ٹرین کتنی لیٹ تھی، اسکارف ساڑھے سات ہزار یورو میں نیلام ہوا
15 جنوری 2019
جرمنی میں ایک مسافر خاتون کی طرف سے بُنا گیا ایک منفرد اسکارف ساڑھے سات ہزار یورو سے زائد رقم کے عوض نیلام ہوا۔ مختلف رنگوں کی پٹیوں والے کافی لمبے اسکارف کی خاص بات یہ ہے کہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ کس دن ٹرین کتنی لیٹ تھی۔
اشتہار
رنگ برنگی پٹیوں والے ڈیزائن کا یہ اونی اسکارف ایک ایسی جرمن خاتون نے بنایا تھا، جو باقاعدگی سے ٹرین پر سفر کرتی تھیں۔ جرمنی کی سب سے بڑی ریلوے کمپنی ڈوئچے باہن کی اس خاتون مسافر نے اس اسکارف یا مفلر کا ڈیزائن اس حقیقت کو مد نظر رکھتے ہوئے تیا رکیا کہ کس دن ان کی ریل گاڑی اپنے مقررہ وقت سے کتنی لیٹ تھی۔
اس طرح اس اسکارف کی ہر پٹی یہ ظاہر کرتی ہے کہ اپنے روزگار کے سلسلے میں ریل کا سفر کرنے والی اس خاتون کا صرف ایک سال 2018ء میں گاڑی لیٹ ہو جانے کی وجہ سے کتنا وقت ضائع ہوا۔ یہ اسکارف آن لائن نیلام گھر ’ای بے‘ پر 7550 یورو یا قریب 8660 امریکی ڈالر کے برابر قیمت کے عوض پیر چودہ جنوری کو نیلام ہوا۔ متعلقہ خاتون مسافر یہ رقم ایک خیراتی ادارے کو عطیہ کر دے گی۔
پانچ میٹر لمبا اسکارف
eBay پراس اسکارف کو خریدنے کے خواہش مند افراد کی تعداد 45 تھی، جنہوں نے اس کے لیے کُل 134 مرتبہ بولی لگائی اور آخری بولی لگانے والے خریدار نے ساڑھے سات ہزار یورو سے زائد کے عوض یہ 1.5 میٹر (5 فٹ) لمبا اسکارف خرید لیا۔
اس مفلر کو بُننے والی خاتون کی بیٹی اور جرمن خاتون صحافی زارا ویبر نے بعد ازاں بتایا، ’’میری والدہ نے یہ اسکارف جنوبی جرمن شہر میونخ اور اس کے نواحی علاقے کے درمیان روزانہ ریل کے سفر کے دوران بُنا۔ وہ ہر روز اس مفلر کی دو پٹیاں بُنتی تھیں۔ گاڑی پانچ منٹ سے کم لیٹ ہوتی تو پٹی کا رنگ سرمئی ہوتا اور اگر تاخیر پانچ منٹ اور آدھ گھنٹے کے درمیان ہوتی، تو نئی پٹی کا رنگ گلابی ہوتا۔‘‘
’’جس روز ان کی گاڑی آدھ گھنٹے سے بھی زیادہ لیٹ ہوتی یا پھر آتے اور جاتے ہوئے دونوں طرف کے سفر کے لیے ہی ریل گاڑی تاخیر سے اپنی منزل پر پہنچتی، تو پھر اس دن اس اسکارف کی نئی پٹی کا رنگ سرخ ہوتا تھا۔‘‘
عام صارفین کی دلچسپی
زارا ویبر کے مطابق جب انہوں نے اس اسکارف کی فوٹو پہلی بار ٹوئٹر پر پوسٹ کی، تو عام جرمن صارفین کی اس میں دلچسپی اتنی زیادہ تھی کہ انہوں نے اور ان کی والدہ نے یہ اسکارف نیلام کرنے کا فیصلہ کر لیا۔
ویبر نے بتایا کہ ان کی والدہ نے شروع ہی سے یہ فیصلہ کر لیا تھا کہ اس اسکارف کی نیلامی سے حاصل ہونے والی رقم Bahnhofsmission یا ’ریلوے اسٹیشن مشن‘ نامی خیراتی ادارے کو عطیہ کر دی جائے گی۔ یہ امدادی تنظیم جرمنی کے تقریباﹰ سبھی شہروں کے مرکزی ریلوے اسٹیشنوں پر اپنی قائم کردہ عارضی آرام گاہوں کے ذریعے ضرورت مند افراد اور مسافروں کی مدد کرتی ہے۔
وہ ممالک جہاں ریلوے نظام موجود ہی نہیں
ریلوے نظام کسی بھی ملک میں ذرائع آمد و رفت کا ایک اہم ذریعہ سمجھا جاتا ہے اور اقتصادی استحکام اور ترقی کے لیے بھی بنیادی ضرورت قرار دیا جاتا ہے، مگر دنیا میں کئی ایسے ممالک بھی ہیں جہاں ریلوے نظام سرے سے موجود ہی نہیں۔
تصویر: DW/D. Hermann
کویت
تصویر: picture-alliance/robertharding/G. Hellier
عمان
تصویر: imago/Anka Agency Internationa
بھوٹان
تصویر: DW/M.M. Rahman
یمن
تصویر: DW/Saeed Alsoofi
لیبیا
تصویر: Reuters/H. Amara
قطر
تصویر: picture-alliance/dpa
روانڈا
تصویر: Imago/Xinhua/Lyu Tianran
آئس لینڈ
آئس لینڈ
تصویر: Imago/Kyodo News
پاپوا نیو گِنی
تصویر: picture-alliance/robertharding/J. Morgan
مکاؤ
مکاؤ
تصویر: picture-alliance
مالٹا
تصویر: Nilufar Keivan
ہیٹی
تصویر: Getty Images/AFP/G. Robind
صومالیہ
تصویر: DW
سرینام
تصویر: picture-alliance/dpa
نائجر
تصویر: Reuters/Akintunde Akinleye
چاڈ
تصویر: imago/CHROMORANGE
قبرص
تصویر: picture-alliance/AP Photo
مشرقی تیمور
تصویر: picture-alliance/dpa
گِنی بساؤ
تصویر: DW/Braima Darame
مارشل آئی لینڈ
تصویر: Imago/robertharding
ماریشس
تصویر: Imago
انڈورا
تصویر: dpa - Bildarchiv
ٹرینیڈاڈ اینڈ ٹوباگو
تصویر: DW/B. Sezen
مائیکرونیشیا
تصویر: picture-alliance/robertharding/M. Runkel
سان مارینو
تصویر: Reuters/M. Rossi
سولومن آئی لینڈ
تصویر: Beni Knight
ٹونگا
تصویر: E. Pickles/Fairfax Media/Getty Images
تووالو
تصویر: picture-alliance/Kyodo
وانواتو
تصویر: DW/D. Hermann
29 تصاویر1 | 29
یورپ کی سب سے بڑی ریل کمپنی
جرمنی کی سب سے بڑی ریل کمپنی ڈوئچے باہن یورپ کا سب سے بڑا ریلوے ادارہ بھی ہے۔ جرمن اخبار ’بلڈ ام زونٹاگ‘ کے مطابق اس کمپنی نے اتوار تیرہ جنوری کو بتایا تھا کہ وہ اپنی ریل گاڑیوں کی آمد و رفت کے نظام الاوقات کو مزید بہتر بنانے اور تاخیر سے چھٹکارے کے لیے ’ٹائم ٹیبل کی پابندی کو یقینی بنانے والا ایک نیا اعلیٰ اہلکار‘ نامزد کر چکی ہے۔
2018ء میں اس کمپنی کی ہر چوتھی مسافر ٹرین تاخیر کا شکار ہوئی تھی۔ اس کے علاوہ گزشتہ برس اگست میں خود ڈوئچے باہن (Deutsche Bahn) یا DB نے یہ اعتراف بھی کیا تھا کہ تب اسی کمپنی کی انتہائی تیز رفتار انٹرسٹی ایکسپریس یا ICE نامی ریل گاڑیوں میں سے بھی ہر تیسری ٹرین تاخیر سے اپنی منزل پر پہنچی تھی۔
لوئیزا رائٹ، ڈی پی اے / م م / ع ت
برلن اور میونخ کے درمیان تیز رفتار ٹرین لائن کا افتتاح
پچیس سال کی مسلسل محنت شاقہ اور اربوں یورو کی لاگت سے آخری ’ جرمن یونیٹی ٹرانسمیشن پراجیکٹ‘ بالآخر مکمل ہو گیا ہے۔ جرمنی کے شہروں میونخ اور برلن کے درمیان ہائی سپیڈ ریلوے لائن کھول دی گئی ہے۔
تصویر: Deutsche Bahn/Foto: Detlev Wecke
ایک عظیم الشان منصوبہ
پچیس سال پہلے آغاز ہوئے میونخ برلن ٹرین لائن منصوبے کو بہت تنقید کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ مثال کے طور پر یہ کہا گیا کہ یہ منصوبہ ٹیکس ادا کرنے والوں کی آمدنی ضائع کرنے کے مترادف ہے۔ بہرحال اب ’ وی ڈی ای 8‘ نامی یہ منصوبہ پایہ تکمیل کو پہنچ چکا ہے اور دس دسمبر سے اس ٹرین کے ذریعے سفر کا وقت دو گھنٹےکم ہو کر چار گھنٹے کے لگ بھگ ہو گیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/ZB/J. Woitas
مسافروں کے لیے پر کشش
ڈوئچے بان کی کوشش ہے کہ ٹرین کے سفر کو مسافروں کے لیے بجٹ ایئر لائنوں اور بسوں کے مقابلے میں زیادہ سے زیادہ پر کشش بنایا جائے۔ فی الحال اس روٹ پر ٹرین ٹرانسپورٹ کا شیئر بیس فیصد ہے جسے ڈوئچے بان اسے پچاس فیصد تک بڑھانا چاہتی ہے۔
تصویر: Deutsche Bahn AG/Frank Barteld
پُل اور سرنگیں
میونخ اور برلن کے درمین نئے ٹرین روٹ کے لیے قریب ریل کے لیے تین سو جبکہ سڑکوں پر 170 پُل تعمیر کیے گئے۔ اس ریلوے ٹریک پر چلنے والی ٹرینیں سرنگوں سے 300 کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے سفر کرتی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Schutt
چند مزید جھلکیاں
اس ریلوے ٹریک پر دن میں تین مرتبہ انٹر سٹی ایکسپریس ٹرینیں دونوں سمتوں میں چلتی ہیں اور دونوں شہروں کے درمیان فاصلہ چار گھنٹے سے بھی کم وقت میں طے کر لیتی ہیں۔ ریگولر انٹر سٹی ایکسپریس ٹرینیں یہ فاصلہ ساڑھے چار گھنٹے میں طے کرتی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
مہنگے ٹکٹ
ریلوے ٹریک کی تعمیر پر آئی لاگت کو کسی نہ کسی شکل میں وصول کیا جائے گا۔ تیز رفتار ٹرینوں میں مسافروں کے لیے دلچسپی پیدا کرنا ایک حکمت عملی ہے اور ٹکٹ کی قیمتیں بڑھانا دوسری۔ ڈوئچے بان کے تخمینے کے مطابق میونخ اور برلن کے ایک ٹرپ کے لیے مسافروں کو فی کس 150 یورو خرچ کرنے ہوں گے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Woitas
لاکھوں یورو ماحول کے لیے بھی
ماحول کے لیے جرمنی کے وفاقی ادارے نے ریلوے ٹریک کی تعمیر سے ماحول پر پڑنے والے منفی اثرات پر تنقید کی ہے تاہم ڈوئچے بان کا دعوی ہے کہ اُس نے چار ہزار ہیکٹر رقبے پر دوبارہ کاشت کی ہے اور چھ لاکھ درخت لگائے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Woitas
زمین کے نیچے چلنے والی مال بردار ٹرینیں
نیورمبرگ مال برادر سرگرمیوں کا بڑا مرکز ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نیورمبرگ اور فیُورتھ کا درمیانی روٹ جرمنی کا مصروف ترین ٹرین ٹریک ہے۔ اب تیرہ کلو میٹر طویل کارگو ٹرین ٹریک نے اس مشکل کو خاصا آسان بنا دیا ہے۔
تصویر: DB AG
جہاز کے بجائے ٹرین کا سفر
اب ڈوئچے بان کے سامنے بڑا چیلنج لوگوں کو اس پر آمادہ کرنا ہے کہ وہ بسوں اور فضائی سفر کے بجائے ٹرینوں کا انتخاب کریں۔ اگر ٹرینیں اپنے نظام الاوقات کی پابندی کریں تو یہ کام کچھ ایسا مشکل بھی نہیں۔