1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ٹوکیو کانفرنس، کابل حکومت کو بڑے پیمانے پر تعاون کی امید

Adnan ishaq5 جولائی 2012

گزشتہ برسوں سے افغانستان میں بین الاقوامی افواج کے انخلاء کے بعد کی صورتحال پر غور کرنے کے لیے دنیا کے مختلف مقامات پر اجلاس ہو رہے ہیں۔ اسی سلسلے میں کل 8 جولائی کو جاپان میں افغانستان ڈونر کانفرنس منعقد ہو رہی ہے۔

تصویر: AP

گزشتہ کئی ہفتوں سے افغان ذرائع ابلاغ پر ٹوکیو میں مجوزہ ڈونر کانفرنس کا موضوع چھایا ہوا ہے۔ زیادہ ترافغانوں کو امید ہے کہ ان کے دوست ممالک طویل المدتی مالی تعاون فراہم کرنے کے علاوہ کابل حکومت کی سخت نگرانی بھی کریں گے۔ افغان باشندوں کی ایک بڑی تعداد کو اس بین الاقوامی اجلاس کی اہمیت کا اندازہ ہے۔ کیونکہ 2014ء میں آئی سیف دستوں کے انخلاء کے بعد افغانستان کو ملکی نظام چلانے کے لیے بڑے پیمانے پر رقوم کی ضرورت ہو گی۔ 23 سالہ طالب علم رستم یعقوبی کا کہنا ہے کہ ٹوکیو میں عالمی برادری مشترکہ کوششوں کے حوالے سے ایک واضح اشارہ دے گی۔’’ہمارے ملک کو بیرونی امداد کی ضرورت ہے۔ مجھے امید ہے کہ تعاون برقرار رہے گا تاکہ تعمیر نو کا یہ سلسلہ اسی طرح سے چلتا رہے۔‘‘

طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد جنوری 2002ء میں پہلی ڈونر کانفرنس منعقد ہوئی تھی۔ اُس وقت بھی ٹوکیو میں افغانستان کی تعمیر نو کے لیے 2007ء تک5.4 ارب ڈالر دینے کا اعلان کیا گیا تھا۔ اس مرتبہ بھی کابل حکام کو امید ہے کہ اتنے بڑے پیمانے پر ہی مالی تعاون فراہم کرنے کے فیصلے کیے جائیں گے۔

پہلی ڈونر کانفرنس جنوری 2002ء میں ٹوکیو میں منعقد ہوئی تھیتصویر: picture-alliance/dpa

افغان وزیر مالیات عمر زاخیلوال چاہتے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ سرمایہ کار افغانستان کا رخ کریں لیکن ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ طالبان اس عمل کو نقصان پہچانے کی ہر ممکن کوشش کریں گے۔’’ ہمارے دشمن اِس ملک کی اقتصادی ترقی سے ڈرتے ہیں۔ اسی وجہ سے وہ ڈر اور خوف کا ماحول پیدا کرنا چاہتے ہیں۔‘‘ زاخیلوال مزید کہتے ہیں کہ طالبان اپنے ہتھکنڈوں میں کامیاب نہیں ہو سکیں گے اور 2014ء کے بعد عالمی برادری افغانستان کو تنہا نہیں چھوڑے گی۔

اس دوران متعدد ممالک 2015ء سے لے کر 2025ء تک افغانستان میں تعمیر نو کے لیے اپنے تعاون کا اعلان بھی کر چکے ہیں۔ رکن پارلیمان فوزیہ کوفی کا کہنا ہے کہ ٹوکیو میں خواتین کے حقوق کو بھی مرکزی اہمیت دی جانی چاہیے۔’’ ہم عالمی برادری سے اپیل کرتے ہیں کہ امداد کے لیے دی جانے والی کل رقم کا تیس فیصد خواتین کی فلاح و بہبود پر خرچ ہو۔ افغانستان میں مؤثر کردار ادا کرنے کے لیے خواتین کو مدد کی ضرورت ہے۔‘‘

تاہم ایک بات یقینی ہے اور وہ یہ کہ 8 جولائی کو ٹوکیو میں جمع ہونے والے ملکوں کو افغان حکومت پر کوئی زیادہ بھروسہ نہیں ہے۔ ایسے میں افغان عوام اور حکومت کی وہ توقعات کہاں تک پوری ہوں گی، جو انہوں نے 90 ممالک کے نمائندوں سےوابستہ کر رکھی ہیں، یہ تو وقت ہی بتائے گا۔

R.Shamel / ai / aa

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں