امریکی حکومت نے مقبول چينی ویڈیو ایپ ٹِک ٹاک کو ڈاؤن لوڈ کرنے پر پابندی عائد کر دی ہے۔ اس پابندی پر عمل در آمد اتوار بيس ستمبر سے شروع ہو رہا ہے۔
اشتہار
چينی ویڈیو شيئرنگ ایپ ٹِک ٹاک پر پابندی امريکا کی قومی سلامتی کے حوالے سے خدشات کے تناظر میں لگائی گئی ہے۔ اس پابندی کے بعد ٹِک ٹاک کو امريکا ميں ڈاؤن لوڈ نہیں کیا جا سکے گا۔ وہ صارفين، جن کے اسمارٹ فونز ميں يہ ايپ پہلے ہی سے موجود ہے، نومبر تک اس ايپ کو استعمال کر سکيں گے مگر اسے اپ ڈيٹ کرنا ممکن نہيں ہو گا۔ امریکی وزارت کامرس کے مطابق اتوار سے ٹک ٹاک تک رسائی بھی محدود کر دی جائے گی۔ ساتھ ہی چین کی ایک اور ایپ 'وی چیٹ‘ پر مکمل پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ یہ ایپ پیغامات رسانی، رقوم کی ادائیگی اور شاپنگ ميں مدد فراہم کرتی ہیں۔
ماہرين کے مطابق ان تازہ اقدامات سے دنیا کی ان دو بڑی اقتصادی قوتوں کے درمیان ٹیکنالوجی اور اقتصادی معاملات پر پہلے سے پائی جانے والی کشیدگی میں مزيد اضافے کا قوی امکان ہے۔
واشنگٹن سے جاری ہونے والے حکم میں واضح کیا گیا ہے کہ بیس ستمبر سے 'ٹین سینٹ کمپنی‘ کی ملکیت 'وی چیٹ‘ ايپ امریکا میں اپنی فعالیت سے پوری طرح محروم ہو جائے گی۔ یہ بھی بتایا گیا کہ ٹِک ٹاک کے صارفین بھی اتوار سے نئی اپ ڈیٹس اور دوسری تبدیلیوں کو ڈاؤن لوڈ نہیں کر سکیں گے البتہ صارفين بارہ نومبر تک ايپ استعمال کر سکيں گے۔ يہ امر اہم ہے کہ ٹِک ٹاک کو امریکی صدارتی انتخابات کا اپ ڈیٹ ریلیز کرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔
انتہائی مقبول ایپ ٹِک ٹاک کی ملکیت و نگرانی بائٹ ڈانس کے پاس ہے، جو ایک چینی کمپنی ہے۔ اس ایپ پر امریکی سکیورٹی حلقوں کو گہرے تحفظات لاحق ہیں۔ امریکی حکومت چاہتی ہے کہ بائٹ ڈانس کے ساتھ ملکیت میں کوئی امریکی کمپنی بھی شامل ہو جائے تاکہ ڈیٹا کے تحفظ کے يقين دہانی ہو سکے۔
دريں اثناء چینی وزارتِ کامرس نے امريکا کی جانب سے ان تازہ پابندیوں کی مذمت کی ہے۔ وزارت نے اپنے بیان میں کہا کہ یہ پابندیاں امریکی رویے کا تسلسل ہيں اور اگر امریکا اپنی راہ کا انتخاب کرتا ہے تو چین بھی اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے مناسب اور جائز اقدامات اٹھانے کا مجاز ہے۔ ٹِک ٹاک کی منتظم کمپنی نے بھی امریکی پابندیوں کو نامناسب قرار دیتے ہوئے واضح کیا کہ وہ ان پابندیوں کے خلاف مزاحمتی عمل عدالت میں جاری رکھے گی۔ کمپنی کے بیان کے مطابق یہ ایپ کسی فردِ واحد کی ذاتی تفریح کا ذریعہ ہے اور پابندی کا واحد مقصد ذاتی تفریح تک رسائی کو محدود کرنا ہے۔
ٹک ٹاک کے حوالے سے سکیورٹی خدشات غیر واضح ہیں اور حکومتی پابندی نے آزادئ اظہار پر تشویش پیدا کر دی ہے۔ کولمبیا یونیورسٹی کے نائٹ فرسٹ امینڈمینٹ انسٹیٹیوٹ کے ڈائریکٹر جمیل جعفر کا کہنا ہے کہ یہ پابندی ایک غلطی ہے اور اس نے امریکی دستور کی پہلی ترمیم کو بھی محدود کر دیا ہے۔
اُدھر امریکا کے وزیرِ تجارت ولبر روس کا کہنا ہے کہ چینی کمیونسٹ پارٹی نے اس کا اظہار کر رکھا ہے کہ وہ ان ایپس کے ذریعے امریکی اقتصادیات، خارجہ پالیسی اور قومی سلامتی کے لیے خطرات کھڑے کرے گی۔ امریکی صدر ٹرمپ بھی کہہ چکے ہیں کہ یہ چینی ایپس جاسوسی میں ملوث ہو سکتی ہیں۔
ٹرمپ دنيا بھر ميں کس کس سے ناراضی مول لیے بيٹھے ہيں!
مسائل داخلی ہوں يا بين الاقوامی امريکی صدر ٹرمپ کے ان سے نمٹنے کے انداز کو متنازعہ خیال کیا جاتا ہے۔ يہی وجہ ہے کہ روايتی حريف روس اور چين ہی نہيں بلکہ يورپی يونين جيسے قريبی اتحادی بھی ٹرمپ سے نالاں دکھائی دیتے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/N. Kamm
پاکستان اور امريکا، ايک پيچيدہ رشتہ
ڈونلڈ ٹرمپ نے رواں سال کے آغاز پر اپنی ٹوئيٹس ميں پاکستان پر شديد تنقيد کی۔ انتظاميہ چاہتی ہے کہ اسلام آباد حکومت ملک ميں دہشت گردوں کی پناہ گاہوں کے خلاف زيادہ موثر کارروائی کرے۔ دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کے حلیفوں پاکستان اور امريکا کے بيچ فاصلے بڑھتے جا رہے ہيں۔ ستمبر 2018ء ميں امريکی وزير خارجہ کے دورے سے بھی زيادہ فرق نہيں پڑا۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Hassan
اقتصادی جنگ ميں چين اور امريکا ميں مقابل
روسی ہتھياروں کی خريداری پر امريکا نے چينی فوج پر ستمبر 2018ء ميں تازہ پابندياں عائد کيں۔ جواباً چين نے دھمکی دی کہ پابندياں خنم کی جائيں يا پھر امريکا اس کا خميازہ بھگتنے کے ليے تيار رہے۔ چين اور امريکا کے مابين يہ واحد تنازعہ نہيں، دنيا کی ان دو سب سے بڑی اقتصادی قوتوں کے مابين تجارتی جنگ بھی جاری ہے۔ دونوں ممالک ايک دوسرے کی درآمدات پر اضافی محصولات عائد کرتے آئے ہيں۔
تصویر: picture-alliance/newscom/S. Shaver
روس کے ساتھ بھی چپقلش
ادھر روس نے کہا ہے کہ ’امريکا آگ سے کھيل رہا ہے‘ اور اس سے عالمی امن و استحکام کو خطرہ لاحق ہے۔ يہ بيان روس کے خلاف امريکی پابنديوں کے تناظر ميں سامنے آيا۔ امريکا اور روس کے مابين ان دنوں شام، يوکرائن، امريکی صدارتی انتخابات ميں مبينہ مداخلت، سائبر جنگ اور کئی ديگر اہم امور پر سنگين نوعيت کے اختلافات پائے جاتے ہيں۔ کئی ماہرين کے خیال میں اس وقت ’ايک نئی سرد جنگ‘ جاری ہے۔
اسرائيل اور فلسطين کے مابين تنازعے ميں بھی ٹرمپ کے کردار پر سواليہ نشان لگايا جاتا ہے۔ پچھلے سال کے اواخر ميں جب ٹرمپ انتظاميہ نے يروشلم کو اسرائيل کا دارالحکومت تسليم کيا، تو اس کا عالمی سطح پر رد عمل سامنے آيا اور خطہ اس کے نتائج آج تک بھگت رہا ہے۔ يورپی رياستيں اس پرانے مسئلے کے ليے دو رياستی حل پر زور ديتی ہيں، ليکن ٹرمپ کے دور ميں دو رياستی حل کی اميد تقريباً ختم ہو گئی ہے۔
تصویر: Imago/ZumaPress
اتحاديوں ميں بڑھتے ہوئے فاصلے
ٹرمپ کے دور ميں واشنگٹن اور يورپی يونين کے تعلقات بھی کافی حد تک بگڑ چکے ہيں۔ معاملہ چاہے تجارت کا ہو يا ايران کے خلاف پابنديوں کی بحالی کا، برسلز اور واشنگٹن کے نقطہ نظر مختلف ہوتے ہيں۔ امريکی صدر مہاجرين کے بحران، بريگزٹ، يورپی يونين ميں سلامتی کی صورتحال، يورپ ميں دائيں بازو کی قوتوں ميں اضافہ و مغربی دفاعی اتحاد نيٹو کے بجٹ جيسے معاملات پر يورپی قيادت کو کافی سخت تنقيد کا نشانہ بنا چکے ہيں۔
جی سيون بھی تنازعے کی زد ميں
اس سال جون ميں کينيڈا ميں منعقد ہونے والی جی سيون سمٹ تنقيد، متنازعہ بيانات اور الزام تراشی کا مرکز بنی رہی۔ ٹرمپ نے اس اجلاس کے اختتام پر مشترکہ اعلاميے پر دستخط کرنے سے انکار کر ديا، جس پر تقريباً تمام ہی اتحادی ممالک کے رہنماؤں نے ٹرمپ کے اس رويے کی مذمت کی۔ کيوبک ميں ہونے والی جی سيون سمٹ کے بعد ميزبان ملک کے وزير اعظم جسٹن ٹروڈو اور ٹرمپ کے مابين لفظوں کی ايک جنگ بھی شروع ہو گئی تھی۔