برطانوی وزیرا عظم مے آج جمعرات کی صبح یورپی دارالحکومت برسلز پہنچ گئی ہیں، جہاں وہ یورپی رہنماؤں سے ملاقاتوں میں اپنی بریگزٹ ڈیل اور سیاسی کیریئر کو بچانے کی کوشش کریں گی۔ اسی ہفتے کے دوران مے کا یہ دوسرا دورہ برسلز ہے۔
اشتہار
خبر رساں ادارے اے ایف پی نے سفارتی ذارئع کے حوالے سے بتایا ہے کہ برطانوی وزیر اعظم ٹریزا مے آج جمعرات 13 دسمبر کی صبح برسلز پہنچی ہیں، جہاں یورپی یونین کی دو روزہ سربراہی سمٹ کا آغاز ہو رہا ہے۔ بدھ کی شب مے کے خلاف اپنی ہی پارٹی کی طرف سے پیش کردہ تحریک عدم اعتماد ناکام ہو گئی تھی۔
تاہم ناقدین کے مطابق قدامت پسند پارٹی میں مے کے خلاف جذبات میں اضافہ ہوا ہے۔ اگرچہ مے نے اپنی پارٹی کے دو سو ممبران کی حمایت حاصل کی لیکن ایک سو سترہ ووٹ ان کے خلاف بھی پڑے۔ اگر قدامت پسند سیاستدان مے کو مسترد کر دیتے تو انہیں وزارت عظمیٰ کے منصب سے دستبردار ہونا پڑ جاتا۔
ناقدین کے مطابق مے کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی ناکامی کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ انہوں نے یہ تسلیم کر لیا تھا کہ وہ دو ہزار بائیس کے الیکشن سے قبل ہی پارٹی کی سربراہی سے الگ ہو جائیں گی۔
برطانوی وزیر اعظم مے نے درخواست کی تھی کہ بریگزٹ تک انہیں ملک کی وزیر اعظم رہنے کا موقع دیا جائے۔ سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق ٹریزا مے سیاسی طور پر زخمی ضرور ہوئی ہیں لیکن ابھی تک ہاری نہیں ہیں۔
برسلز میں یورپی یونین کی سربراہی سمٹ میں اب مے کی کوشش ہو گی کہ یورپی رہنماؤں کا اعتماد بھی جیتا جائے۔ برطانوی وزیر اعظم کی کوشش ہو گی کہ وہ اس دوران بریگزٹ کے بعد آئرلینڈ کی سرحدوں سے متعلق معاملے پر یورپی رہنماؤں کی سیاسی حمایت حاصل کریں۔
ٹرزا مے کے بریگزٹ منصوبے کی مخالفت کرنے والے برطانوی سیاستدان اسی معاملے پر نالاں ہیں۔ اگر مے اس معاملے پر یورپی رہنماؤں کی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئیں تو یہ ایک بڑی پیشرفت ہو گی۔
دوسری طرف یورپی رہنماؤں نے کہہ رکھا ہے کہ وہ بریگزٹ ڈیل پر دوبارہ مذاکرات کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے تاہم اس ڈیل کی تشریح پر بات ہو سکتی ہے۔ ٹریزا مے آج بروز جمعرات برسلز میں یورپی یونین کی رکن ریاستوں کے رہنماؤں سے دوبدو ملاقات میں برطانیہ کے یورپی یونین سے الگ ہونے کے معاملے پر اپنی مشکلات بیان کریں گی۔ اس کے بعد یورپی رہنما مے کی عدم موجودگی میں ان تحفظات پر بحث کریں گے اور کسی نتیجے تک پہنچنے کی کوشش کریں گے۔
یورپی یونین کی سربراہی سمٹ میں اگرچہ زیادہ تر توجہ بریگزٹ معاملے پر ہی مرکوز رہے گی لیکن ساتھ ہی کچھ دیگر معاملات بھی زیر بحث آئیں گے۔ بدھ کے دن ہی جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے کہا کہ یورپی سربراہی سمٹ میں وہ روس پر عائد پابندیوں کی مدت میں توسیع کی وکالت کریں گی۔
ملکی پارلیمان سے خطاب میں انہوں نے کہا کہ ماسکو حکومت کی طرف سے یوکرائنی بحری جہازوں پر قبضے اور اس پر سوار عملے کی گرفتاری کی وجہ سے روس پر پابندیاں قائم رہنا چاہییں۔
ع ب / ا ب ع / خبر رساں ادارے
بائی بائی برطانیہ، ہم جا ر ہے ہیں
برطانوی معیشت بار بار بریگزٹ کے ممکنہ منفی اثرات سے خبردار کرتی رہی ہے۔ حالیہ برطانوی ریفرنڈم میں یورپی یونین چھوڑنے کے فیصلے کے بعد چند ایک کاروباری اور صنعتی ادارے برطانیہ کو خیر باد بھی کہہ سکتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/W. Kumm
ووڈافون
موبائل فون سروسز فراہم کرنے والے دنیا کے اس دوسرے بڑے ادارے کی جانب سے کہا جا رہا ہے کہ برطانیہ کو الوداع کہہ دینا خارج از امکان نہیں ہے اور ممکنہ طور پر یہ ادارہ اپنے ہیڈکوارٹرز جرمن شہر ڈسلڈورف میں منتقل کر دے گا۔ جرمن علاقے رائن لینڈ میں ووڈافون کے نئے کیمپس میں پانچ ہزار ملازمین کی گنجائش ہے۔ پھر یہ بھی ہے کہ جرمنی اس ادارے کی سب سے بڑی منڈی بھی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Hayhow
راین ایئر
پروازوں کی سہولت فراہم کرنے والے اس سب سے بڑے یورپی ادارے کا مرکزی دفتر ویسے تو آئر لینڈ میں ہے لیکن اب تک اس کے زیادہ تر طیارے برطانوی سرزمین پر ہی موجود رہے ہیں تاہم اب یہ صورتِ حال بدلنے والی ہے۔ راین ایئر نے اعلان کیا ہے کہ برطانیہ میں کوئی نیا طیارہ نہیں رکھا جائے گا اور نہ ہی برطانوی ایئر پورٹس سے راین ایئر کے کوئی نئے رُوٹ متعارف کرائے جائیں گے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Scholz
ایزی جیٹ
سستی پروازوں کی سہولت فراہم کرنے والی اس دوسری بڑی یورپی کمپنی کا شمار اُن کاروباری اداروں میں ہوتا ہے، جو یورپ میں آج کل سب سے زیادہ منافع میں جا رہے ہیں۔ سرِد ست اس ادارے کا مرکزی دفتر لندن میں ہے لیکن کب تک؟ رواں ہفتے اس ادارے کی مجلس عاملہ کی خاتون سربراہ کیرولین میکال نے بڑے ٹھنڈے انداز میں کہا، ’دیکھیں کیا ہوتا ہے؟‘
تصویر: Getty Images/AFP/F. Guillot
ورجن
رچرڈ برینسن برطانیہ کے مشہور ترین آجرین میں سے ایک ہیں۔ بریگزٹ ریفرنڈم کے نتائج پر اُن کا تبصرہ تھا: ’’ہم ایک تباہی کی جانب بڑھ رہے ہیں۔‘‘ تئیس جون کے ریفرنڈم کے بعد بازار حصص میں اُن کی کمپنی ورجن کے شیئرز کی قیمتوں میں ایک تہائی کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔ برینسن کا مطالبہ ہے کہ یہی ریفرنڈم ایک بار پھر منعقد کرایا جائے۔
تصویر: Getty Images/AFP/D. Leal-Olivas
جے پی مارگن
اس سب سے بڑے امریکی بینک کی لندن شاخ میں سولہ ہزار ملازمین کام کرتے ہیں۔ اب یہ بینک اپنے کاروبار کے ایک حصے کو برطانیہ سے کہیں اور منتقل کرنے کے بارے میں سوچ رہا ہے۔ اس بینک کے سربراہ جیمی ڈائمن نے ریفرنڈم سے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ ایک سے لے کر چار ہزار تک آسامیاں کہیں اور منتقل کی جا سکتی ہیں۔
تصویر: Getty Images/C.Gillon
ویزا
کریڈٹ کارڈ کی سہولت فراہم کرنے والے اس ادارے کے پاس برطانیہ میں اپنی سینکڑوں ملازمتیں ختم کرنے کے سوا غالباً کوئی چارہ ہی نہیں ہے۔ یورپی یونین کی شرائط میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ایسے کسی ادارے کا ڈیٹا یورپی یونین کے کسی رکن ملک کے اندر پڑا ہونا چاہیے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ لندن میں اس ادارے کے ڈیٹا سینٹر کو بند کرنا پڑے گا۔
تصویر: Imago
فورڈ
اس امریکی کار ساز ادارے کے لیے برطانیہ یورپ میں ایک ’کلیدی منڈی‘ کی حیثیت رکھتا ہے اور ادارے نے اس بات کا بار بار اظہار بھی کیا ہے۔ ڈیگنہیم میں واقع فورڈ کا کارخانہ جرمن پیداواری مراکز کو انجن اور دیگر پُرزہ جات بھی فراہم کرتا ہے۔ بریگزٹ ریفرنڈم کے بعد اس ادارے کی جانب سے کہا گیا کہ یہ ادارہ ایسے تمام ضروری اقدامات کرے گا، جن سے اس کی مقابلہ بازی کی صلاحیت کو برقرار رکھا جا سکتا ہو۔
تصویر: picture-alliance/dpa
جیگوار لینڈ رووَر
لیکن ایسا نہیں ہے کہ سبھی ادارے ہی مایوس ہیں۔ جیگوار لینڈ رووَر کے اسٹریٹیجی کے شعبے کے سربراہ ایڈریان ہال مارک نے کہا، ’’ہم برطانوی ہیں اور برطانیہ کا ساتھ دیں گے۔‘‘ ہال مارک نے یقین دلایا کہ کاروبار معمول کے مطابق جاری ہے۔ شاید وہ بھی یہ بات جانتے ہیں کہ کم از کم اگلے دو سال تک برطانیہ بدستور یورپی یونین کا ہر لحاظ سے مکمل رکن رہے گا۔