1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ٹویٹر نے مسک کی کوریج کرنے والے صحافیوں پر پابندی لگا دی

16 دسمبر 2022

ایلون مسک کا کہنا ہے کہ صحافیوں کے اکاونٹس ٹوئٹر کی اس نئی پالیسی کی وجہ سے معطل کیے گئے ہیں، جو نجی جیٹ طیاروں کو ٹریک کرنے والے اکاؤنٹس پر پابندی عائد کرتی ہے۔ میڈیا تنظیموں نے اس اقدام کی مزید وضاحت کا مطالبہ کیا ہے۔

Elon Musk
تصویر: DIMITRIOS KAMBOURIS/Getty Images/AFP

سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹوئٹر نے جمعرات کے روز ان کئی صحافیوں کے اکاؤنٹس معطل کردیے جو اس کمپنی اور ایلون مسک کی جانب سے اسے اپنی ملکیت میں لینے کے عمل کی کوریج کرتے رہے ہیں۔

یہ اقدام اس سوشل میڈیا پلیٹ فارم کی جانب سے اپنی پالیسیوں میں تبدیلی کے ایک روز بعد سامنے آیا ہے۔ نئی پالیسی کے تحت نجی جیٹ طیاروں بشمول ایلون مسک کی ملکیت والے جیٹ طیارے کو ٹریک کرنے والوں کے ٹوئٹر اکاونٹس معطل کیے جاسکتے ہیں۔

ٹوئٹر اکاونٹ پر بلیو ٹک والے صارفین کے لیے بری خبر

جن صحافیوں کے اکاؤنٹس معطل کر دیے گئے ہیں ان میں نیویارک ٹائمز کے رپورٹر ریان میک، واشنگٹن پوسٹ کے نامہ نگار ڈریو ہال، سی این این کے ڈونی او سولیوان، میش ایبل کے میٹ بائنڈر، انٹرسیپٹ کے میکاہ لی اور وائس آف امریکہ کے اسٹیو ہرمن شامل ہیں۔

آرون روپار، ٹونی ویبسٹر اور کیتھ اولبیرمین جیسے فری لانس صحافیوں کے اکاونٹس بھی معطل کر دیے گئے ہیں۔ ٹوئٹر کے متبادل کے طور پر معروف ماسٹوڈون  (Mastodon) نامی سوشل میڈیا کمپنی کا ٹوئٹر اکاؤنٹ بھی معطل کر دیا گیا ہے۔

ٹوئٹر نے اس بات کی باضابطہ وضاحت نہیں کی ہے کہ اس نے یہ اکاونٹس کیوں معطل کیے۔

نیویارک ٹائمز کے ترجمان نے معطلی کو "قابل اعتراض اور افسوس ناک" قرار دیا اور کہا کہ وہ امید کرتے ہیں کہ "ٹوئٹر اس کارروائی کی تسلی بخش وضاحت کرے گا۔"

سی این این نے ایک بیان میں کہا کہ "جارحانہ اور بلاجواز معطلی" باعث تشویش ہے،"لیکن حیران کن نہیں۔"

سی این این نے ایک بیان میں کہا،"ہم نے ٹوئٹر سے وضاحت طلب کی ہے اور ہم اس جواب کی بنیاد پر اپنے تعلقات کا ازسرنو جائزہ لیں گے۔"

جن صحافیوں کے اکاونٹس کو معطل کیا گیا ہے ان میں سے کچھ بدھ کے روز @Elonjet نامی اکاونٹ کو بند کیے جانے کے متعلق ٹویٹ کر رہے تھے۔  اس اکاؤنٹ کے پانچ لاکھ سے زائد فالوورز ہیں۔

ایلون مسک نے ٹوئٹر خرید لیا، ٹرمپ کا اکاؤنٹ بحال ہو گا؟

02:00

This browser does not support the video element.

ایلون مسک نے @Elonjet اکاؤنٹ کو معطل نہ کرنے کا وعدہ کیا تھا

@Elonjetنامی اکاونٹ جیک سوینی کی ملکیت تھی اور یہ مسک کے طیارے کی نقل و حرکت کو ٹریک کرنے کے لیے عوامی طور پر دستیاب تھا۔

ایلون مسک نے بدھ کے روز کہا تھا کہ لاس اینجلس میں جس کار میں ان کا بچہ سفر کر رہا تھا اس کا ایک "دیوانے شخص" نے پیچھا کیا۔ انہوں نے اس مبینہ واقعے کے لیے سوینی کے اکاؤنٹ کو ذمہ دار قرار دیا۔

ایک ٹویٹ میں انہوں نے بتایا کہ اب سوینی کے خلاف قانونی کارروائی کی جارہی ہے۔

ٹویٹر بورڈ نے ایلون مسک کی 44 ارب ڈالر کی پیش کش کی توثیق کر دی

سوینی نے معطلی کے بعد اپنے ذاتی اکاونٹ سے ایک ٹویٹ کرکے کہا، "ایسا لگتا ہے کہ @Elonjetکو معطل کر دیا گیا ہے۔"

اس کے کچھ دیر بعد ان کا ذاتی اکاؤنٹ بھی معطل کردیا گیا۔

مسک نے جنوری میں 20 سالہ سوینی کو اپنے طیارے کو ٹریک کرنے والے اکاؤنٹ کو بند کرنے کے بدلے میں 5000 ڈالر کی پیش کش کی تھی۔

ٹوئٹر پر کنٹرول حاصل کرنے کے بعد ارب پتی تاجر مسک نے نومبر کے اوائل میں وعدہ کیا تھا کہ اس کے باجود کہ "یہ ان کی ذاتی حفاظت کے لیے براہ راست خطرہ" ہے، وہ اس اکاؤنٹ کو ہاتھ نہیں لگائیں گے ۔

میں ایلون مسک کیسے بنا؟

07:50

This browser does not support the video element.

ٹوئٹر نے اپنی میڈیا پالیسی بدل دی

ایلون مسک نے بدھ کے روز ٹویٹ کیا،"کسی دوسرے شخص کی ریئل ٹائم لوکیشن کی معلومات دینے والے کسی بھی ڈاکسنگ اکاؤنٹ کو معطل کر دیا جائے، کیونکہ اس سے شخصی حفاظت کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔"

ڈاکسنگ سے مراد کسی شخص کی شناخت کرنے والی معلومات مثلا ً گھر کا پتہ، فون نمبر وغیرہ ہے، جس سے مذکورہ شخص کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔

سوینی کے اکاؤنٹ کو معطل کرنے کے بعد ٹوئٹرنے اپنی میڈیا پالیسی کو اپ ڈیٹ کرتے ہوئے کہا،"آپ دوسرے لوگوں کی نجی معلومات کو ان کی واضح اجازت یا مرضی کے بغیر شائع یا پوسٹ نہیں کرسکتے ہیں۔"

اربوں ڈالر کا معاہدہ ختم کرنے پر ٹوئٹر نے ایلون مسک کے خلاف مقدمہ دائر کر دیا

جمعرات کے روز مسک نے کہا،"صحافیوں پر بھی وہی قوانین لاگو ہوتے ہیں جو دوسروں کے لیے ہیں۔"

ایک اور ٹویٹ میں مسک نے کہا،"مجھ پر سارا دن تنقید کرتے رہیں، کوئی بات نہیں، لیکن میری موجودگی کے حقیقی مقام کو ظاہر کر کے میرے خاندان کو خطرے میں ڈالنا درست نہیں ہے۔"

 ج ا/ ش ر    (اے ایف پی، روئٹرز، اے پی)

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں