ٹرمپ کے نئے وار نے جی سیون کو ’جی سِکس‘ بنا دیا: تبصرہ
میشائل کنِگے مقبول ملک
10 جون 2018
ایسا لگتا تھا جی سیون سمٹ کے شرکاء میں کوئی اتفاق رائے ہو جائے گا، پھر امریکی صدر ٹرمپ نے ایک ٹویٹ کے ذریعے اختتامی اعلامیے کے لیے اپنی حمایت واپس لے لی۔ ڈی ڈبلیو کے تبصرہ نگار میشائل کنِگے کے مطابق یہ اچھا ہی ہوا ہے۔
اشتہار
کبھی کبھی یہ ٹھیک ہوتا ہے کہ چیزوں کو باندھ کر رکھنے والی ٹیپ کھینچ کر اتار ہی دی جائے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کینیڈا میں ہونے والی جی سیون کی سربراہی کانفرنس کے دوران بھی یہی کیا۔ ٹرمپ نے اس سمٹ کے اختتامی اعلامیے کے لیے پہلے اپنی حمایت کا اظہار کر دیا تھا۔ پھر سنگاپور جاتے ہوئے طیارے میں سوار ہونے کے بعد انہوں نے عین آخری لمحات میں ٹوئٹر پر اپنے ایک پیغام کے ذریعے اس اعلامیے کی دستاویز کے لیے اپنی توثیق منسوخ کرنے کا اعلان کر دیا۔
اس ٹویٹ میں ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ بھی کہا کہ میزبان ملک کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے اپنی ایک پریس کانفرنس میں غلط بیانی کی تھی، اسی لیے انہوں نے اس سمٹ میں شریک امریکی نمائندوں سے کہہ دیا ہے کہ وہ سربراہی اجلاس کے اختتامی اعلامیے کی دستاویز کی حمایت نہ کریں۔
بات یہ ہے کہ ٹرمپ کی طرف سے یہ کوئی ایسی پہلی چال نہیں ہے، جس میں وہ آگے بڑھنے کے بعد پھر پیچھے کی طرف چل پڑے ہیں۔ وہ واقعی یکدم اعلانات، منسوخیوں اور اخراج کے فیصلوں کے ماہر ہیں۔ پہلے انہوں نے تحفظ ماحول سے متعلق پیرس کے عالمی معاہدے سے امریکا کے اخراج کا اعلان کیا، پھر ایران کے ساتھ جوہری ڈیل سے واشنگٹن کے نکلنے کا، پھر ٹرانس پیسیفک پارٹنرشپ کو الوداع کہنے کا، اس کے بعد امریکا کی طرف سے یونیسکو میں اپنی رکنیت ترک کر دینے کا اور اب جی سیون کے اعلامیے کی دستاویز کی حمایت سے پیچھے ہٹنے کا۔ یہ تو محض چند مثالیں ہیں۔
ایرانی جوہری معاہدے سے امریکی اخراج کے اعلان کے اثرات کے برعکس، کینیڈا کے صوبے کیوبیک میں ہونے والی دنیا کے صنعتی طور پر ترقی یافتہ سات ممالک یعنی جی سیون کی اس سربراہی کانفرنس میں ڈونلڈ ٹرمپ کے اختلافی موقف کے اثرات زیادہ شدید نہیں ہوں گے کیونکہ یہ مشترکہ بیان نہ تو بہت جامع ہے اور نہ ہی اس پر عمل کرنا ہر رکن ملک کے لیے لازمی ہے۔
جی سیون سمٹ اور احتجاجی مظاہرے
جمعہ آٹھ جون سے سات امیر اور صنعتی ملکوں کی دو روزہ جی سیون سمٹ کینیڈین صوبے کیوبیک کے مقام لامالبائی میں منعقد ہو رہی ہے۔ اس کانفرنس کے ایجنڈے کے خلاف لامالبائی میں شدید مظاہرے دیکھے گئے ہیں۔
تصویر: Reuters/Y. Herman
جی سیون سمٹ اور مظاہرے
امیر اور صنعتی ملکوں کے سربراہ اجلاس کے موقع پر ماحول دوستوں اور اقتصادی عدم مساوات کے مخالفین کے مظاہرے اب ایک روایت بنتے جا رہے ہیں۔ کینیڈا میں آٹھ جون سے شروع ہونے والی اس سمٹ کے موقع پر بھی شدید مظاہرے دیکھے گئے ہیں۔
تصویر: Reuters/Y. Herman
مظاہرین اور کیوبیک سٹی
اس تصویر میں ایک سڑک پر جلتے ہوئے آلاؤ کے قریب جمع مظاہرین کھڑے ہیں۔ کینیڈین شہر کیوبیک سٹی کے قریبی گاؤں لا مالبائی میں جی سیون سمٹ منعقد کی گئی ہے۔ کیوبیک سٹی کی مرکزی شاہراؤں پر احتجاجی مظاہرین اور پولیس ایک دوسرے کے پہلو میں موجود ہیں۔
تصویر: Reuters/J. Ernst
جی سیون سمٹ اور ماحول دوست مظاہرین
امیرملکوں کے لیڈروں کی کانفرنس کے موقع پر ماحول دوست خاص طور پر پلاسٹک مصنوعات کے استعمال کے خلاف آواز بلند کیے ہوئے ہیں۔ مظاہرین صرف ایک دفعہ استعمال ہونے والے پلاسٹ پر پابندی کا مطالبہ کرتے ہیں۔
تصویر: David Kawai/Greenpeace
نقاب پوش مظاہرین
کیوبیک سٹی میں امیر ملکوں کی پالیسیوں کے خلاف احتجاج بلند کرنے والوں میں کئی خواتین اور حضرات نے اپنے چہرے ڈھانپ رکھے ہیں۔ ایسے مظاہرین کا مقصد پرتشدد صورت حال میں بھی اپنی شناخت کو مخفی رکھنا ہے۔
تصویر: Reuters/J. Ernst
امریکا اور برطانوی جھنڈے نذرِ آتش
سات ترقی یافتہ ملکوں میں شامل امریکا اور برطانیہ کے جھنڈوں کو مظاہروں کے دوران خاص طور پر نذر آتش کیا جاتا رہا ہے۔ کیوبیک سٹی میں بھی یہ دیکھا گیا۔ اس کی وجہ امریکا کی پیرس کلائمیٹ ڈیل سے دستبرداری خیال کی گئی ہے جب کہ برطانیہ کو امریکا کا اہم ترین حلیف ملک تصور کیا جاتا ہے۔
تصویر: Reuters/J. Ernst
جرمن قومی پرچم کو بھی نہیں بخشا گیا
کیوبیک شہر میں امریکی اور برطانوی جھنڈے جلانے والوں کے ساتھ بعض مظاہرین نے جرمن جھنڈا جلانے سے بھی گریز نہیں کیا۔ ان کے مطابق ماحولیاتی پالیسیوں میں تعاون نہ کرنے والے ممالک میں جرمنی بھی شامل ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Kappeler
سات ملکوں کی کرنسی اور مظاہرین
کیوبیک سٹی میں جی سیون سربراہ اجلاس کی پالیسیوں کے خلاف مظاہروں کے منتظمین کا کہنا ہے کہ ان سات ملکوں کی کرنسیاں عالمی عدم مساوات کی ذمہ دار ہیں کیونکہ غریب ممالک کی اقتصادیات کا انحصار انہی کرنسیوں پر ہے۔
تصویر: Reuters/M. Belanger
ہاتھوں سے چہرے چھپانے والے شرکا
کیوبیک سٹی میں پہنچے ہوئے مظاہرین کی کوشش ہے کہ احتجاج کے دوران ذرائع ابلاغ کے نمائندے اُن کے چہروں کی تصاویر نہ لے پائیں۔ نقاب پوشی کے علاوہ بعض مظاہرین اپنے چہروں کو اپنے ہاتھوں سے بھی چھپاتے پھرتے ہیں۔
تصویر: Reuters/J. Ernst
خصوصی سکیورٹی انتظامات
کینیڈین حکومت نے جی سیون سمٹ کے انعقاد کے موقع پر تین سو ملین کے اخراجات کیے ہیں۔ اس میں خاص طور پر سکیورٹی کے غیر معمولی انتظامات اور پولیس کے اضافی دستوں کی تعیناتی بھی شامل ہے۔ لا مالبائی کا سکیورٹی حصار غیر معمولی ہے۔
تصویر: DW/M. Knigge
سکیورٹی اور مزید سکیورٹی
کینیڈین حکومت نے لا مالبائی کے گاؤں میں کانفرنس کے مقام کی سکیورٹی کے لیے ایک تین میٹر بلند دیوار بھی کھڑی کی ہے تا کہ مظاہرین اگر کیوبیک شہر سے نکل کر کانفرنس کے مقام کے قریب بھی آ جائیں تو انہیں دیوار کے باہر ہی روکا جا سکے۔ کیوبیک شہر کے مختلف مقامات پر پولیس کی ٹکڑیاں چوکس کھڑی ہیں۔
تصویر: Reuters/Y. Herman
10 تصاویر1 | 10
لیکن اس طرح امریکی صدر نے جی سیون کو جو علامتی نقصان پہنچایا ہے، اس کے اثرات بہت شدید اور دور رس ہوں گے۔ سات کے گروپ کی سیاسی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ سمٹ کے شرکاء آپس میں کسی مشترکہ دستاویز پر متفق ہی نہ ہو سکے۔
لیکن یہی بات سچی اور کڑوی بھی ہے مگر درست بھی۔ اس لیے کہ کیوبیک میں ٹرمپ نے ایک بار پھر واضح کر دیا کہ وہ دوسری عالمی جنگ کے بعد کے عالمی نظام اور امریکا کے قریب ترین اتحادیوں کے بارے میں کیا سوچتے ہیں۔ اب صرف وہ بنیادی دراڑ سامنے آ گئی ہے، جس کو پوشیدہ رکھنا ممکن نہیں رہا تھا۔
کیوبیک میں لا مالبائی کے مقام پر ہونے والی اس سمٹ کے باقی تمام شرکاء یہ چاہتے تھے، اور اختتامی دستاویز میں انہوں نے اس کا اظہار بھی کیا کہ عالمی سطح پر تجارت کو ’آزادانہ، منصفانہ اور دونوں تجارتی فریقین کے لیے سود مند نتائج کا حامل‘ ہونا چاہیے۔ لیکن ٹرمپ، جن کی سیاست کی ایک بڑی پہچان اقتصادی شعبے میں ان کی حفاظت پسندی یا پروٹیکشن ازم ہے، اس کے بالکل خلاف تھے۔
اسی لیے انہوں نے جتنا بھی وقت اس سمٹ میں گزارا، اس میں ان کا یہ موقف بہت واضح تھا کہ سمٹ کے اختتامی اعلامیے کی دستاویز میں جو کچھ بھی لکھا جائے یا نہ لکھا جائے، وہ اپنی ’پہلے امریکا‘ کی پالیسی سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ یہی وہ سوچ ہے، جس نے واشنگٹن اور اس کے قریبی اتحادی صنعتی ممالک کے مابین ایک گہری خلیج پیدا کر رکھی ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے اس سمٹ میں کیا کچھ کیا، اس کا میزانیہ بھی غیر اہم نہیں ہے: وہ دیر سے آئے اور جلدی چلے گئے۔ میڈیا کو مخاطب کر کے انہوں نے جو کچھ بھی کہا، اس میں ان کے بہت مخصوص جذباتی جملے تو شامل تھے ہی۔ انہوں نے اپنے اتحادیوں کو تجارت روک دینے کی دھمکیاں دیں، تاکہ وہ اضافی محصولات کی جنگ میں واشنگٹن کے مقابلے میں اپنے موقف سے پیچھے ہٹ جائیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے امریکی معیشت کو مضبوط بنانے کی اپنی کوششوں کی خود تعریف بھی کی اور اپنے پیش رو امریکی صدر باراک اوباما پر تنقید بھی کی۔
پھر آخر میں انہوں نے ایک بار پھر یہ بھی کہا کہ جی سیون کو جی ایٹ ہونا چاہیے اور روس کو اس گروپ میں دوبارہ شامل کیا جانا چاہیے۔ اس پر اٹلی کے سوا باقی تمام ممالک کے رہنماؤں کو اتفاق نہیں تھا اور وہ ٹرمپ کی یہی تجویز پہلے ہی کھل کر مسترد بھی کر چکے تھے۔
جی سیون کی اس سمٹ کی خاص بات یہ بھی ہے کہ اس میں امریکی صدر ٹرمپ نے تقریباﹰ عملی طور پر ’سات کے گروپ‘ کو ’چھ کے گروپ‘ میں بدل دیا۔ اہم بات یہ بھی ہے کہ کم از کم جی سیون میں شامل چاروں یورپی ممالک (برطانیہ، جرمنی، فرانس اور اٹلی) اپنی یہ کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں کہ عالمی سطح پر وہ نظام باقی رہنا چاہیے اور اس کا دفاع کیا جانا چاہیے، جس کی بنیاد ضابطوں پر ہے اور جو قوانین کے تحت کام کرتا ہے۔ اب یورپی ممالک کو یہ کام تب تک کرنا ہو گا، جب تک واشنگٹن کے رویے میں تحمل، دانش اور بردباری دوبارہ واپس نہیں آ جاتے۔
میشائل کنِگے (مقبول ملک)
ٹرمپ، اوباما، بُش: میرکل سبھی سے واقف ہیں
اضافی محصولات کا تنازعہ ہو یا پھر ایران کے ساتھ جوہری معاہدہ، ڈونلڈ ٹرمپ جرمنی کے ساتھ لڑائی کے راستے پر ہیں۔ جرمن چانسلر انگیلا میرکل کے ڈونلڈ ٹرمپ کے سوا سب امریکی صدور سے دوستانہ تعلقات رہے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/ M. Kappeler
کیا ہم ہاتھ ملا لیں؟
مارچ دو ہزار سترہ میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے اپنی پہلی ملاقات میں جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے انتہائی مہذب انداز میں ان سے پوچھا کہ کیا ہم صحافیوں کے سامنے ہاتھ ملا لیں؟ میزبان ٹرمپ نے منہ ہی دوسری طرف پھیر لیا۔ بعد میں ٹرمپ کا کہنا تھا کہ انہیں سوال سمجھ ہی نہیں آیا تھا۔
تصویر: Reuters/J. Ernst
نا امید نہ کرو!
سن دو ہزار سترہ میں جی ٹوئنٹی اجلاس کے موقع پر انگیلا میرکل نے بہت کوشش کی کہ ٹرمپ عالمی ماحولیاتی معاہدے سے نکلنے کی اپنی ضد چھوڑ دیں۔ مگر ایسا نہ ہو سکا اور اس اہم موضوع پر ان دونوں رہنماؤں کے اختلافات ختم نہ ہوسکے۔
تصویر: Reuters/P. Wojazer
قربت پیدا ہو چکی تھی
جرمن چانسلر انگیلا میرکل اور سابق امریکی صدر باراک اوباما ایک دوسرے پر اعتماد کرتے تھے اور ایسا باراک اوباما کے بطور صدر الوداعی دورہ جرمنی کے دوران واضح طور پر محسوس کیا جا سکتا تھا۔ باراک اوباما کے دور اقتدار کے بعد امریکی میڈیا نے جرمن چانسلر کو مغربی جمہوریت کی علامت اور ایک آزاد دنیا کی علمبردار قرار دیا تھا۔
تصویر: Reuters/F. Bensch
اعلیٰ ترین اعزاز
جون دو ہزار گیارہ میں باراک اوباما کی طرف سے جرمن چانسلر انگیلا میرکل کو اعلیٰ ترین امریکی تمغہ آزادی سے نوازا گیا تھا۔ انہیں یہ انعام یورپی سیاست میں فعال کردار ادا کرنے کی وجہ سے دیا گیا تھا۔ اس اعزاز کو جرمنی اور امریکا کے مابین اچھے تعلقات کی ایک سند قرار دیا گیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
مہمان سے دوست تک
جون دو ہزار پندرہ میں جرمنی میں ہونے والے جی سیون اجلاس تک میرکل اور اوباما کے تعلقات دوستانہ رنگ اخیتار کر چکے تھے۔ موسمیاتی تبدیلیوں کے خلاف اوباما نے جرمن چانسلر کو ہر مدد کی یقین دہانی کروائی تھی۔ لیکن ٹرمپ کے آتے ہی یہ سب کچھ تبدیل ہو گیا۔
تصویر: Reuters/M. Kappeler
ٹیکساس میں تشریف لائیے
نومبر دو ہزار سات میں جرمن چانسلر نے اپنے خاوند یوآخم زاور کے ہمراہ ٹیکساس میں صدر اوباما کے پیشرو جارج ڈبلیو بُش سے ملاقات کی۔ اس وقت بھی ایران کا موضوع زیر بحث رہا تھا، جیسا کی اب ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Kugler
بار بی کیو سے لطف اندوز ہوں
جارج ڈبلیو بُش نے جولائی سن دو ہزار چھ میں جرمن چانسلر میرکل کو اپنے انتخابی حلقے میں مدعو کرتے ہوئے خود انہیں بار بی کیو پیش کیا۔ اسی طرح بعد میں جرمن چانسلر نے بھی انہیں اپنے انتخابی حلقے میں بلایا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/BPA/G. Bergmann
بل کلنٹن کے ہاتھوں میں ہاتھ
جولائی دو ہزار سترہ میں سابق جرمن چانسلر ہیلموٹ کوہل کی تدفین کے موقع پر سابق امریکی صدر بل کلنٹن نے ایک پرسوز تقریر کی۔ انگیلا میرکل کا ہاتھ پکڑتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ وہ ہیلموٹ کوہل سے ’محبت کرتے‘ تھے۔
تصویر: picture alliance/dpa/M. Murat
یورپ کے لیے چیلنج
امریکی میڈیا کی طرف سے فرانسیسی صدر ایمانویل ماکروں کے دوستانہ رویے کی تعریف کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ وہ جانتے ہیں کہ صدر ٹرمپ کو کس طرح شیشے میں اتارا جا سکتا ہے۔ تاہم حقیقی طور پر یہ صرف ظاہری دوستی ہے۔ امریکی صدر نے محصولات اور ایران پالیسی کے حوالے سے اپنے اختلافات برقرار رکھے ہیں، جو فرانس اور جرمنی کے لیے باعث فکر ہیں۔