امریکی سینیٹ نے ایک قرارداد منظور کرکے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو کانگریس کی اجازت کے بغیر ایران کے خلاف کسی طرح کی فوجی کارروائی کرنے سے روک دیا ہے۔
اشتہار
امریکا میں حکمران ری پبلیکن پارٹی کے آٹھ اراکین سمیت اس قرارداد کے حق میں 55 جبکہ مخالفت میں 45 سینیٹرز نے ووٹ ڈالے، تاہم ٹرمپ اس قرارداد کو ویٹو کرسکتے ہیں۔
اس قرارداد کی منظوری کے بعد امریکی صدر کو اب ایران کے خلاف کسی طرح کی جنگ چھیڑنے سے قبل کانگریس سے منظوری لینا پڑے گی۔ قرارداد میں تاہم ناگزیر صورت حال میں صدر ٹرمپ کو فیصلہ لینے کی اجازت دی گئی ہے۔
ڈیموکریٹ سینیٹر ٹم کائینے نے قرارداد پیش کرتے ہوئے کہا ، ’’گوکہ ناگزیر حملے کی صورت میں صدر کو امریکا کا دفاع کرنے کی ہمیشہ اجازت ہے تاہم انہیں اپنی مرضی کے مطابق کوئی جنگ شروع کرنے کا اختیار نہیں ہو گا۔"
100رکنی سینیٹ میں حکمران ری پبلیکن پارٹی کے اراکین کی تعداد 53 ہے لیکن اس کے آٹھ اراکین نے اس قرارداد کی حمایت کی، اس طرح قراردار کے حق میں مجموعی طور پر 55 ووٹ پڑے۔ ری پبلیکن سینیٹر مائک لی نے قرارداد کی حمایت کرتے ہوئے کہا، ’’آخری چیز جو ہم چاہتے ہیں وہ یہ ہے کہ مشرق وسطی میں ایک اور بلا مقصد جنگ نہ ہو۔‘‘
امریکی صدر نے اس طرح کی کسی بھی قرارداد کو ویٹو کرنے کی دھمکی دے رکھی ہے۔ صدر ٹرمپ کا کہنا ہے کہ اس طرح کی قرارداد امریکا کی ”کمزوری" کی علامت ہے۔ صدر ٹرمپ اگر اس قرارداد کو ویٹو کرتے ہیں، جس کا پورا امکان ہے، تو اسے مسترد کرنے کے لیے ایک نئی قرارداد پیش کرکے اسے کانگریس کے دونوں ایوانوں دو تہائی اکثریت سے منظور کرانا ہو گا۔
امریکی سینیٹ میں یہ قرارداد اس دن منظور کی گئی جب ایران اپنے ایک اہم جنرل قاسم سلیمانی کی وفات کا چالیسویں منا رہا تھا۔ اس موقع پر تہران میں ایک ریلی بھی نکالی گئی، جس میں پاسداران انقلاب کے سربراہ میجر جنرل حسین سلامی نے امریکا اور اسرائیل کو وارننگ دی کہ اگر انہوں نے ایران کے خلاف کوئی کارروائی کی تو تہران سخت جوابی کارروائی کرے گا۔
امریکا نے تین جنوری کو بغداد کے بین الاقوامی ہوائی اڈے کے قریب ایک حملہ کرکے ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کو ہلاک کر دیا تھا۔ اس کے جواب میں ایران نے عراق میں واقع امریکا کے فوجی ٹھکانوں پر راکٹ داغے تھے۔ امریکی صدر ٹرمپ نے ابتدا میں دعوی کیا تھا کہ ایران کی طرف سے جوابی کارروائی میں کوئی امریکی فوجی زخمی نہیں ہوا۔ لیکن بعد میں امریکی فوج نے اعلان کیا کہ کم از کم 109امریکی فوجیوں کو شدید دماغی چوٹیں آئی ہیں۔ ایران نے بھی یہ اعتراف کیا تھا کہ اس نے امریکی ہدف سمجھ کر غلطی سے ایک مسافر بردار طیارہ کو مار گرایا، جس سے اس جہاز میں سوار تمام 176 افراد ہلاک ہو گئے۔
ج ا / ع ب / خبر رساں ادارے
ایرانی فیکڑی: جہاں پرچم صرف جلانے کے لیے بنائے جاتے ہیں
ایران میں غیر ملکی پرچم تیار کرنے والی سب سے بڑی فیکڑی کا کاروبار تیزی سے ترقی کر رہا ہے۔ اس فیکڑی میں امریکی، برطانوی اور اسرائیلی پرچم صرف اس لیے تیار کیے جاتے ہیں تاکہ انہیں مظاہروں کے دوران جلایا جا سکے۔
تصویر: Reuters/WANA/N. Tabatabaee
ایران میں غیر ملکی پرچم تیار کرنے والی سب سے بڑی فیکڑی کا کاروبار تیزی سے ترقی کر رہا ہے۔ اس فیکڑی میں امریکی، برطانوی اور اسرائیلی پرچم صرف اس لیے تیار کیے جاتے ہیں تاکہ انہیں مظاہروں کے دوران جلایا جا سکے۔
تصویر: Reuters/WANA/N. Tabatabaee
یہ فیکڑی ایرانی دارالحکومت تہران کے جنوب مغربی شہر خمین میں واقع ہے، جہاں نوجوان لڑکے اور لڑکیاں ایسے جھنڈے پرنٹ کرتے ہیں اور پھر سوکھنے کے لیے انہیں لٹکا دیا جاتا ہے۔
تصویر: Reuters/WANA/N. Tabatabaee
احتجاجی مظاہروں کے دنوں میں اس فیکڑی میں ماہانہ بنیادوں پر تقریبا دو ہزار امریکی اور اسرائیلی پرچم تیار کیے جاتے ہیں۔ سالانہ بنیادوں پر پندرہ لاکھ مربع فٹ رقبے کے برابر کپڑے کے جھنڈے تیار کیے جاتے ہیں۔
تصویر: Reuters/WANA/N. Tabatabaee
ایرانی کمانڈر جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت کے بعد سے امریکا اور ایران کے مابین پائی جانے والی کشیدگی اپنے عروج پر ہے اور اس وجہ سے آج کل ایران میں امریکا مخالف مظاہروں میں بھی شدت پیدا ہو گئی ہے۔ حکومت کے حمایت یافتہ مظاہروں میں امریکا، اسرائیل اور برطانیہ کے جھنڈے بھی تواتر سے جلائے جا رہے ہیں۔
تصویر: Reuters/WANA/N. Tabatabaee
دیبا پرچم نامی فیکڑی کے مالک قاسم کنجانی کا نیوز ایجنسی روئٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’ہمارا امریکی اور برطانوی شہریوں سے کوئی جھگڑا نہیں ہے۔ ہمارا مسئلہ ان کی حکومتوں سے ہے۔ ہمارا مسئلہ ان کے صدور سے ہے، ان کی غلط پالیسیوں سے ہے۔‘‘
تصویر: Reuters/WANA/N. Tabatabaee
ایران مخالف ممالک کے جب پرچم نذر آتش کیے جاتے ہیں تو دوسرے ممالک کے عوام کیسا محسوس کرتے ہیں؟ اس سوال کے جواب میں اس فیکڑی کے مالک کا کہنا تھا، ’’اسرائیل اور امریکا کے شہری جانتے ہیں کہ ہمیں ان سے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ اگر لوگ مختلف احتجاجی مظاہروں میں ان ممالک کے پرچم جلاتے ہیں تو وہ صرف اپنا احتجاج ریکارڈ کرا رہے ہوتے ہیں۔‘‘
تصویر: Reuters/WANA/N. Tabatabaee
رضائی اس فیکڑی میں کوالٹی کنٹرول مینیجر ہیں۔ انہوں نے اپنا مکمل نام بتانے سے گریز کیا لیکن ان کا کہنا تھا، ’’ امریکا کی ظالمانہ کارروائیوں کے مقابلے میں، جیسے کہ جنرل سلیمانی کا قتل، یہ جھنڈے جلانا وہ کم سے کم ردعمل ہے، جو دیا جا سکتا ہے۔‘‘
تصویر: Reuters/WANA/N. Tabatabaee
نیوز ایجنسی روئٹرز کے مطابق انقلاب ایران میں امریکا مخالف جذبات کو ہمیشہ سے ہی مرکزی حیثیت حاصل رہی ہے۔ ایرانی مذہبی قیادت انقلاب ایران کے بعد سے امریکا کا موازنہ سب سے بڑے شیطان سے کرتی آئی ہے۔
تصویر: Reuters/WANA/N. Tabatabaee
دوسری جانب اب ایران میں صورتحال تبدیل ہو رہی ہے۔ گزشتہ نومبر میں ایران میں حکومت مخالف مظاہروں کے دوران یہ نعرے بھی لگائے گئے کہ ’’ہمارا دشمن امریکا نہیں ہے، بلکہ ہمارا دشمن یہاں ہے۔‘‘
تصویر: Reuters/WANA/N. Tabatabaee
حال ہیں میں تہران میں احتجاج کے طور پر امریکی پرچم زمین پر رکھا گیا تھا لیکن ایک ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ نوجوان مظاہرین اس پر پاؤں رکھنے سے گریز کر رہے ہیں۔ تجزیہ کاروں کے مطابق ایرانی نوجوان پرچم جلانے کی سیاست سے بیزار ہوتے جا رہے ہیں۔