جرمن پولیس نے آٹو بان (موٹر وے) پر ایک ٹرک کو روک کر تلاشی لی تو اس کے ایک مختصر حصے میں 51 تارکین وطن چھپے ہوئے تھے۔ پولیس نے ترکی سے تعلق رکھنے والے ٹرک ڈرائیور کو انسانوں کی اسمگلنگ کے الزام میں حراست میں لے لیا۔
اشتہار
وفاقی جرمن پولیس کا کہنا ہے کہ ہفتہ سولہ ستمبر کی صبح جرمنی کے مشرقی حصے میں سے گزرنے والی موٹر وے پر روانہ ایک ٹرک کو روک کر اُس کی تلاشی لی گئی۔ تلاشی کے دوران پولیس کو اس ٹرک کے پیچھے نصب کنٹینر کے ایک مختصر حصے میں اکاون تارکین وطن کو چھپا کر بٹھایا ہوا تھا۔
مال بردار ٹرینوں میں چھپے مہاجرین کیسے پکڑے جاتے ہیں؟
01:50
ٹرک پر لدے سامان کے پیچھے مختصر حصے میں چھپائے گئے ان تارکین وطن میں 34 بالغوں کے علاوہ سترہ بچے بھی موجود تھے۔ بالغ افراد میں چودہ خواتین اور بیس مرد شامل تھے جب کہ نابالغوں میں بھی سات کم سن بچے اور دس بچیاں تھیں۔
وفاقی جرمن پولیس کا کہنا ہے کہ جب ان تارکین وطن کو باہر نکالا گیا تو اس وقت ان میں سے کئی کی حالت غیر ہو چکی تھی۔ کئی گھنٹوں سے ٹرک میں چھپے مہاجر بچوں کے علاوہ کئی بالغ افراد بھی خوراک اور پانی کی قلت کے باعث نڈھال ہو چکے تھے۔
ٹرک سے نکالے جانے کے بعد ان تارکین وطن کو فوری طور پر فرینکفرٹ کے قریب ایک مقام پر منتقل کر دیا گیا جہاں انہیں کھانے پینے کی اشیا کے علاوہ طبی امداد بھی فراہم کی گئی۔
جرمن حکام نے بتایا ہے کہ غیر قانونی طریقے سے جرمنی پہنچنے والے ان تارکین وطن کی اکثریت کا تعلق شورش زدہ ملک عراق سے تھا۔ علاوہ ازیں پناہ کے متلاشی ان افراد میں سے کم از کم ایک شخص نے ستمبر کے آغاز میں رومانیہ میں حکام کو سیاسی پناہ کی اپنی درخواست جمع کرائی تھی۔
برلن کی جانب روانہ اس ٹرک کا ڈرائیور ترک تھا اور یہ ٹرالر بھی ترکی ہی میں رجسٹرڈ تھا۔ پولیس نے ٹرک چلانے والے ترک شہری کو انسانوں کی اسمگلنگ کرنے کے الزام میں گرفتار کر کے تحقیقات شروع کر دی ہیں۔
پاکستانی تارک وطن، اکبر علی کی کہانی تصویروں کی زبانی
اکبر علی بھی ان ہزاروں پاکستانی تارکین وطن میں سے ایک ہے جو مہاجرین کے موجودہ بحران کے دوران جرمنی اور دیگر یورپی ممالک پہنچے۔ اس پرخطر سفر کے دوران علی نے چند مناظر اپنے موبائل فون میں محفوظ کر لیے۔
تصویر: DW/S. Haider
ایران کا ویزہ لیکن منزل ترکی
علی نے پاکستان سے مقدس مقامات کی زیارت کے لیے ایران کا ویزہ لیا۔ ایران سے انسانوں کے اسمگلروں نے اسے سنگلاخ پہاڑوں کے ایک طویل پیدل راستے کے ذریعے ترکی پہچا دیا۔ تین مہینے ترکی کے مختلف شہروں میں گزارنے کے بعد علی نے یونان کے سفر کا ارادہ کیا اور اسی غرض سے وہ ترکی کے ساحلی شہر بودرم پہنچ گیا۔
تصویر: Akbar Ali
میدانوں کا باسی اور سمندر کا سفر
بحیرہ ایجیئن کا خطرناک سمندری سفر سینکڑوں تارکین وطن کو نگل چکا ہے۔ یہ بات علی کو بھی معلوم تھی۔ پنجاب کے میدانی علاقے میں زندگی گزارنے والے علی نے کبھی سمندری لہروں کا سامنا نہیں کیا تھا۔ علی نے اپنے دل سے سمندر کا خوف ختم کرنے کے لیے پہلے سیاحوں کے ساتھ سمندر کی سیر کی۔ پھر درجنوں تارکین وطن کے ہمراہ ایک چھوٹی کشتی کے ذریعے یونانی جزیرے لیسبوس کے سفر پر روانہ ہو گیا۔
تصویر: Akbar Ali
دیکھتا جاتا ہوں میں اور بھولتا جاتا ہوں میں
سمندر کی خونخوار موجوں سے بچ کر جب علی یونان پہنچا تو اسے ایک اور سمندر کا سامنا تھا۔ موسم گرما میں یونان سے مغربی یورپ کی جانب رواں مہاجرین کا سمندر۔ علی کو یہ سفر بسوں اور ٹرینوں کے علاوہ پیدل بھی طے کرنا تھا۔ یونان سے مقدونیا اور پھر وہاں سے سربیا تک پہنچتے پہنچتے علی کے اعصاب شل ہو چکے تھے۔ لیکن منزل ابھی بھی بہت دور تھی۔
تصویر: Akbar Ali
کھنچی ہے جیل کی صورت ہر ایک سمت فصیل
ہزاروں مہاجرین کی روزانہ آمد کے باعث یورپ میں ایک بحرانی کیفیت پیدا ہو چکی تھی۔ علی جب سربیا سے ہنگری کے سفر پر نکلا تو ہنگری خاردار تاریں لگا کر اپنی سرحد بند کر چکا تھا۔ وہ کئی دنوں تک سرحد کے ساتھ ساتھ چلتے ہنگری میں داخل ہونے کا راستہ تلاشتے رہے لیکن ہزاروں دیگر تارکین وطن کی طرح علی کو بھی سفر جاری رکھنا ناممکن لگ رہا تھا۔
تصویر: Akbar Ali
متبادل راستہ: ہنگری براستہ کروشیا
کروشیا اور ہنگری کے مابین سرحد ابھی بند نہیں ہوئی تھی۔ علی دیگر مہاجرین کے ہمراہ بس کے ذریعے سربیا سے کروشیا کے سفر پر روانہ ہو گیا، جہاں سے وہ لوگ ہنگری میں داخل ہونے میں کامیاب ہو گئے۔ ہنگری سے بذریعہ ٹرین علی آسٹریا پہنچا، جہاں کچھ دن رکنے کے بعد وہ اپنی آخری منزل جرمنی کی جانب روانہ ہو گیا۔
تصویر: Akbar Ali
جرمنی آمد اور بطور پناہ گزین رجسٹریشن
اکبر علی جب جرمنی کی حدود میں داخل ہوا تو اسے پناہ گزینوں کی رجسٹریشن کے مرکز لے جایا گیا۔ علی نے جرمنی میں پناہ کی باقاعدہ درخواست دی، جس کے بعد اسے جرمنی کے شہر بون میں قائم ایک شیلٹر ہاؤس پہنچا دیا گیا۔ علی کو اب اپنی درخواست پر فیصلہ آنے تک یہاں رہنا ہے۔ اس دوران جرمن حکومت اسے رہائش کے علاوہ ماہانہ خرچہ بھی دیتی ہے۔ لیکن علی کا کہنا ہے کہ سارا دن فارغ بیٹھنا بہت مشکل کام ہے۔
تصویر: DW/S. Haider
تنہائی، فراغت اور بیوی بچوں کی یاد
علی جرمن زبان سے نابلد ہے۔ کیمپ میں کئی ممالک سے آئے ہوئے مہاجرین رہ رہے ہیں۔ لیکن علی ان کی زبان بھی نہیں جانتا۔ اسے اپنے بچوں اور بیوی سے بچھڑے ہوئے سات ماہ گزر چکے ہیں۔ اپنے خاندان کا واحد کفیل ہونے کے ناطے اسے ان کی فکر لاحق رہتی ہے۔ اس کا کہنا ہے، ’’غریب مزدور آدمی ہوں، جان بچا کر بھاگ تو آیا ہوں، اب پچھتاتا بھی ہوں، بیوی بچوں کے بغیر کیا زندگی ہے؟ لیکن انہی کی خاطر تو سب کچھ کر رہا ہوں۔‘‘