ٹوائلٹس کی کمی، پاکستانی خواتین کے لیے اذیت اور کرب
بینش جاوید
28 ستمبر 2020
ماہواری کے دنوں میں فہمیدہ کو اپنے دفتر کے مرد کولیگز کے ساتھ کراچی سے ملتان سفر کرنا پڑ رہا تھا۔ فہمیدہ نے سارا بندو بست کیا ہوا تھا۔ اسے توقع تھی کہ سفر کے کچھ گھنٹوں میں گاڑی رکے گی اور وہ ٹوائلٹ جا سکے گی۔
اشتہار
سفر کے آغاز کے قریب آدھے گھنٹے بعد ہی کراچی کی رہائشی فہمیدہ کو محسوس ہوا کہ اسے ٹوائلٹ جانے کی ضرورت ہے۔ فہمیدہ اپنے دفتر کے مرد ساتھیوں کو یہ بتانے میں ہچکچا رہی تھی کہ ماہواری کی وجہ سے اسے ضرورت سے زیادہ مرتبہ ٹوائلٹ جانا پڑ سکتا ہے۔ وقت گزرتا گیا اور وہ بے سکون اور پریشان رہی۔ آخر کار سڑک کنارے ایک ہوٹل پر ان کی گاڑی رکی۔ فہمیدہ نے سکون کا سانس لیا۔
انتہائی بد بو دار ٹوائلٹ
فہمیدہ جیسی ہی ٹوائلٹ کے قریب پہنچی اسے ایک انتہائی تیز بدبو کا سامنا کرنا پڑا۔ لیکن اس کی موجودہ صورتحال میں فہمیدہ کے پاس اس عوامی ٹوائلٹ جانے کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا۔ جب وہ ٹوائلٹ میں داخل ہوئی تو تعفن کے باعث اسے قے آنا شروع ہو گی۔ اس نے برداشت کرتے ہوئے غلیظ ٹوائلٹ کو استعمال کیا۔ کراچی سے ملتان سفر کے دوران وہ بہت زیادہ مرتبہ تو ٹوائلٹ نہ جا سکی لیکن تقریبا ہر مرتبہ اس کا یہی تجربہ رہا۔ فہمیدہ کہتی ہیں، ''کہنے کو تو یہ کوئی اتنی بڑی بات نہیں لیکن ضرورت کے وقت ٹوائلٹ کی غیر موجودگی میں خواتین بہت زیادہ کرب اور تکلیف سے گزرتی ہیں۔‘‘
خواتین کے لیے سب سے زیادہ مشکل
فہمیدہ نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ٹوائلٹس کی کمی سے سب سے زیادہ پریشانی خواتین کو ہوتی ہے۔ '' مرد تو کہیں بھی جا سکتے ہیں لیکن خواتین کہ لیے ضروری ہے کہ انہیں ایک پردہ دار ٹوائلٹ میسر ہو۔ کراچی میں شاپنگ مالز میں ٹوائلٹس تو ہیں لیکن اگر آپ بازار میں پھر رہے ہوں تو خواتین کو بہت ہی مشکل ہوتی ہے۔‘‘ فہمیدہ کہتی ہیں کہ پاکستانی وزیر اعظم نے وعدہ کیا تھا کہ وہ پبلک واش رومز کو بہتر بنائیں گے لیکن اب تک ان کی جانب سے ایسا کوئی اقدام نظر نہیں آیا۔
امید کی کرن
سلمان صوفی فاؤنڈیشن نامی ایک غیر سرکاری تنظیم نے کراچی میں خواتین اور مردوں کے لیے الگ الگ ٹوائلٹس کا انتظام کیا ہے۔ ان ٹوائلٹس کی صفائی کو یقینی بنایا جا رہا ہے۔ سلمان صوفی نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جلد ایسے دو ٹوائلٹس لاہور میں بنائے جائیں گے اور 2023 تک ان کی تنظیم ملک بھر میں 500 ٹوائلٹس بنانے کا ارادہ رکھتی ہے۔ وہ توقع کر رہے ہیں کہ اس کاوش میں انہیں حکومت کا تعاون حاصل ہوگا۔
اشتہار
ٹوائلٹس کی کمی
اقوام متحدہ کے ادارے یونیسیف کے مطابق قریب 34 ملین پاکستانیوں کو ٹوائلٹ کی مناسب سہولت میسر نہیں ہے۔ اگر دیہی علاقوں کی بات کی جائے تو پاکستان کے کئی دیہی علاقوں میں گھروں میں ٹوائلٹ ہے ہی نہیں۔ قریب 25 ملین افراد جن میں خواتین اور بچے شامل ہیں، گھر سے باہر کھلی جگہ پر رفع حاجت کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ سن 2015ء کے اعداد و شمار کے مطابق بھارت اور انڈونیشیا کے بعد پاکستان وہ تیسرا ملک ہے جہاں سب سے زیادہ لوگ ٹوائلٹس کی غیر موجودگی میں کھلی جگہوں کا استعمال کرتے ہیں۔
جب تک پاکستان میں عوامی مقامات پر خواتین کے لیے صاف ستھرے بیت الخلاء بنانے کے کام میں تیزی نہیں لائی جاتی ، اس وقت تک فہمیدہ جیسی کئی خواتین اس بنیادی سہولت کی عدم دستیابی سے پریشانی کا شکار رہیں گی۔
ماہواری سے جڑی فرسودہ روایات
ایک بھارتی مندر میں تین خواتین کے داخل ہو جانے پر بڑا فساد ہوا۔ ان خواتین نے کئی صدیوں پرانی پابندی جو توڑ دی تھی۔ حیض کی عمر تک پہنچ جانے والی خواتین کو دنیا کے دیگر کئی ممالک اور خطوں میں بھی امتیازی سلوک کا سامنا ہے۔
تصویر: Fotolia/Alliance
عبادت نہ کرو
براعظم ایشیا کے کئی حصوں میں دوران حیض خواتین کو عبادت اور دیگر مذہبی رسومات میں شرکت سے استثنا حاصل ہے۔ ہندوستان کے علاوہ چین اور جاپان کی بودھ کمیونٹی کے افراد بھی یہی تصور کرتے ہیں۔ دنیا بھر میں مسلمان خواتین بھی پیریڈز کے دوران نہ تو مسجد جا سکتی ہیں اور نہ ہی دیگر مذہبی سرگرمیاں سر انجام دے سکتی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP
کھانا نہیں پکانا
دنیا کے کئی حصوں میں خیال کیا جاتا ہے کہ خاتون کو اس حالت میں کھانا نہیں پکانا چاہیے۔ بھارت کے کئی علاقوں میں یہ تاثر ہے کہ اگر کوئی خاتون دوران حیض اچار کو چھو لے گی تو وہ خراب ہو جائے گا۔ کچھ معاشروں میں یہ خیال کیا جاتا ہے کہ ماہواری کے دوران خواتین مکھن، کریم یا مایونیز جما سکتی ہیں۔ کچھ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ اگر کسی خاتون نے حالت حیض میں آٹے کو چھو لیا تو وہ ٹھیک طریقے سے پکے کا نہیں۔
تصویر: Reuters
گھر بدر
انڈونیشیا کے کچھ حصوں کے ساتھ ساتھ بھارت، نیپال اور نائجیریا کے کچھ قبائل بھی حیض کو ’ناپاک‘ تصور کرتے ہیں۔ یہ خواتین کو ایام مخصوصہ کے دوران گھر سے نکال دیتے ہیں اور عمومی طور پر ان بچیوں اور خواتین کو ماہواری کے دن جانوروں کے لیے بنائی گئی جگہوں پر گزارنا ہوتے ہیں۔ حالیہ عرصے میں نیپال میں کئی خواتین موسم سرما کے دوران گھر بدر کیے جانے کے باعث ہلاک بھی ہوئیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/P. Mathema
نہانا نہیں ہے
بھارت سے لے کر اسرائیل اور کئی یورپی اور جنوبی امریکی ممالک میں کہا جاتا ہے کہ خواتین کو دوران حیض نہانا نہیں چاہیے اور بال بھی نہیں دھونا چاہییں۔ یہ سمجھتے ہیں کہ یوں خواتین بانجھ ہو جائیں گی یا بیمار۔ ان خطوں میں پیریڈز کے دوران خواتین کسی سوئمنگ پول یا ساحل سمندر پر غوطہ بھی نہیں لگا سکتیں۔
تصویر: AFP/Getty Images/C. Khanna
بنو سنورو مت
’خواتین پیریڈز کے دوران بالوں کو نہ تو کاٹیں اور نہ ہی رنگیں یا سنواریں‘۔ کچھ کا یہ خیال بھی ہے کہ اگر خواتین حالت حیض میں جسم کے بال صاف کریں گی تو وہ دوبارہ زیادہ تیزی سے بڑے ہو جائیں گے۔ کچھ خواتین کو تو ناخن تراشنے یا رنگنے کی بھی ممانعت ہوتی ہے۔ وینزویلا میں مبینہ طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ اگر کوئی خاتون دوران حیض ’بیکنی لائن‘ سے بالوں کو صاف کریں گی تو ان کی جلد کالی اور خراب ہو جائے گی۔
تصویر: Fotolia/davidevison
پودوں سے دور رہو
کچھ معاشروں میں کہا جاتا ہے کہ دوران حیض خواتین کو پودوں اور پھولوں کے قریب نہیں جانا چاہیے اور کھیتوں سے دور رہنا چاہیے۔ ان فرسودہ روایات کے مطابق اگر یہ خواتین حالت حیض میں نباتات کو چھو لیں گی تو وہ سوکھ یا مر جائیں گی۔ بھارت میں ایسی خواتین کو کہا جاتا ہے کہ وہ مقدس پھولوں کو نہ تو چھوئیں اور ہی پانی دیں۔
تصویر: DW/S. Tanha
مردوں سے دوری
دنیا کے متعدد قدامت پسند خطوں میں پیریڈز کے دوران مردوں کے ساتھ رابطوں کو ممنوع قرار دیا جاتا ہے۔ آتھوڈکس یہودی مذہب میں خواتین کا حالت حیض میں مردوں سے جنسی رابطہ ممنوع ہے۔ پیریڈز ختم ہونے کے بعد یہ خواتین روایتی طور پر نہاتی ہیں اور اس کے بعد ہی یہ سیکس کر سکتی ہیں۔ پولینڈ اور روانڈا کے کچھ حصوں میں یہ کہا جاتا ہے کہ دوران حیض کسی خاتون سے جماع مرد کی ہلاکت کا باعث ہو سکتا ہے۔
کچھ فرسودہ عقائد کے مطابق پیریڈز کے دوران ورزش یا کھیل خاتون کے جسم کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ سن دو ہزار سولہ میں چینی خاتون اسٹار پیراک فو یوناہی نے آشکار کیا تھا کہ انہوں نے حالت حیض میں ریو اولمپک مقابلوں میں حصہ لیا تھا۔ اس بات نے چین میں ایک اہم شجر ممنوعہ توڑ دیا تھا اور یہ پیشرفت ایک نئی بحث کا باعث بن گئی تھی۔
تصویر: Fotolia/Brocreative
ٹیمپون استعمال نہ کرو
دنیا کے قدامت پسند ممالک اور خطوں میں پیریڈز کے دوران ٹیمپون کے استعمال کا درست خیال نہیں کیا جاتا۔ خیال کیا جاتا ہے کہ اس کے استعمال سے خاتون کا پردہ بکارت پھٹ سکتا ہے، جو ان ممالک یا خطوں میں انتہائی شرمندگی کا باعث سمجھا جاتا ہے۔ پاکستان اور بھارت سمیت کئی قدامت پسند ممالک میں پیریڈز کے دوران ٹیمپون کے ساتھ ساتھ سینیٹری پیڈز کا استعمال بھی متنازعہ خیال کیا جاتا ہے۔