امریکا کی ایک لاکھ سے زائد سیکس ورکرز نے ٹویٹر کو خیرباد کہہ دیا ہے اور یورپی ملک آسٹریا میں قائم ٹویٹر جیسی ایک اور ویب سائٹ ’سوِٹر‘ پر اپنے اکاؤنٹ بنا لیے ہیں۔ ائ قانون کو امریکی عدالت میں بھی چیلنج کر دیا گیا ہے۔
اشتہار
امریکا میں ایک متنازعہ قانون کی منظوری کے بعد سیکس ورکرز نے بتدریج ٹویٹر کو خیرباد کہنا شروع کیا۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ آن لائن جسم فروشی کے دھندے کو روکنے کے لیے بنائے گئے اس بل سے پرتشدد واقعات میں اضافہ ہونے کا خطرہ ہے۔ کانگریس کے منظور شدہ قانون کو عام طور پر FOSTA/SESTA کہا گیا ہے۔
یہ قانون بنیادی طور پر سیکس ورکروں کی آن لائن سرگرمیوں کے انسداد اور جسم فروشی کے دھندے کی حوصلہ شکنی سے متعلق ہے۔ تاہم اس قانون سے یہ بھی مراد لی گئی ہے کہ انٹرنیٹ کے ذریعے سیکس ورکروں کے کاروبار کو ہر ممکن طریقے سے کنٹرول کیا جائے۔
جسم فروشی کے دھندے میں ملوث افراد ایسے ذرائع کی مدد سے کم عمر بچوں کو بھی سیکس ورکر بننے کی ترغیب دینے کی کوشش کرتے ہیں اور یہ قانون بظاہر اس عمل کو شدت کے ساتھ قابو کرنے کے لیے متعارف کرایا گیا ہے۔ ابھی تک ایسا محسوس کیا گیا ہے کہ اس متنازرعہ قانون کے منفی اثرات بھی سامنے آ رہے ہیں۔
امریکی سیکس ورکر اب یورپی ویب سائٹس کو اپنی آمدن اور کاروبار کے ذرائع بنانے میں مصروف ہو گئے ہیں
جسم فروشی میں ملوث ایسے بالغ ورکرز، جو اپنی رضا و رغبت سے اس کام میں شامل ہیں، انہوں نے اس قانون کا قطعاً اثر نہیں لیا اور مذاق بھی اڑانے سے گریز نہیں کیا۔ یہ امر بھی اہم ہے کہ پچھلے کئی برسوں سے سیکس ورکر سوشل نیٹ ورکنگ ویب سائٹس کو اپنے کاروبار کے لیے استعمال کرنے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔
نئے امریکی قانون کے تحت سیکس ورکر کسی ویب سائٹ یا آن لائن رہتے ہوئے اپنے ذاتی پیج سے ایسا دھندا کریں گے تو وہ قابل گرفت ہو سکتے ہیں۔ اس قانون کے بعد کئی دوسری سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس نے بھی اپنے بنیادی ضوابط میں تبدیلی کا عمل شروع کر دیا ہے۔
اس متنازعہ امریکی قانون سازی نے جسم فروشوں کے لیے مشکلات پیدا کر دی ہیں اور آن لائن کاروبار میں رکاوٹیں کھڑی ہوتی جا رہی ہیں۔ جو ویب سائٹس اپنے ضوابط تبدیل کرنے میں مصروف ہیں، اُن میں اسکائپ بھی شامل ہے اور یہ امریکا میں سیکس ورکرز کا ایک پسندیدہ کاروباری ذریعہ ہے۔
امریکی سیکس ورکر اب یورپی ویب سائٹس کو اپنی آمدن اور کاروبار کے ذرائع بنانے میں مصروف ہو گئے ہیں۔ ان میں یورپی ملک آسٹریا میں قائم ’سوِٹر‘ کے علاوہ ’اسمبلی فور‘ اور ’دی ملبورن‘ خاص طور پر اہم خیال کی گئی ہیں۔ ’اسمبلی فور‘ کا سرور ایک اور یورپی ملک سوئٹزرلینڈ میں قائم ہے۔
ان یورپی ویب سائٹس کا کہنا ہے کہ وہ اپنے صارفین کے ذاتی کوائف اور دیگر معلومات کی حفاظت کو فوقیت دیتے ہیں اور اُن کا ڈیٹا بہت وقعت کا حامل ہے۔ ان کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ اُن کی ویب سائٹس یقینی طور پر ٹویٹر سے زیادہ محفوظ ہیں۔
’بروڈول‘ سیکس ڈولز پر مشتمل جرمن قحبہ خانہ پر ایک نظر
جرمن شہر ڈورٹمنڈ میں ایک ایسا قحبہ خانہ بھی ہے جہاں مرد، خواتین اور جوڑوں کو ان کی جنسی تسکین کے لیے سلیکون سے بنائی گئی گڑیاں مہیا کی جاتی ہیں۔ تفصیلات ڈی ڈبلیو کے چیز ونٹر کی ’بروڈول‘ سے متعلق اس پکچر گیلری میں۔
تصویر: DW/C. Winter
حقیقی خواتین کیوں نہیں؟
یہ کاروبار تیس سالہ جرمن خاتون ایویلین شوارز نے شروع کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ قحبہ خانے میں کام کرنے کے لیے انہیں جرمن خواتین نہیں مل رہی تھیں اور غیر ملکی خواتین جرمن زبان پر عبور نہیں رکھتیں۔ شوار کے مطابق ان کے جرمن گاہکوں کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ پیشہ ور خواتین ان کی بات درست طور پر سمجھ پائیں۔
تصویر: DW/C. Winter
بے زبان گڑیا
ایویلین شوارز نے ٹی وی پر جاپانی سیکس ڈولز سے متعلق ایک رپورٹ دیکھی تو انہیں لگا کہ غیر ملکی خواتین کے مقابلے میں سیکس ڈولز پر مشتمل قحبہ خانہ زیادہ بہتر کاروبار کر پائے گا۔ شوارز کے مطابق، ’’یہ دکھنے میں خوبصورت ہیں، بیمار بھی نہیں ہوتی اور بغیر کسی شکایت کے ہر طرح کی خدمات پیش کر سکتی ہیں۔‘‘
تصویر: DW/C. Winter
جذبات سے عاری اور تابعدار
’بروڈول‘ کی مالکہ کا کہنا ہے کہ کئی گاہگ سماجی مسائل کا شکار ہوتے ہیں اور وہ لوگوں سے بات چیت کرنے سے کتراتے ہیں۔ ایسے افراد کے لیے جذبات سے عاری سیکس ڈولز باعث رغبت ہوتی ہیں۔
تصویر: DW/C. Winter
مردوں کی انا کی تسکین
جسم فروش خواتین کے پاس آنے والے گاہکوں کو مختلف خدمات کے حصول کے لیے پیشگی گفتگو کرنا پڑتی ہے جب کہ سلیکون کی بنی ہوئی یہ گڑیاں بغیر کسی بحث کے مردوں کی خواہشات پوری کرتی ہیں۔ ایویلین شوارز کے مطابق، ’’ان گڑیوں کے جذبات کا خیال رکھے بغیر مرد گاہگ جتنا چاہیں انا پرست ہو سکتے ہیں۔‘‘
تصویر: DW/C. Winter
خطرناک جنسی رویے
اس قحبہ خانے کا رخ کرنے والوں میں مرد و زن کے علاوہ ایسے جوڑے بھی ہوتے ہیں جو شوارز کے بقول خطرناک جنسی رویوں کے حامل ہوتے ہیں۔ ایسے گاہگوں کے لیے ’بی ڈی ایس ایم‘ کمرہ بھی موجود ہے۔ شوارز کے مطابق، ’’ کسی خاتون کے ساتھ پر تشدد ہونے کی بجائے گڑیا کے ساتھ ایسا کرنا بہتر ہے۔‘‘
تصویر: DW/C. Winter
گڑیوں کے ساتھ بھی جذباتی لگاؤ
شوارز کے مطابق اس قحبہ خانے میں آنے والوں گاہکوں میں سے ستر فیصد دوبارہ لوٹ کر ضرور آتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ کئی لوگ ایسے بھی ہیں جو ہر ہفتے یہاں آتے ہیں جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وہ لوگ ان گڑیوں سے جذباتی وابستگی رکھتے ہیں۔
تصویر: DW/C. Winter
سماجی قبولیت بھی ہے؟
’بروڈول‘ ایسا پہلا قحبہ خانہ نہیں ہے جہاں سلیکون کی گڑیاں رکھی گئی ہیں۔ جاپان میں ایسے درجنوں کاروبار ہیں اور حالیہ کچھ عرصے کے دوران ہسپانوی شہر بارسلونا اور جرمن دارالحکومت برلن میں بھی ایسے قحبہ خانے کھولے جا چکے ہیں۔ تاہم ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ یورپ میں اس کاروبار کے مستقبل سے متعلق کچھ کہنا قبل از وقت ہو گا۔
تصویر: DW/C. Winter
یہ کاروبار کتنا اخلاقی ہے؟
اس قحبہ خانے کی مالکہ کے مطابق انہیں اس کاروبار کے اخلاقی ہونے سے متعلق کوئی تحفظات نہیں ہیں۔ ان کا کہنا تھا، ’’یہ تو بس کھلونوں کی مانند ہیں۔‘‘
تصویر: DW/C. Winter
سیکس ڈولز کے چہروں کے بچگانہ خدوخال؟
کئی ناقدین نے سلیکون کی بنی ان گڑیوں کے چہروں کے بچگانہ خدوخال کے باعث شدید تنقید بھی کی ہے۔
تصویر: DW/C. Winter
’صفائی کاروباری راز‘
قحبہ خانے کا آغاز چین سے درآمد کی گئی چار گڑیوں سے کیا گیا تاہم طلب میں اضافے کے سبب اب یہاں سلیکون کی بارہ سیکس ڈولز ہیں جن میں سے ایک مرد گڑیا بھی ہے۔ ’بروڈول‘ کی مالکہ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ صفائی کیسے کی جاتی ہے، یہ ان کا کاروباری راز ہے لیکن ان یہ بھی کہنا تھا کہ ہر گاہک کے بعد گڑیوں کی مکمل صفائی کر کے انہیں ہر طرح کے جراثیموں سے پاک کیا جاتا ہے۔