1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ٹرمپ کے ساتھ ملاقات کی کڑوی گولی

شاہ زیب جیلانی
23 جولائی 2019

مثبت رپورٹنگ کا تقاضا ہے، جب حکمران بیرونی دورے پر ہوں تو ہم سب پاکستانی بن کر سوچیں اور اچھے پہلوؤں کو  اجاگر کریں۔

تصویر: DW

واشنگٹن میں عمران خان کی ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ ملاقات ان کی اپنی توقعات کے برعکس رہی۔ حکومت میں آنے سے پہلے عمران خان کہتے تھے کہ جب وہ وزیراعظم بنے تو صدر  ٹرمپ سے ضرور ملیں گے لیکن وہ ملاقات ایک کڑوی گولی ہو گی۔ وہ مسٹر ٹرمپ کو ایک 'ناسمجھ اور ناشکرا انسان‘ بھی قرار دیتے تھے۔

لیکن پچھلے چند ماہ کی مسلسل کاوشوں اور سفارشوں کے بعد بلآخر وائٹ ہاؤس میں جو ملاقات ہوئی، وہ بظاہر بڑی اچھی رہی۔ اس میں کڑواہٹ کی بجائے مسکراہٹیں تھیں۔ اطلاعات ہیں کہ خان صاحب نے مسٹر ٹرمپ کو اونٹ کی کھال سے بنایا گیا ملتانی گلدان تحفے میں پیش کیا۔ جواب میں ٹرمپ نے خان صاحب کو ایک اعلیٰ قسم کا بلا پکڑا دیا۔

بند کمروں میں کیا ہوا، وہ آنے والے دنوں میں واضع ہو گا۔ لیکن کیمروں کے سامنے بہرحال مسٹر ٹرمپ نے زیادہ گرم جوشی دکھائی۔ خان صاحب نسبتاً محتاط نظر آئے۔ چینلوں پر تبصرہ نگاروں نے بارہا ہمیں یاد دلایا کہ دیکھا خان کتنا پراعتماد تھا، اس کے ہاتھ میں کوئی پرچی وغیرہ بھی نہیں تھی،  کیونکہ بقول ان کے، وہ پیدائیشی لیڈر ہیں۔

مثبت رپورٹنگ کا تقاضا ہے جب ملک کا حکمران بیرونی دورے پر ہو تو ہم سب پاکستانی بن کر سوچیں اور اس دورے کے اچھے پہلوؤں کو  اجاگر کریں۔ پھر چاہے وہ حکمران ڈنڈے کے زور پہ آیا ہو، سلیکٹڈ ہو، اخلاقی طور پر بینک رپٹ یا پھر مالی طور پر کرپٹ!

تصویر: picture-alliance

وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی فرماتے ہیں کہا  کہ اس دورے سے حکومت کے لیے واشگنٹن کے وہ دروازے کھل گئے ہیں، جو اب سے چند ماہ پہلے تک مکمل طور پر بند تھے۔ انہوں نے کہا کہ پاک امریکا تعلقات پچھلے پانچ سال سے کشیدہ تھے، جس کی انہوں نے دو بنیادی وجوہات بتلائیں: نواز شریف دور میں وزیر خارجہ کا نہ ہونا اور واشنگٹن میں پاکستان کے لیے کام کرنی والی کسی لابی فرم کا نہ ہونا۔

قریشی صاحب اعلیٰ پائے کے سیاستدان سمجھے جاتے ہیں۔ انہیں پیچیدہ معاملات کو ضرورت سے زیادہ سلیس انداز میں پیش کرنے کا گُر آتا ہے۔ ان کے خیال میں پاکستان امریکا کے خراب تعلقات کا اس بات سے کوئی تعلق نہیں کہ پاکستان میں خارجہ پالیسی اور قومی سلامتی کے معاملات متنخب حکومت کی بجائے کہیں اور طے ہوتے آئے ہیں۔ ان کے نزدیک اِس کا اُس سے بھی کوئی تعلق نہیں کہ ہم پر یہ الزام ہےکہ ہم کہتے کچھ ہیں اور کرتے کچھ  ہیں۔

پاکستان کی موجودہ سول ملڑی قیادت کے نزدیک ملک کی دو بڑی جماعتیں تو ٹھہریں پاکستان کی تمام خرابیوں کے ذمہ دار لیکن ان سے پہلے بھی تو نو سال تک ملک میں ایک شخص تخت نشین تھا، جسے اپنے پیدائیشی لیڈر ہونے پر اتنا ہی یقین تھا؟

تصویر: AP

جارج بش اپنی صدارتی مہم کے دوران پاکستان کے اس فوجی حکمران کا نام تک نہیں جانتے تھے۔ لیکن نائن الیون کے بعد جنرل مشرف کے ساتھ ایسی یاری لگی کہ پھران کا امریکا آنا جانا جیسے معمول سا بن گیا۔ مجھے واشنگٹن میں جنرل مشرف کے وہ دورے قریب سے دیکھنے اور رپورٹ کرنے کا موقع ملا، جن میں سن دو ہزار تین کا کیمپ ڈیوڈ کا وہ یادگار دورہ بھی شامل ہے، جس میں ایسا لگا جیسے جارج بش اور جنرل مشرف پچپن کے ساتھی ہوں۔

میں نے تب بھی واشنگٹن میں ہمارے اکثر تارکین وطن میں ملک کے فوجی حکمران کے لیے ویسا ہی جوش و جذبہ پایا، جیسا اب عمران خان  کے لیے ہے۔

امریکا تب بھی افغان لڑائی میں پھنسا ہوا تھا گو کہ اس وقت وہ وہاں سے نکلنے کے لیے اتنا بے چین اور مجبور نہیں تھا جتنا آج ہے۔ پاکستان پر الزام تھا کہ وہ ایک طرف نیٹو افواج کی افغانستان میں مدد کررہا ہے تو دوسری طرف غیر ملکی افواج سے نبردآزما کوئٹہ شورہ اور حقانی نیٹ ورک کو بھی پناہ دے رہا ہے۔ تب بھی  امریکا اپنے سب سے بڑے اتحادی سے کہہ رہا تھا کہ جس کام کے پیسے لے رہے ہو، اسے خلوص نیت سے تو انجام دو۔

 قصہ مختصر پاکستان اور امریکا کے درمیان اعتماد کا فقدان چند اعلیٰ سطحی ملاقاتوں سے نہ پہلے کبھی حل ہوا نہ اب ہو گا۔ اس رشتے میں بہتری کی خواہش دونوں طرف ہے لیکن دونوں کے مفادات میں بنیادی ٹکراؤ بھی ہے۔

امریکا بہت طاقتور ملک ہوگا لیکن اس کی طاقت لامحدود نہیں۔ آج امریکا ایک بار پھر مجبور ہے کہ نا چاہتے ہوئے بھی وہ پاکستان کو کچھ دے دلا کر افغانستان کی دلدل سے نکلے۔ امریکا کی اولین خواہش ہے کہ پاکستان کسی طرح افغان طالبان کو کابل حکومت کے ساتھ مذاکرات کی میز پر لے آئے اور جنگ بندی کا اعلان کرانے میں مدد کرے۔

پاکستان کا اس وقت سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ملک اقتصادی طور پر بیٹھتا جا رہا ہے، جس کی وجہ ہمارے عسکری اداروں کی داخلی اور خارجی مہم جوئیاں اور سولین حکومتوں کی اپنی کمزوریاں ہیں۔ افغانستان میں امریکا کی مدد کے عوض پاکستان کو قرضے، سرمایہ کاری، تجارت اور امریکی فوجی امداد کی بحالی چاہیے۔

ہمارے سپہ سالار جنرل باجوہ اور عمران خان کے لیے ایک حوصلہ مند بات یہ ہے کہ صدر ٹرمپ بنیادی طور پر ایک بزنس مین ہیں۔ وہ بھی جمہوری اقدار، آزادیء اظہار اور انسانی حقوق وغیرہ میں کوئی خاص دلچسپی نہیں رکھتے۔ اس لیے قوی امکان ہے کہ دونوں ملکوں کے آہنی مرد کوئی ایسا سودا کر لیں، جس سے فی الحال دونوں کی مشکلات کم ہوں اور ان کی اپنی اپنی نوکریاں بھی پکی ہو جائیں۔

ایسا ہوتا ہے یا نہیں اس کا زیادہ انحصار پاکستان پر ہو گا۔ جنرل باجوہ امریکا کو کرائی گئی یقین دہانیوں پر عمل کریں گے تو صدر ٹرمپ بھی پاکستان کی اقتصادی مشکلیں آسان کرنے میں اپنا کردار ادا کریں گے۔ ایسا ہوا تو اکتوبر میں پاکستان ایف اے ٹی ایف کی بلیک لسٹ میں شامل ہونے سے بھی بچ جائے گا۔ نومبر کے اختتام سے پہلے پہلے یہ شور بھی زور پکڑے گا کہ پاکستان جس نازک موڑ سے گزر رہا ہے، اس کے لیے موجودہ سول ملڑی قیادت کی پارٹنرشپ کا تسلسل کیوں کر ناگزیر ہے۔

تصویر: picture-alliance/dpa/S. Hoppe
اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں