ٹرمپ ہٹلر کے پروپیگنڈا وزیر جوزف گوئبلز جیسے ہیں، جو بائیڈن
27 ستمبر 2020
نومبر کے امریکی صدارتی الیکشن سے قبل ایک لائیو ٹی وی مباحثے سے پہلے ڈیموکریٹ صدارتی امیدوار جو بائیڈن نے موجودہ صدر اور اپنے ریپبلکن حریف ٹرمپ کو جھوٹ بولتے رہنے کے باعث ہٹلر کے پروپیگنڈا وزیر گوئبلز جیسا قرار دیا ہے۔
دو حریف صدارتی امیدوار: ڈیموکریٹ جو بائیڈن، دائیں، اور ریپبلکن ڈونلڈ ٹرمپ
اشتہار
ڈونلڈ ٹرمپ کے صدر بننے کے بعد سے امریکی خارجہ سیاست کے ساتھ ساتھ داخلی سیاست میں بھی لہجوں کی کتنی تبدیلیاں آ چکی ہیں، اس کا اندازہ ایک ایسے بیان سے لگایا جا سکتا ہے جو سابق امریکی نائب صدر جو بائیڈن نے موجودہ صدر اور اپنے انتخابی حریف ڈونلڈ ٹرمپ کے بارے میں دیا ہے۔
اس سال تین نومبر کو ہونے والے صدارتی الیکشن میں ڈیموکریٹ بائیڈن اور ریپبلکن ٹرمپ دو مرکزی امیدواروں کے طور پر ایک دوسرے کے خلاف میدان میں ہیں۔ اس الیکشن سے قبل ان دونوں سیاستدانوں کے مابین ٹیلی وژن پر تین مباحثے ہوں گے، جن کو کئی ملین امریکی ووٹر براہ راست دیکھیں گے۔ ایسا پہلا لائیو مباحثہ آئندہ منگل انتیس ستمبر کو ریاست اوہائیو کے شہر کلیولینڈ میں ہو گا۔
'ٹرمپ صرف ذاتی حملے کرنا جانتے ہیں‘
اس مباحثے سے تین روز قبل ہفتہ چھبیس ستمبر کی رات 77 سالہ جو بائیڈن نے، جو سابق صدر باراک اوباما کے دور میں دو مرتبہ امریکی نائب صدر رہے ہیں، MSNBC نامی نشریاتی ادارے کے ساتھ اپنے ایک انٹرویو میں کہا، ''مجھے توقع ہے کہ اس پہلے مباحثے میں ڈونلڈ ٹرمپ مجھ پر ذاتی حملے بھی کریں گے اور جھوٹ بھی بولیں گے۔‘‘
جو بائیڈن سابق صدر باراک اوباما، بائیں، کے دور میں دو مرتبہ نائب صدر رہ چکے ہیںتصویر: Reuters/C. Barria
یہ کہتے ہوئے جو بائیڈن نے ٹرمپ کا موازنہ نازی جرمن رہنما اڈولف ہٹلر کے پروپیگنڈا وزیر جوزف گوئبلز کے ساتھ کیا۔ بائیڈن نے اس ٹیلی وژن بحث کے بارے میں کہا، ''یہ ایک مشکل بحث ہو گی۔ میرا اندازہ ہے کہ وہ سیدھے سیدھے ذاتی حملوں پر اتر آئیں گے۔ وہ بس یہی کام کرنا جانتے ہیں کہ کسی پر ذاتی حملے کیسے کیے جاتے ہیں۔‘‘
اشتہار
مقررین کے طور پر بائیڈن اور ٹرمپ میں کیا فرق ہے؟
جو بائیڈن کے کئی سیاسی حامیوں کے خیال میں کبھی کبھی بات کرتے ہوئے بائیڈن کے منہ سے غلط بات بھی نکل جاتی ہے اور منگل کی شام وہ ٹرمپ کے ساتھ پورے ملک میں براہ راست دیکھی جانے والی پہلی بحث کے دوران اپنے دلائل میں ممکنہ طور پر لڑکھڑا بھی سکتے ہیں۔
دوسری طرف ارب پتی ریپبلکن بزنس مین اور موجودہ صدر ٹرمپ بھی اپنی گفتگو اور دلائل میں غلطیاں تو کر جاتے ہیں، مگر ان کے ساتھ بحث کی اہم بات یہ ہے کہ وہ شعلہ بیانی کی کوشش میں اپنے دلائل میں کافی زیادہ جارحانہ رویہ بھی اپنا لیتے ہیں۔
نازی دور کے پروپیگنڈا امور کے وزیرجوزف گوئبلز، دائیں، نازی جرمن رہنما اڈولف ہٹلر کے ساتھتصویر: dpa/everettcollection
'ٹرمپ حقائق پر بحث کرنا نہیں جانتے‘
نشریاتی ادارے MSNBC کے ساتھ اس انٹرویو میں جو بائیڈن نے دعویٰ کیا، ''وہ (ٹرمپ) حقائق کی بنیاد پر بحث کرنا نہیں جانتے۔ وہ اتنے ہوشیار نہیں ہیں۔ انہیں خارجہ پالیسی کا بھی زیادہ علم نہیں۔ انہیں تو داخلی سیاسی پالیسیوں کا بھی زیادہ پتا نہیں ہے۔ وہ اس بات سے بےخبر ہیں کہ کسی معاملے کی تفصیل کیا اور کتنی اہم ہوتی ہے؟‘‘
اس پس منظر میں سابق نائب صدر بائیڈن نے مزید بتایا، ''اس لیے وہ اس پہلی بحث میں مجھ پر زیادہ تر ذاتی حملے ہی کریں گے اور جھوٹ بولیں گے۔ لیکن میرا خیال ہے کہ امریکی عوام ان (کے اس طرز عمل) پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔‘‘
نازی جرمنی: ہٹلر دورِ حکومت کے چوٹی کے قائدین
جرمن نیشنل سوشلسٹ ورکرز پارٹی نے اپنے نظریات، پراپیگنڈے اور جرائم کے ساتھ بیس ویں صدی کی عالمی تاریخ پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ آئیے دیکھیں کہ اس تحریک میں کلیدی اہمیت کے حامل رہنما کون کون سے تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
جوزیف گوئبلز (1897-1945)
ہٹلر کے پراپیگنڈا منسٹر کے طور پر نازی سوشلسٹوں کا پیغام ’تھرڈ رائش‘ کے ہر شہری تک پہنچانا ایک کٹر سامی دشمن گوئبلز کی سب سے بڑی ذمہ داری تھی۔ گوئبلز نے پریس کی آزادی پر قدغنیں لگائیں، ہر طرح کے ذرائع ابلاغ، فنون اور معلومات پر حکومتی کنٹرول سخت کر دیا اور ہٹلر کو ’ٹوٹل وار‘ یا ’مکمل جنگ‘ پر اُکسایا۔ گوئبلز نے 1945ء میں اپنے چھ بچوں کو زہر دینے کے بعد اپنی اہلیہ سمیت خود کُشی کر لی تھی۔
تصویر: picture-alliance/Everett Collection
اڈولف ہٹلر (1889-1945)
1933ء میں بطور چانسلر برسرِاقتدار آنے سے پہلے ہی جرمن نیشنل سوشلسٹ ورکرز پارٹی (نازی) کے قائد کے ہاں سامی دشمن، کمیونسٹ مخالف اور نسل پرستانہ نظریات ترویج پا چکے تھے۔ ہٹلر نے جرمنی کو ایک آمرانہ ریاست میں بدلنے کے لیے سیاسی ادارے کمزور کیے، 1939ء تا 1945ء جرمنی کو دوسری عالمی جنگ میں جھونکا، یہودیوں کے قتلِ عام کے عمل کی نگرانی کی اور اپریل 1945ء میں خود کُشی کر لی۔
تصویر: picture-alliance/akg-images
ہائنرش ہِملر (1900-1945)
نازیوں کے نیم فوجی دستے ایس ایس (شُٹس شٹافل) کے سربراہ ہِملر نازی جماعت کے اُن ارکان میں سے ایک تھے، جو براہِ راست ہولوکوسٹ (یہودیوں کے قتلِ عام) کے ذمہ دار تھے۔ پولیس کے سربراہ اور وزیر داخلہ کے طور پر بھی ہِملر نے ’تھرڈ رائش‘ کی تمام سکیورٹی فورسز کو کنٹرول کیا۔ ہِملر نے اُن تمام اذیتی کیمپوں کی تعمیر اور آپریشنز کی نگرانی کی، جہاں چھ ملین سے زائد یہودیوں کو موت کے گھاٹ اُتارا گیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
روڈولف ہَیس (1894-1987)
ہَیس 1920ء میں نازی جماعت میں شامل ہوئے اور 1923ء کی اُس ’بیئر ہال بغاوت‘ میں بھی حصہ لیا، جسے اقتدار اپنے ہاتھوں میں لینے کے لیے نازیوں کی ایک ناکام کوشش کہا جاتا ہے۔ جیل کے دنوں میں ہَیس نے ’مائن کامپف‘ لکھنے میں ہٹلر کی معاونت کی۔ 1941ء میں ہَیس کو ایک امن مشن پر سکاٹ لینڈ جانے پر گرفتار کر لیا گیا، جنگ ختم ہونے پر 1946ء میں عمر قید کی سزا سنائی گئی اور جیل ہی میں ہَیس کا انتقال ہوا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
اڈولف آئش مان (1906-1962)
آئش مان کو بھی یہودیوں کے قتلِ عام کا ایک بڑا منتظم کہا جاتا ہے۔ ’ایس ایس‘ دستے کے لیفٹیننٹ کرنل کے طور پر آئش مان نے بڑے پیمانے پر یہودیوں کو مشرقی یورپ کے نازی اذیتی کیمپوں میں بھیجنے کے عمل کی نگرانی کی۔ جرمنی کی شکست کے بعد آئش مان نے فرار ہو کر پہلے آسٹریا اور پھر ارجنٹائن کا رُخ کیا، جہاں سے اسرائیلی خفیہ ادارے موساد نے انہیں پکڑا، مقدمہ چلا اور 1962ء میں آئش مان کو پھانسی دے دی گئی۔
تصویر: AP/dapd
ہیرمان گوئرنگ (1893-1946)
ناکام ’بیئر ہال بغاوت‘ میں شریک گوئرنگ نازیوں کے برسرِاقتدار آنے کے بعد جرمنی میں دوسرے طاقتور ترین شخص تھے۔ گوئرنگ نے خفیہ ریاستی پولیس گسٹاپو کی بنیاد رکھی اور ہٹلر کی جانب سے زیادہ سے زیادہ نا پسند کیے جانے کے باوجود جنگ کے اختتام تک ملکی فضائیہ کی کمان کی۔ نیورمبرگ مقدمات میں گوئرنگ کو سزائے موت سنائی گئی، جس پر عملدرآمد سے ایک رات پہلے گوئرنگ نے خود کُشی کر لی۔
تصویر: Three Lions/Getty Images
6 تصاویر1 | 6
ہٹلر کے وزیر گوئبلز سے موازنہ
اس انٹرویو میں جو بائیڈن نے ڈونلڈ ٹرمپ کا موازنہ نازی رہنما اڈولف ہٹلر کے پروپیگنڈا وزیر جوزف گوئبلز سے بھی کیا۔ گوئبلز کے بارے میں مشہور ہے کہ اس نازی وزیر کی سوچ یہ تھی کہ جھوٹ اتنا بولو، اتنا بولو کہ وہ سچ محسوس ہونے لگے۔ اسی تناظر میں بائیڈن نے کہا، ''وہ گوئبلز کی طرح ہیں۔ پہلے کافی زیادہ جھوٹ بولو، پھر اسے دہراتے جاؤ، دہراتے ہی جاؤ، یہاں تک کہ یہ جھوٹ عوامی علم و شعور کا حصہ بن جائے۔‘‘
جو بائیڈن نے ڈونلڈ ٹرمپ کے بارے میں اپنے موقف کا میزانیہ ان الفاظ میں پیش کیا، ''ایسا نہیں ہے کہ وہ جو کریں گے، وہ میرے کوئی حیرانی کی بات ہو گی۔ نہیں! میں بالکل تیار ہوں کہ لوگوں کو اپنی سوچ سے آگاہ کر سکوں کہ میری رائے میں ٹرمپ سیاسی طور پر کیوں ناکام ہوئے ہیں؟ میرے پاس ان تمام سوالات کے جوابات بھی ہیں کہ اب امریکی عوام اور امریکی معیشت کو آگے کیسے بڑھنا چاہیے، تاکہ ہم داخلی کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی سطح پر بھی زیادہ محفوظ ہو سکیں۔‘‘
م م / ع س (اے ایف پی، اے پی)
ٹرمپ دنيا بھر ميں کس کس سے ناراضی مول لیے بيٹھے ہيں!
مسائل داخلی ہوں يا بين الاقوامی امريکی صدر ٹرمپ کے ان سے نمٹنے کے انداز کو متنازعہ خیال کیا جاتا ہے۔ يہی وجہ ہے کہ روايتی حريف روس اور چين ہی نہيں بلکہ يورپی يونين جيسے قريبی اتحادی بھی ٹرمپ سے نالاں دکھائی دیتے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/N. Kamm
پاکستان اور امريکا، ايک پيچيدہ رشتہ
ڈونلڈ ٹرمپ نے رواں سال کے آغاز پر اپنی ٹوئيٹس ميں پاکستان پر شديد تنقيد کی۔ انتظاميہ چاہتی ہے کہ اسلام آباد حکومت ملک ميں دہشت گردوں کی پناہ گاہوں کے خلاف زيادہ موثر کارروائی کرے۔ دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کے حلیفوں پاکستان اور امريکا کے بيچ فاصلے بڑھتے جا رہے ہيں۔ ستمبر 2018ء ميں امريکی وزير خارجہ کے دورے سے بھی زيادہ فرق نہيں پڑا۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Hassan
اقتصادی جنگ ميں چين اور امريکا ميں مقابل
روسی ہتھياروں کی خريداری پر امريکا نے چينی فوج پر ستمبر 2018ء ميں تازہ پابندياں عائد کيں۔ جواباً چين نے دھمکی دی کہ پابندياں خنم کی جائيں يا پھر امريکا اس کا خميازہ بھگتنے کے ليے تيار رہے۔ چين اور امريکا کے مابين يہ واحد تنازعہ نہيں، دنيا کی ان دو سب سے بڑی اقتصادی قوتوں کے مابين تجارتی جنگ بھی جاری ہے۔ دونوں ممالک ايک دوسرے کی درآمدات پر اضافی محصولات عائد کرتے آئے ہيں۔
تصویر: picture-alliance/newscom/S. Shaver
روس کے ساتھ بھی چپقلش
ادھر روس نے کہا ہے کہ ’امريکا آگ سے کھيل رہا ہے‘ اور اس سے عالمی امن و استحکام کو خطرہ لاحق ہے۔ يہ بيان روس کے خلاف امريکی پابنديوں کے تناظر ميں سامنے آيا۔ امريکا اور روس کے مابين ان دنوں شام، يوکرائن، امريکی صدارتی انتخابات ميں مبينہ مداخلت، سائبر جنگ اور کئی ديگر اہم امور پر سنگين نوعيت کے اختلافات پائے جاتے ہيں۔ کئی ماہرين کے خیال میں اس وقت ’ايک نئی سرد جنگ‘ جاری ہے۔
اسرائيل اور فلسطين کے مابين تنازعے ميں بھی ٹرمپ کے کردار پر سواليہ نشان لگايا جاتا ہے۔ پچھلے سال کے اواخر ميں جب ٹرمپ انتظاميہ نے يروشلم کو اسرائيل کا دارالحکومت تسليم کيا، تو اس کا عالمی سطح پر رد عمل سامنے آيا اور خطہ اس کے نتائج آج تک بھگت رہا ہے۔ يورپی رياستيں اس پرانے مسئلے کے ليے دو رياستی حل پر زور ديتی ہيں، ليکن ٹرمپ کے دور ميں دو رياستی حل کی اميد تقريباً ختم ہو گئی ہے۔
تصویر: Imago/ZumaPress
اتحاديوں ميں بڑھتے ہوئے فاصلے
ٹرمپ کے دور ميں واشنگٹن اور يورپی يونين کے تعلقات بھی کافی حد تک بگڑ چکے ہيں۔ معاملہ چاہے تجارت کا ہو يا ايران کے خلاف پابنديوں کی بحالی کا، برسلز اور واشنگٹن کے نقطہ نظر مختلف ہوتے ہيں۔ امريکی صدر مہاجرين کے بحران، بريگزٹ، يورپی يونين ميں سلامتی کی صورتحال، يورپ ميں دائيں بازو کی قوتوں ميں اضافہ و مغربی دفاعی اتحاد نيٹو کے بجٹ جيسے معاملات پر يورپی قيادت کو کافی سخت تنقيد کا نشانہ بنا چکے ہيں۔
جی سيون بھی تنازعے کی زد ميں
اس سال جون ميں کينيڈا ميں منعقد ہونے والی جی سيون سمٹ تنقيد، متنازعہ بيانات اور الزام تراشی کا مرکز بنی رہی۔ ٹرمپ نے اس اجلاس کے اختتام پر مشترکہ اعلاميے پر دستخط کرنے سے انکار کر ديا، جس پر تقريباً تمام ہی اتحادی ممالک کے رہنماؤں نے ٹرمپ کے اس رويے کی مذمت کی۔ کيوبک ميں ہونے والی جی سيون سمٹ کے بعد ميزبان ملک کے وزير اعظم جسٹن ٹروڈو اور ٹرمپ کے مابين لفظوں کی ايک جنگ بھی شروع ہو گئی تھی۔