ٹونی بلیئر کی قذافی سے ’خفیہ‘ ملاقاتیں، برطانوی اخبار
18 ستمبر 2011اس اخبار نے یہ انکشافات لیبیا کے دارالحکومت طرابلس سے حاصل کردہ ان دستاویزات کی بنیاد پر کیے ہیں جو کہ بقول اس جریدے کے، اسے قذافی کی اقتدار سے رخصتی کے بعد حاصل ہوئے۔ اخبار کی رپورٹ کے مطابق ٹونی بلیئر نے یہ دورے وزارت عظمیٰ سے مستعفی ہونے کے بعد جون 2008ء اور اپریل 2009ء میں کیے تھے۔
خیال رہے کہ بلیئر نے قذافی کی حکومت کو لیبیا کا ایٹمی پروگرام ختم کر دینے کا قائل کرنے میں بھی اہم کردار ادا کیا تھا۔ مارچ سن 2004 میں ہونے والا یہ معاہدہ لیبیا اور مغربی دنیا کے تعلقات میں بہتری کے حوالے سے ایک سنگ میل سمجھا جاتا ہے۔
ٹونی بلیئر کے ترجمان نے اعتراف کیا ہے کہ سابق وزیر اعظم نے اس نوعیت کے دورے کیے تھے اور ان دوروں میں لیبیا کے حکام نے ان سے عبدالباسط علی محمد المغراہی کے حوالے سے بات چیت کی تھی تاہم بلیئر نے لیبیا کے حکام پر واضح کر دیا تھا کہ اس ضمن میں اسکاٹ لینڈ کے حکام ہی کوئی فیصلہ کر سکتے ہیں۔
واضح رہے کہ لیبیا سے تعلق رکھنے والے مغراہی پر دسمبر سن 1988 میں اسکاٹ لینڈ کے شہر لاکربی کے اوپر پرواز کرنے والے پین ایم مسافر بردار طیارے کو بم سے اڑانے کے حوالے سے فرد جرم عائد کی گئی تھی۔ دہشت گردی کے اس واقعے میں 270 افراد ہلاک ہوئے تھے، جن میں سے زیادہ تر امریکی شہری تھے۔
مغراہی کو بیس اگست سن 2009 کو اس لیے رہا کر دیا گیا تھا کہ اس کے طبی معائنوں سے یہ ثابت ہو گیا تھا کہ وہ کینسر کا مریض ہے اور شاید صرف مزید تین ماہ تک ہی زندہ رہ سکتا ہے۔
'سنڈے ٹیلی گراف‘ کی اس رپورٹ کی اشاعت کے بعد ٹونی بلیئر یہ دباؤ بڑھنے کا امکان ہے کہ وہ معمر قذافی کے ساتھ اپنے معاملات کی تفصیلات عوام کے سامنے پیش کریں۔ اخبار کے مطابق بلیئر نے جون سن 2010 میں بھی قذافی سے ایک ملاقات کی تھی۔
لیبیا میں معمر قذافی کے خلاف کئی ماہ تک جاری رہنے والی بغاوت کے بعد چند ہفتے قبل ان کے اقتدار کا خاتمہ ہو گیا تھا۔ اس وقت طرابلس قذافی کے مخالفین کے کنٹرول میں ہے۔ مغربی ممالک کے دفاعی اتحاد نیٹو نے، جس میں برطانیہ بھی شامل ہے، قذافی کے اقتدار کے خاتمے میں اہم کردار ادا کیا۔
رپورٹ: شامل شمس ⁄ خبر رساں ادارے
ادارت: مقبول ملک