1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ٹمبر: کیا ایک نیا سونا ہے؟

17 مئی 2021

جرمنی میں میڈیا رپورٹوں کے مطابق اس وقت مارکیٹ میں ٹمبر یا لکڑی کے تختوں کی طلب بہت زیادہ ہو چکی ہے۔ اس کاروبار میں شریک افراد کا کہنا ہے کہ فی الوقت حیران کن انداز میں لکڑی کے تختوں کی طلب بڑھی ہے۔

USA Vorbereitungen für den Sturm Irma in Florida
تصویر: Imago/ZUMA Press/M. Mccarthy

 لکڑی کے تختوں کی قلت کے تناظر میں اس کاروبار میں شریک افراد کا کہنا ہے کہ یہ قلت محض وقتی ہے کیونکہ اس وقت جرمنی کے مختلف مقامات پر درختوں کے کٹے ہوئے بے شمار تنے موجود ہیں اور صرف ان کو اٹھا کر آرا مشینوں پر پہنچانا باقی ہے۔ یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ اس وقت لکڑی کا کاروبار پرکشش بن گیا ہے اور اس سے منسلک افراد کی تعداد میں اضافہ ہونے کے ساتھ ساتھ مزدوری کرنے والے کئی لوگوں کو روزگار بھی مل چکا ہے۔

پندرہ برس قبل جرمنی میں لکڑی کے تختوں کی قیمت کم تھی لیکن اب مانگ کی وجہ سے قیمت بھی بڑھ چکی ہےتصویر: Jens Büttner/dpa/picture alliance

ٹمبر کی مانگ میں غیر معمولی اضافہ

جرمن دفتر شماریات نے تصدیق کی ہے کہ ملک میں سن 1990 میں اتحاد کے بعد سن 2020 میں لکڑی کے بڑے تختوں کی مانگ میں جو اضافہ ہے وہ حیران کن ہے۔ جرمنی میں مختلف شہروں میں قائم لکڑی کی مارکیٹوں میں مانگ یکساں پائی گئی ہے۔ پندرہ برس قبل جرمنی میں لکڑی کے تختوں کی قیمت کم تھی لیکن اب ملکی اور غیر ممالک میں مانگ کی وجہ سے اس کی قیمت بھی بڑھ چکی ہے۔

کیا بار بی کیو کی عادت آپ کی جان بھی لے سکتی ہے؟

ہیمبرگ میں قائم انٹرنیشنل فارسٹری اور فاریسٹ اکنامکس انسٹیٹیوٹ کے ریسرچر ہولگر وائمار کا کہنا ہے کہ کئی مقامات پر لکڑی کے ڈھیر لگے ہیں اور اس کی وجہ تیز رفتار جھکڑوں سے گرنے والے درخت بھی ہیں۔ ان گرنے والے درختوں میں وہ بھی شامل ہیں، جنہیں بیٹلز قسم کے کیڑوں نے نقصان پہنچایا اور اس باعث تنے کمزور ہو گئے تھے۔ محقق ہولگر وائمار کے مطابق لکڑی کے ڈھیروں کی موجودگی نے دفتر شماریات کے اعداد و شمار کی تصدیق کر دی ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ حقیقت میں لکڑی کے موجودہ ڈھیروں کا حجم پچیس فیصد کم محسوس ہوتا ہے کیونکہ وفاقی ریاستوں میں ٹمبر کی سرگرمیوں کا احاطہ نہیں کیا جاتا۔

جرمنی میں لکڑی کاٹنے والی ملوں کو مانگ کا سامنا ہے کیونکہ انہیں لکڑی کے تنوں کے ڈھیروں سے تختے بنانے ہیںتصویر: picture alliance/AP Photo/S. Kilpatrick/The Canadian Press

لکڑی کی ملکی و بیرونی مارکیٹ

جرمنی میں لکڑی کاٹنے والی ملوں کو گاہکوں کی بڑھت کا سامنا ہے کیونکہ انہیں لکڑی کے بڑے بڑے ڈھیروں کے تختے بنانے ہیں۔ لکڑی سے سامان بنانے والی ملیں بھی جرمن مارکیٹ کی طلب کو پورا کرنے کی کوشش میں ہیں۔ ٹمبر مارکیٹ سے وابستہ اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ کورونا وبا کے دوران لکڑی سے تیار ہونے والے گھریلو سامان کی طلب بہت زیادہ بڑھی ہے اور بیرون ملک بھی لکڑی کے تختوں کی مانگ بہت زیادہ ہے۔

عالی شان عمارتیں، سیمنٹ نہیں لکڑی کی

اس کی مثال امریکا کی ہے جہاں تعمیراتی سرگرمیاں گزشتہ برس سے بڑھ چکی ہیں اور وہاں بھی تختوں کی مانگ زیادہ ہے۔ جرمنی سے سن 2020 میں امریکا کو چھ لاکھ کیوبک میٹرز لکڑی کے تختے ایکسپورٹ کیے گئے تھے۔ ویسے امریکا زیادہ تر لکڑی کے تختے کینیڈا سے درآمد کرتا ہے۔

ہولگر وائیمار کا بھی خیال ہے کہ طلب بہت زیادہ ہے اور محسوس ہوتا ہے کہ آرا مشینیں ناکافی ہیں اور اس باعث یہ کسی حد تک ایک ٹیکنیکل مسئلہ بھی بن چکا ہے کیونکہ مشینیں کم ہونے کے ساتھ ساتھ ہنروروں کی شدید قلت بھی ہے، جو ان مشینوں کو چلانا جانتے ہوں۔ آرا مشینوں کی کمی کے ساتھ ساتھ ان کی بندش کی وجہ کمزور ہوتے عالمی اقتصادی حالات بھی ہیں۔

جرمنی میں تنوں کے ڈھیر ہیں لیکن آرا مشینیں کم ہیںتصویر: picture-alliance/dpa

لکڑی کی قلت کا امکان ہے

لکڑی کا کاروبار کرنے والے افراد کا خیال ہے کہ جتنی طلب ہے، اس کے تناظر میں قلت پیدا ہونے کا امکان ہے کیونکہ سپلائی کی رفتار مناسب نہیں ہے۔ اس کاروبار میں تناؤ کی وجہ یہ بھی ہے کہ معیاری لکڑی کی دستیابی بھی کم ہے۔ ایسی رپورٹس بھی ہیں کہ بیرون ملک کاروبار کرنے والے جرمنی سے ملنے والی معیاری لکڑی کے تختوں کی فراہمی پر مسرت کا اظہار کرتے پھرتے ہیں۔

لکڑی کی غیر قانونی تجارت روکنے کی کوششیں

بیرونی ممالک میں جرمن لکڑی کے تختوں کا استعمال کنسٹرکشن انڈسٹری میں کیا جا رہا ہے۔ جرمن کارپینٹرز ایسوسی ایشن کے صدر پیٹر آئشر کا کہنا ہے کہ بیٹلز کیڑوں سے متاثرہ لکڑی غیر معیاری نہیں ہوتی اور یہ وزن برداشت کرنے کی اہل ہے۔

گزشتہ برس چین کو درختوں کے سالم تنوں سے بھرے کئی بحری جہاز روانہ کیے گئے تھے اور رواں برس بھی تنوں کی ایکسپورٹ کا امکان ہے۔

کرسٹی پلاڈسن (ع ح، ا ا) 

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں