1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ٹماٹر: پاک بھارت کشیدگی کی زد میں

29 ستمبر 2018

ایک ایسے وقت میں جب پاکستان میں ٹماٹروں کی کمیابی کی وجہ سے ان کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں، بھارت میں ٹماٹروں کی پیداوار میں اضافے کی وجہ سے ان کی قیمتیں انتہائی کم ہو گئی ہیں۔

Gemüse
تصویر: DW/T. Shahzad

ٹماٹر ایک اہم سبزی ہے جو نہ صرف کھانوں کا ذائقہ دوبالا کرنے کے کام آتی ہے بلکہ اس کے بغیر سلاد کو بھی نا مکمل خیال کیا جاتا ہے۔ طبی ماہرین کہتے ہیں کہ ٹماٹر کھانے سے نہ صرف کئی بیماریوں سے بچا جا سکتا ہے بلکہ یہ متعدد امراض سے شفایابی کا ذریعہ بھی ہیں۔ لیکن ان دنوں یہ پھل پاک بھارت کشیدہ تعلقات کی زد میں آ کر موضوع بحث ہے۔

’پاکستان فوڈ اینڈ ویجیٹیبلز امپورٹرز، ایکسپورٹرز اینڈ مرچنٹس ایسوسی ایشن‘ کے مرکزی چیئیرمین محمد اسلم پکھالی کے مطابق پاکستان بھارتی سبزیوں کا سب سے بڑا امپورٹر تھا اور سال 2015-16 میں پاکستان نے بھارت سے 14 ارب روپے کی مالیت کے ٹماٹر درآمد کیے تھے۔

لیکن اس کے بعد بھارت سے سبزیوں کی درآمد پر لگائی جانے والی پابندی کی وجہ سے ٹماٹر بھارت سے پاکستان نہیں آ رہے۔ اس وجہ سے پاکستان میں ٹماٹروں کی قیمت 120 روپے کلو تک پہنچ چکی ہے، پچھلے سال بھی ایسی ہی صورت حال کے بعد قیمت 300 روپے کلو تک پہنچ گئی تھی۔

ادھر بھارتی ریاست مہاراشٹرا کے شہر ناشک میں ٹماٹروں کی قیمتیں چار تا پانچ روپے فی کلو تک گر گئی ہیں اور اس ضلعے کے بعض علاقوں میں کاشکاروں نے اس فصل کو ضائع کرنا شروع کر دیا ہے۔

پچھلے سال بھی انہی دنوں اور ایسی ہی صورت حال میں اس وقت کے پاکستان کے وفاقی وزیر خوراک سکندر حیات بوسن نے کہا تھا کہ بحران کے باوجود پاکستان بھارت سے ٹماٹر اور پیاز درآمد نہیں کرے گا۔

تصویر: DW/T. Shahzad

پاکستان کے دوسرے بڑے شہر لاہور میں کسٹم حکام 'غیر قانونی‘ طور پر بھارت سے لائے گئے ان ٹماٹروں کو نیلام کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جن کو کل لاہور کے قریب چھاپہ مار کر قبضے میں لیا گیا تھا۔ تفصیلات کے مطابق مشرف دور میں ہونے والے ایک پاک بھارت سمجھوتے کی بدولت اب بھارت کے زیر انتظام کشمیر سے پاکستان کے زیر انتظام کشمیری علاقوں میں پھل اور سبزیاں لانے کی اجازت ہے، لیکن یہ سبزیاں صرف پاکستان کے زیر انتتظام کشمیر کے علاقوں میں ہی استعمال ہو سکتی ہیں۔ پاکستان میں ٹماٹروں کی قلت کی وجہ سے ان کی قیمتوں میں ہونے والے شدید اضافے کے باعث بعض لوگ کشمیر میں آنے والے بھارتی ٹماٹروں کو ملک کے دیگر علاقوں میں بیچنے کے لیے لاتے رہے ہیں۔

پاکستان کے کسٹم حکام نے پچھلے چند دنوں میں لاہور، سیالکوٹ اور راوالپنڈی میں چھاپے مار کر مبینہ طور پر بھارت سے سمگل کر کے لائے جانے والے ان ٹماٹروں کو قبضے میں لے لیا ہے۔ صرف لاہور میں پکڑے جانے والے تین ٹرکوں میں چالیس لاکھ روپے مالیت کے 21440 کلو ٹماٹر موجود تھے۔ ان ٹرکوں کو پکڑنے والے کسٹم انسپکٹر منصور الہی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ بھارتی ٹماٹر لانے والے تینوں ٹرکوں کو جرمانے کیے جا رہے ہیں۔ ان کے بقول انہوں نے پچھلے سال بھی چار ایسے ہی ٹرک پکڑے تھے۔

محمد اسلم پکھالی کے بقول پاکستان میں ٹماٹروں کی کھپت 50 سے 60 لاکھ ٹن ہے، اس کے مقابلے میں پاکستان میں اس سال ٹماٹر کی پیداوار 70 سے 80 لاکھ ٹن کے قریب ہونے کی توقع ہے۔ پکھالی کے مطابق، ’’بھارت سے ٹماٹر نہ منگوانے کی وجہ سے پیدا ہونے والی مشکلات سے نمٹنے کے لیے پاکستان نے ٹماٹروں کی نئی اقسام باہر سے منگوائی ہیں جس سے پیداوار میں کافی اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ اس مرتبہ ہم عراق کو ٹماٹر برآمد کرنے کا پروگرام بنا رہے ہیں۔‘‘

محمد اسلم پکھالی نے تاہم یہ گلہ بھی کیا کہ پاک بھارت تجارت کے ضمن میں بھارت کا طرز عمل بھی منصفانہ نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا، ’’بھارت میں پاکستانی آم بہت پسند کیے جاتے ہیں لیکن بھارت ہمارے آموں کی اپنے ہاں درآمد کی اجازت نہیں دیتا۔ اسی طرح بھارت میں پیاز کی قلت ہو جائے تو وہ پاکستان سے منگوانے کی بجائے چین اور دوسرے ملکوں سے درآمد کرنے کو ترجیح دیتا ہے۔ اسی طرح پاکستان کا کینوں سمگل ہو کر بھارت پہنچ جائے تو پہنچ جائے، لیکن بھارت اس کی اجازت نہیں دیتا۔‘‘

پاکستان فوڈ اینڈ ویجیٹیبلز امپورٹرز، ایکپورٹرز اینڈ مرچنٹس ایسوسی ایشن کے مرکزی سربراہ کا یہ بھی کہنا تھا کہ بھارت سے آنے والے پھلوں اور سبزیوں کی وجہ سے پاکستان میں بیماریاں بھی پہنچ رہی ہیں۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے اس توقع کا اظہار کیا کہ ایک ہفتے بعد سندھ سے ٹماٹروں کی فصل تیار ہو کر مارکیٹ پہنچنا ہونا شروع ہو جائے گی اور ٹماٹروں کی قلت ختم ہو جائے گی جس سے قیمتیں معمول پر آ جائیں گی۔

لڑائی کا خاتمہ، قبر پر ٹماٹر اگانے کی اجازت

پکھالی کا کہنا تھا، ''پاکستان میں ٹماٹر ایران سے بھی آتے ہیں لیکن ایرانی ٹماٹر بھارت کی نسبت مہنگا پڑتا ہے۔ پاکستان میں کوئی ایسا موثر ادارہ بھی نہیں ہے جو سبزیوں کی سپلائی اور ڈیمانڈ کا درست اندازہ لگا کر کسان کے مفادات کا تحفظ کر سکے۔ اس لیے بھارت سے آنکھیں بند کرکے ٹماٹر درآمد کرنے سے پاکستانی کسانوں کو ماضی میں نقصان ہوا تھا اور انہوں نے ٹماٹر کی کاشت ہی ترک کر دی تھی۔ پاکستان میں ٹماٹر بیسڈ انڈسٹری لگانے کی بھی ضرورت ہے۔‘‘

پاکستان کے ایک معروف اقتصادی تجزیہ نگار خالد محمود رسول نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ دنیا بھر میں زیادہ دیر تک تازہ نہ رہ سکنے والے پھلوں اور سبزیوں کی 'سپلائی اور ڈیمانڈ‘ میں توازن برقرار رکھنے کے لیے علاقائی تجارت کو فروغ دیا جاتا ہے۔ ان کا کہنا تھا، ’’اسی وجہ سے یورپی یونین کی علاقائی تجارت 60 فی صد، نیفٹا کی ریجنل ٹریڈ 50 فیصد جب کہ آسیان خطے میں یہ شرح 20 فی صد کے قریب ہے۔ اس کے مقابلے میں پاکستان اور بھارت میں تجارت دو ڈھائی ارب ڈالر کے قریب ہے جو کہ صرف 5 فی صد سے بھی کم ہے۔ اگر حکومت اپنے قومی موقف پر قائم رہتے ہوئے احتیاطی تدابیر کے ساتھ علاقائی تجارت کو فروغ دے تو اس سے صارفین کا بہت بھلا ہو گا۔‘‘

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں