1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ٹونسل یا لوزے کو کب نکالا جانا چاہیے

Kishwar Mustafa9 اپریل 2012

لوزہ یا گلے کی گلٹیاں جسم کی قوت مدافعت کو مُنہ کے ذریعے کسی بھی قسم کے مرض زا یا مرض پیدا کرنے والے جرثومے سے خبر دار کرنے کا اہم کام انجام دیتا ہے۔

تصویر: picture alliance/landov

تاہم کبھی کبھی ٹونسل یا لوزے کو جراحی کے ذریعے کاٹ کر نکال دینا نا گزیر ہو جاتا ہے۔ اس ضمن میں ڈاکٹرز گزشتہ چند سالوں کے مقابلے میں اس وقت ٹونسلز یا گلے کی گلٹیوں کو کاٹ کر نکال دینے کے عمل میں خاصے محتاط ہو گئے ہیں اور اس جراحی سے ممکنہ حد تک پرہیز کرنے لگے ہیں، خاص طور سے بچوں کے گلے میں ٹونسلز کے آپریشن کے سلسلے میں احتیاط سے کام لیا جا رہا ہے کیونکہ بچوں کا امیون سسٹم یا نظام مامونیت ہنوز پختہ ہونے کے مراحل سے گزر رہا ہوتا ہے۔

کان، ناک اور گلے کے امراض کے جرمن ماہر پروفیسر ویرنر ہوزے من کے مطابق، ’اسے ایک فلٹر کی مانند سمجھا جا سکتا ہے، مُنہ کے ذریعے سانس میں جو کچھ بھی جاتا ہے وہ ٹونسل یا لوزے سے گزرتا ہوا جاتا ہے اور یہیں پر مرض پیدا کرنے والے جرثومے کا سراغ لگ جاتا ہے‘۔

دانتوں اور مُنہ کی صفائی بھی ٹونسلر کے لیے نہایت اہم ہوتی ہےتصویر: Design Pics

ٹونسل یا لوزے گہری نالیوں سے ڈھکے ہوتے ہیں جس کی وجہ سے وہ وسیع تر علاقے میں پھیلے ہوتے ہیں۔ اس کے سبب ٹونسل یا لوزے کا مختلف طرح کے جراثیموں، بیکٹیریا یا پھپھوندی سے واسطہ پڑتا رہتا ہے۔ ان میں سے کسی کے بھی حملے کی صورت میں ٹونسلز متحرک ہو جاتے ہیں اور بیماریاں پیدا کرنے والے ان اجسام کا مقابلہ کر تے ہوئے جسمانی نظام مدافعت کو خبردار کر دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ کسی بھی جراثیم کے حملے کو ٹونسلز امیونولوجیکل میموری یا مناعیاتی حافظے میں محفوظ کر دیتے ہیں۔ اس طرح جسم کا نظام مامونیت اس خاص طرح کے جراثیم کے حملے کے لیے تیار رہتا ہے۔

تاہم ٹونسلز کبھی کبھی تکلیف کا باعث بھی بن جاتے ہیں جو اکثر و بیشتر تکلیف دیتے ہیں یا بعض واقعات میں کہنہ مرض کی علامات ظاہر کرتے ہیں۔ یہ ماننا ہے جرمن شہر لیوبک کے یونیورسٹی کلینک کے امیونولوجسٹ ویرنر زول باخ کا جبکہ جرمن صوبے باویریا کے ای این ٹی اسپیشلسٹ ونفریڈ گوئرٹسن کہتے ہیں، ’اب تک یہ رواج تھا کہ ٹونسلز کو بہت جلدی نکال دیا جاتا تھا۔ تاہم اب حالات اس کے برعکس ہیں‘۔

چار سال سے کم عمر کے بچے کے ٹونسلز کا آپریشن نہیں کروانا چاہیےتصویر: picture-alliance/dpa

اس سلسلے میں ایک اہم بات یہ ہے کہ ٹونسلز نکال دینے سے جسم کا نظام مامونیت کمزور پڑ جاتا ہے۔ تاہم جرمن ماہرویرنر زول باخ کہتے ہیں کہ ایسا محض اُسی صورت میں ہوتا ہے جب جسم کے امیون سسٹم کے مستحکم ہونے سے پہلے ہی ٹونسلز کو آپریشن کے ذریعے نکال دیا جائے۔ ان کے مطابق جب چھ سال کی عمر تک کسی بھی بچے کا امیون سسٹم مستحکم ہو جاتا ہے، تو پھر ٹونسلز کے آپریشن سے اس بچے کے جسمانی مدافعتی نظام پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔

اس سے ظاہر یہ ہوا کہ اس سلسلے میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ ٹونسلز کا آپریشن کس عمر میں کرایا جاتا ہے۔ ماہرین چار سال سے کم عمر بچوں کے ٹونسلز کو جراحی کے ذریعے نکال دینے کے خلاف ہیں۔

پروفیسر ویرنر ہوزے من کا کہنا ہے کہ اگر کسی کے ٹونسلز مسلسل عفونت کا شکار رہیں اور ان سے پیپ وغیرہ رستی رہے اور وہ بہت تکلیف دینے لگیں تو انہیں نکلوا دینا چاہیے کیونکہ کسی بھی تاخیر سے باعث تکلیف انفیکشن سے امیون سسٹم کمزور ہو جاتا ہے، خاص طور سے اس لیے بھی کے اس کے دیرپا اثرات ہوتے ہیں۔ کہنہ عفونت پیپ سے بھرے ہوئے پھوڑے کی شکل اختیار کر سکتی ہے اور بد ترین صورت میں تعفن پیدا کرنے والے عارضے کی کیفیت اختیار کر سکتی ہے۔ اس سلسلے میں اگر بچوں میں ایک سال کے اندر اندر چار سے چھ بار ٹونسلز کی عفونت یا بڑوں میں یہی عفونت تین سے زائد مرتبہ پیدا ہو یہ Tonsillectomy یا ٹونسلز کے آپریشن کی ضرورت کی علامت ہوتی ہے۔

km/mm (DPA)

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں