ٹرکش لیرا کی قدر میں ریکارڈ کمی، مرکزی بینک کا گورنر برطرف
7 نومبر 2020
ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے ملکی کرنسی لیرا کی قدر میں ریکارڈ حد تک کمی کے بعد ٹرکش مرکزی بینک کے گورنر کو برطرف کر دیا ہے۔ کل جمعے کو ترک لیرا کی قدر مزید کم ہو کر ساڑھے آٹھ لیرا فی امریکی ڈالر کی حد بھی پار کر گئی تھی۔
اشتہار
استنبول سے ہفتہ سات نومبر کو ملنے والی رپورٹوں کے مطابق صدر ایردوآن نے جمعہ چھ نومبر کو رات گئے ایک صدارتی حکم نامے کے ذریعے ٹرکش سینٹرل بینک کے گورنر مراد اُوئیسال کو ان کے عہدے سے ہٹا دیا۔ وہ گزشتہ برس جولائی سے مرکزی بینک کے صدر چلے آ رہے تھے۔
مراد اُوئیسال کی جگہ ناجی اقبال کو مرکزی بینک کا نیا صدر نامزد کیا گیا ہے، جو ایک سابق وزیر خزانہ ہیں۔ ترکی کے سرکاری گزٹ میں مرکزی بینک کے صدر کی تبدیلی سے متعلق شائع ہونے والے نوٹیفیکیشن میں مراد اُوئیسال کی ان کے عہدے سے برطرفی کی کوئی وجہ نہیں بتائی گئی۔
لیرا کی قدر میں مسلسل کمی
ترک کرنسی لیرا کی قدر میں گزشتہ کئی ہفتوں سے مسلسل کمی ہو رہی تھی اور کل جمعے کے روز لیرا کی قیمت ریکارڈ حد تک کم ہو کر 8.576 لیرا فی امریکی ڈالر کے برابر ہو گئی تھی۔ اس طرح ٹرکش لیرا دنیا کی ابھرتی ہوئی معیشتوں کی سب سے بری کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والی کرنسیوں میں سے ایک بن گیا تھا۔
صدر رجب طیب ایردوآن نے مراد اُوئیسال کو گزشتہ برس ملکی سینٹرل بینک کا گورنر اس وقت بنایا تھا، جب وہ اس بینک کے نائب صدر تھے۔ تب ان کے پیش رو مراد چیتِن کایا کو صدر ایردوآن نے یہ کہہ کر ان کے عہدے سے برخاست کر دیا تھا کہ انہوں نے بینک کی مقرر کردہ شرح سود سے متعلق صدر ایردوآن کی ہدایات پر عمل نہیں کیا تھا۔
'شیطانی مثلث کے خلاف اقتصادی جنگ‘
قدامت پسند اسلامی سوچ کے حامل صدر ایردوآن نے ابھی حال ہی میں کہا تھا کہ ترکی کو 'شرح سود، کرنسی کی شرح تبادلہ اور افراط زر کے مسائل کو ملا کر بننے والی ایک شیطانی مثلث کے خلاف اقتصادی جنگ‘ کا سامنا ہے۔
مرکزی بینک کے نئے گورنر ناجی اقبال2015ء سے لے کر 2018ء تک ملکی وزیر خزانہ رہے تھے۔ 2018ء سے لے کر اب تک وہ ترک دفتر صدارت میں بجٹ اور اسٹریٹیجی امور کے ڈائریکٹوریٹ کے سربراہ چلے آ رہے تھے۔
ترکی میں ماضی میں پارلیمانی جمہوری نظام رائج تھا۔ 2018ء میں اس نظام کی جگہ صدارتی جمہوری نظام نے لے لی تھی۔ جب سے ایردوآن ملک کے ایگزیکٹیو صدر بنے ہیں، تب سے انہیں یہ اختیار بھی حاصل ہے کہ وہ ملکی وزراء اور عدلیہ کے اعلیٰ ارکان کو خود ان کے عہدوں پر نامزد کر سکیں۔
م م / ع ت (ڈی پی اے، اے پی)
ترک لیرا کا بحران ہے کیا؟
ترک کرنسی کی قدر میں کمی ترکی کو قرضوں اور مالی ادائیگیوں کے بحران کی جانب لے جا رہی ہے۔ اس پکچر گیلری میں دیکھیے کہ ترک کرنسی اپنے ان بحرانی حالات تک کیسے پہنچی۔
تصویر: picture-alliance/A.Gocher
ایک واضح تصویر
ترکی میں کرنسی کے بحران کے بعد اقتصادی کرب کی کیفیت پیدا ہے۔ ترک لیرا رواں برس کے آغاز سے اب تک اپنی قدر پینتالیس فیصد گنوا چکی ہے۔ اس کرنسی کے بحران سے دنیا کی اٹھارہویں بڑی اقتصادیات مالی بحران کی دہلیز پر ہے اور یہ نزاعی صورت حال دوسری ابھرتی اقتصادیات اور یورپ تک پھیل سکتی ہے۔
تصویر: Getty Images/C. Mc Grath
خسارا پورا کرنے کے لیے سرمایے کی ضرورت
ترکی کو روایتی طور پر روزمرہ کے اخراجات کے تناظر میں خسارے کا سامنا ہے۔ برآمدات و درآمدات کے درمیان پیدا مالی تفریق کو ختم کرنے کے لیے بیرونی قرضوں کا سہارا لیا جاتا رہا ہے۔ سن 2008 میں امریکا اور یورپ میں پائے جانے والے مالی بحران کے بعد سرمایہ کاروں کو بھاری منافع کے لیے ترکی جیسے ممالک کی ضرورت تھی۔
تصویر: AP
ادھاری شرح پیداوار
بین الاقوامی سرمایے کی قوت پر ترکی کے مالی خسارے کو کم کرنے کے علاوہ بھاری حکومتی اخراجات کو جاری رکھنے اور اداروں کو مالی رقوم کی فراہمی کی گئی۔ قرضوں پر انحصار کرتی شرح پیداوار نے ترک اقتصادیات کو قوت فراہم کی اور حکومت کی مقبولیت میں اضافے کے لیے بڑے تعمیراتی منصوبوں کو فروغ دیا گیا۔ کسی بھی مقام پر اس تیز عمل کو قدرے کم رفتار دینے کی ہمت حکومتی ایوانوں سے سامنے نہیں آئی۔
تصویر: Getty Images/AFP/O. Kose
ابھرتی اقتصادیات کے تشخص میں کمی
سرمایہ کاروں نے حالیہ کچھ عرصے سے بتدریج ابھرتی اقتصادیات کے حامل ملکوں میں سے اپنے سرمایے کو نکالنے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ امریکی اقتصادیات میں زورآور ترقی کے بعد امریکا کے مرکزی بینک نے شرح سود میں اضافہ اور آسان مالیاتی پالیسیوں کو ترک کرنا شروع کر دیا۔ اس بنیادی فیصلے سے امریکی ڈالر کی قدر بلند ہوئی اور دوسری جانب ترک لیرا کی قدر گر گئی، اس نے ترک معاشی افزائشی عمل کو بھی روک دیا۔
تصویر: Getty Images/S. Platt
ایردوآن پر عوامی اعتماد میں کمی
ابھرتی اقتصادیات میں ترک کرنسی لیرا کی قدر میں کمی انتہائی زیادہ ہونے پر عالمی معاشی منظر پر نمایاں بھی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ سرمایہ کاروں کا ایردوآن حکومت میں اقتصادی بدنظمی خیال کی گئی ہے۔ ایسا کہا جا رہا ہے کہ ایردوآن اقتصادی پالیسیوں میں جدت پر یقین نہیں رکھتے۔
تصویر: Getty Images/AFP/B. Kilic
ٹرمپ کے ٹویٹ نے ہلچل پیدا کر دی
دس اگست کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ترک فولاد اور ایلومینیم پر درآمدی محصولات میں اضافہ کر دیا۔ بظاہر یہ محصولات کم نوعیت کے ہیں لیکن کے اثرات کا حجم بہت وسیع ہے یعنی ایک ارب ڈالر کے قریب ہے۔ اس فیصلے نے ترک اقتصادیات میں دراڑیں ڈال دیں۔ اس کے بعد ٹرمپ نے ٹویٹ کیا کہ امریکی ڈالر کے مقابلے میں ترک لیرا اپنی حیثیت کھو رہا ہے۔
تصویر: Twitter/Trump
دوستی سے دشمنی
امریکی پادری اینڈریو برونسن کی گرفتاری اور جیل میں مقید رکھنے نے ترک امریکی تعلقات کو شدید انداز میں متاثر کیا۔ مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کے اتحادیوں کے درمیان اختلاف کی ایک اور وجہ شامی کردوں کی امریکی حمایت بھی ہے۔ دیگر نزاعی معاملات میں انقرہ حکومت کی روس سے میزائل نظام کی خرید اور امریکا کا جلاوطن مبلغ فتح اللہ گولن کو ترکی کے حوالے نہ کرنا بھی اہم ہیں۔
تصویر: Reuters/K. Lemarque
فرد واحد کی حکمرانی
ترک کرنسی لیرا کی قدر میں رواں برس جون کے بعد تیس فیصد کی کمی اور بازارِ حصص میں مالی بحران پیدا ہوا۔ اسی ماہِ جون میں رجب طیب ایردوآن نے مئی کے انتخابات کے بعد انتہائی قوت اور اختیارات کے حامل صدر کا منصب سنبھالا۔ اس مطلق العنانیت نے ترکی کو اپنے یورپی اتحادیوں سے دور کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/E. Gurel
ترک صدر کا داماد: البیراک
جون میں منصبِ صدارت سنبھالنے کے بعد رجب طیب ایردوآن نے وزارت مالیات کسی ٹیکنو کریٹ کو دینے کے بجائے اپنے داماد بیرات البیراک کوسونپ دی۔ ترک وزارت مالیات کے دائرہٴ کار و اختیارات میں بھی ایردوآن کے حکم پر اضافہ کیا گیا۔ اس فیصلے نے بھی ترک مرکزی بینک کی آزادی کو محدود کر دیا۔
تصویر: picture-alliance/M. Alkac
’اقتصادی جنگ‘
ترک صدر ایردوآن کے اعتماد میں ملکی کرنسی لیرا کی قدر میں شدید کمی پر بھی کوئی اثر نہیں ہوا۔ انہوں نے اپنی تقاریر میں ترکی کو کمزور کرنے کے اقدامات کو ’اقتصادی جنگ‘ سے تعبیر کیا۔ انٹرنینشل مانیٹری فنڈ سے مدد طلب کرنے یا شرح سود میں اضافہ کرنے جیسے اقدامات کی جگہ وہ زوردار تقاریر پر تکیہ کیے ہوئے ہیں۔