے پہلا قانونی دھچکا
شمشیر حیدر
11 مارچ 2017
امریکی صدر کے چھ مسلم اکثریتی ممالک کے شہریوں پر سفری پابندیوں کے نئے ایگزیکٹو آرڈر کو بھی قانونی مسائل کا سامنا ہے۔ ایک وفاقی عدالت نے ایک شامی مہاجر کے معاملے میں اس صدارتی حکم نامے کا نفاذ عارضی طور پر روک دیا ہے۔
اشتہار
شورش زدہ ملک شام سے تعلق رکھنے والے ایک مہاجر کی جانب سے دائر کیے گئے مقدمے کو سماعت کے لیے قبول کرتے ہوئے امریکا کی ایک وفاقی عدالت کے جج نے اس ایک قانونی معاملے میں صدر ٹرمپ کے نئے ایگزیکٹو آرڈر کے اطلاق کو عارضی طور پر روک دیا ہے۔ صدر ٹرمپ کے نئے حکم نامے کے لیے یہ پہلا قانونی دھچکا ہے۔
امریکی ریاست وسکانسن میں اس مقدمے کی سماعت کرنے والے جج ولیم کونلی کا کہنا تھا کہ اگر اس مدعی پر ایگزیکٹو آرڈر کا اطلاق کیا گیا، تو اسے ’ناقابل تلافی نقصان‘ پہنچنے کا اندیشہ ہے۔ شامی شہر حلب سے تعلق رکھنے والے اس باشندے کو پہلے ہی امریکا میں سیاسی پناہ دی جا چکی ہے۔ تاہم اس کی بیوی اور بچے ابھی تک حلب میں مقیم ہیں۔ خاندان کی حفاظت کے پیش نظر اس شامی مہاجر کا نام ظاہر نہیں کیا گیا۔
یہ عدالتی فیصلہ صدر ٹرمپ کے نئے حکم نامے کے لیے پہلا بڑا قانونی دھچکا ہے۔ امریکی صدر ٹرمپ نے اپنا عہدہ سنبھالنے کے بعد سات مسلم اکثریتی ممالک کے شہریوں کے امریکا میں داخلے پر عارضی پابندی لگا دی تھی۔ تاہم امریکی عدالت نے ان کے اس صدارتی حکم نامے کو غیر قانونی قرار دے دیا تھا۔
صدر ٹرمپ نے رواں ہفتے پیر کے روز ایک نیا ایگزیکٹو آرڈر جاری کر دیا تھا۔ سفری پابندیوں کے اس نئے حکم نامے میں سے عراق کو نکال دیا گیا ہے تاہم شام، ایران، لیبیا، صومالیہ، یمن اور سوڈان سے تعلق رکھنے والے افراد کے امریکا میں داخلے پر نوے روز کی پابندی لگائی گئی ہے جب کہ اس نئے صدارتی حکم نامے کے مطابق مہاجرین کے امریکا میں داخلے پر بھی 120 روز کے لیے پابندی عائد ہے۔ نئے ٹریول بین پر عمل درآمد سولہ مارچ سے کیا جائے گا۔
وسکانسن میں ایک وفاقی عدالت کے جج نے شامی مہاجر کا مقدمہ سماعت کے لیے منظور کرتے ہوئے کہا، ’’عدالت نئے ایگزیکٹو آرڈر میں کی گئی تبدیلیوں کی قدر کرتی ہے۔ لیکن اس کا اطلاق مدعی پر بھی ہوتا ہے اور درخواست گزار کے معاملے میں عدالت محسوس کرتی ہے کہ اتنی معقول وجوہات پائی جاتی ہیں کہ مدعی کو گزشتہ فیصلوں کی روشنی میں کچھ موقع مل سکتا ہے۔‘‘
عدالتی فیصلے کے بعد ٹرمپ کے ایگزیکٹو آرڈر کا اطلاق عارضی طور پر اس شامی مہاجر پر نہیں کیا جائے گا۔ مقدمے کی باقاعدہ سماعت 21 مارچ سے شروع ہو گی۔
دوسری جانب کئی دیگر عدالتوں میں بھی مختلف ریاستوں، متاثرہ افراد اور مہاجرین کے حقوق کے لیے سرگرم تنظیموں نے ٹرمپ کے نئے حکم نامے کے خلاف درخواستیں دائر کر رکھی ہیں۔ انسانی اور شہری حقوق کے لیے سرگرم تنظیم اے سی ایل یو سے وابستہ عمر جدوات کے مطابق، ’’مسلمانوں کی امریکا میں داخلے پر پابندی کو کوئی اور نام دینے سے بنیادی مسئلہ حل نہیں ہوتا۔ ہمارے آئین اور قانون کے مطابق مذہب کی بنیاد پر امتیازی سلوک روا نہیں رکھا جا سکتا۔‘‘
امریکا میں کتنے مسلمان بستے ہیں؟
امریکا میں ڈونلڈ ٹرمپ کے صدر منتخب ہونے کے بعد سب سے زیادہ تشویش وہاں رہنے والے مسلمانوں میں پائی جاتی ہے۔ وہاں قائم کئی مساجد کو دھمکیاں ملنے کی اطلاعات بھی ملی ہیں۔ آئیے جانتے ہیں کہ امریکا میں کتنے مسلمان رہتے ہیں؟
تصویر: picture-alliance/AP Photo/J. Martin
مسلمان بڑی تعداد میں
پیو ریسرچ سینٹر کا اندازہ ہے کہ امریکا میں رہنے والے مسلمانوں کی تعداد 33 لاکھ کے لگ بھگ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ امریکا کی 32.2 کروڑ کی آبادی میں مسلمانوں کی حصہ داری تقریبا ایک فیصد بنتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/J. Martin
مسلم آبادی میں اضافہ
پیو ریسرچ سینٹر کا یہ اندازہ بھی ہے کہ سن 2050 تک امریکا میں رہنے والے مسلمانوں کی تعداد موجودہ سطح سے دوگنا ہو جائے گی۔
تصویر: picture-alliance/abaca
یہودیوں سے کم ہندوؤں سے زیادہ
ایک محتاط اندازے کے مطابق امریکا میں مقیم مسلمانوں کی تعداد وہاں رہنے والے یہودیوں سے کم ہے، جن کی تعداد میں 57 لاکھ کے قریب ہے۔ وہیں امریکا میں ہندوؤں کی تعداد 21 لاکھ کے لگ بھگ بنتی ہے۔ ان اعدادوشمار کے مطابق امریکا میں مسلمانوں کی آبادی ہندوؤں سے زیادہ ہے۔
تصویر: Getty Images/W. McNamee
یہودی رہ جائیں گے پیچھے
پیو ریسرچ سینٹر نے اندازہ ظاہر کیا ہے کہ سن 2040 میں مسلمان امریکا میں مسیحیوں کے بعد دوسرا سب سے بڑا مذہبی گروپ ہوں گے۔ یعنی امریکا میں آباد مسلم کمیونٹی آبادی کے لحاظ سے 25 سال میں یہودیوں کو پیچھے چھوڑ دیں گے۔
تصویر: dapd
نیو جرسی میں زیادہ مسلمان
امریکا میں مسلمانوں کی آبادی کچھ ریاستوں میں اوسط سے زیادہ ہے۔ مثال کے طور پر نیو جرسی کی طرح کچھ ریاستوں میں بسنے والے مسلمانوں کی تعداد دیگر ریاستوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/B. Fox
مسلمان پناہ گزینوں کی آمد
پیو ریسرچ سینٹر کا کہنا ہے کہ امریکا میں سن 2007 کے بعد سے مسلمانوں کی تعداد میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ اس کی ایک وجہ ملک میں آنے والے پناہ گزین بھی ہیں۔
تصویر: AP
کتنے مسلم پناہ گزین امریکا آئے
مالی سال 2016 میں امریکا میں داخل ہونے والے مسلمان پناہ گزینوں کی تعداد اڑتیس ہزار نو سو ایک رہی جبکہ مجموعی طور پر اس مدت میں امریکی حکومت نے پچاسی ہزار پناہ گزینوں کو قبول کیا۔
تصویر: picture alliance/Photoshot
تبدیلی مذہب
اس کے علاوہ امریکا میں بہت سے لوگ ایسے بھی ہیں، جنہوں نے اسلام بطور مذہب قبول کیا ہے۔ پیو کے مطابق ہر پانچ بالغ امریکی مسلمانوں میں سے ایک ایسا ہے، جس کی پرورش کسی دوسرے مذہب میں ہوئی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/U. Deck
مسلمان ایک پڑھی لکھی کمیونٹی
امریکی نشریاتی ادارے ’سی این این‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق امریکا میں مسلمان کمیونٹی ملک کا دوسرا سب سے زیادہ پڑھا لکھا مذہبی طبقہ ہے۔ اس فہرست میں پہلے نمبر پر یہودی آتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/J. Martin
مسلمان مخالف جذبات
امریکا میں 11 ستمبر سن 2001 کے دہشت گردانہ حملوں کے بعد وہاں مسلمان مخالف جذبات میں اضافہ نوٹ کیا گیا ہے۔
تصویر: AP
ٹرمپ کے بیان
نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم کے دوران کئی بار مسلمان مخالف بیانات دیے۔ اسی مہم کے دوران ری پبلکن سیاستدان نے ایک مرتبہ یہ بھی کہا تھا کہ ’مسلمان امریکا سے نفرت کرتے ہیں‘۔ ٹرمپ نے یہ تجویز بھی کیا کہ مسلمانوں کی عارضی طور پر امریکا میں داخل ہونے پر پابندی لگا دی جانا چاہیے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/J. Locher
اسلام ایک بڑا مذہب
مختلف اعداد و شمار کے مطابق دنیا بھر میں مسلمانوں کی تعداد 1.6 ارب بنتی ہے، یعنی عالمی آبادی کا 23 فیصد حصہ مسلمانوں پر ہی مشتمل ہے۔ مسیحیت کے بعد اسلام دنیا کا دوسرا سب سے بڑا مذہب ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Stratenschulte
اسلام تیزی سے پھیلتا ہوا
پیو ریسرچ سینٹر کا کہنا ہے کہ اسلام اس وقت دنیا کے دیگر مذاہب کے مقابلے میں دنیا کا سب سے تیزی سے فروغ پاتا مذہب ہے۔