1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ٹرمپ کے منصوبے کی قدر کرتے ہیں، سعودی عرب

29 جنوری 2020

سعودی عرب نے کہا ہے کہ وہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے اسرائیل فلسطینی تنازعے کے حل کی کوششوں کی ’قدر‘ کرتا ہے۔ ساتھ ہی اسرائیل فلسطینیوں کے درمیان براہ راست مذاکرات کے آغاز کا بھی مطالبہ کیا ہے۔

Ägypten Sharm el Sheikh Gipfel von EU und Arabische Liga
تصویر: Getty Images/AFP/M. El-Shahed

سعودی عرب کی وزارت خارجہ کی طرف سے جاری ہونے والے ایک بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے تجویز کیے گئے منصوبے کے بارے میں اگر کوئی عدم اتفاق ہے تو اسے امریکی سرپرستی میں مذاکرات کے ذریعے حل کیا جائے ''تاہم امن عمل پر آگے بڑھا جائے تا کہ ایک ایسا معاہدہ طے پا سکے جس میں فلسطینی عوام کے جائز حقوق حاصل کیے جا سکیں۔‘‘

سعودی وزارت خارجہ کے بیان کے مطابق، ''سعودی بادشاہت صدر ٹرمپ کی انتظامیہ کی طرف سے فلسطینیوں اور اسرائیل کے درمیان ایک جامع امن معاہدے کے لیے کوششوں کی قدر کرتی ہے۔‘‘

فلسطینیوں کی طرف سے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مجوزہ امن معاہدے کی شدید مخالفت کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ منصوبہ ''تاریخ کے کوڑے دان‘‘ میں جانے کے قابل ہے۔تصویر: Reuters/R. Sawafta

فلسطینیوں کی طرف سے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مجوزہ امن معاہدے کی شدید مخالفت کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ منصوبہ ''تاریخ کے کوڑے دان‘‘ میں جانے کے قابل ہے۔ ٹرمپ نے اپنے منصوبے کو تاریخی قرار دیا تھا۔

سعودی عرب کی سرکاری نیوز ایجنسی ایس پی اے کے مطابق، ''سعودی شاہ سلمان نے فلسطینی صدر محمود عباس کو ٹیلی فون کیا اور فلسطینی عوام اور فلسطین کے معاملے پر سعودی عرب کے دوٹوک مؤقف کو دہرایا۔‘‘

سعودی وزارت خارجہ کی طرف سے صدر ٹرمپ کے امن منصوبے کے بارے میں جاری ہونے والے بیان میں 2002ء کے عرب امن منصوبے کا بھی حوالہ دیا گیا ہے جس میں یہ بات زور دے کر کہی گئی ہے کہ ''اس تنازعے کے فوجی حل سے اس علاقے اور کسی بھی فریق کے لیے امن کا باعث نہیں بنے گا۔‘‘

ڈی ڈبلیو کے ایڈیٹرز ہر صبح اپنی تازہ ترین خبریں اور چنیدہ رپورٹس اپنے پڑھنے والوں کو بھیجتے ہیں۔ آپ بھی یہاں کلک کر کے یہ نیوز لیٹر موصول کر سکتے ہیں۔

ا ب ا / ع ا (اے ایف پی)

 

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں