مشرقی افریقہ میں ٹڈی دل کے حملوں کے باعث سوا کروڑ سے زائد انسانوں کے فاقوں کا شکار ہو جانے کا شدید خطرہ ہے۔ اقوام متحدہ نے اس ’خوفناک مسئلے‘ کی نشاندہی کرتے ہوئے عالمی برادری سے فوری مدد کی اپیل کی ہے۔
اشتہار
عالمی ادارے کے مطابق براعظم افریقہ کے مشرقی حصے میں اتنی زیادہ تعداد میں ٹڈی دل زرعی شعبے میں فصلوں اور درختوں پر حملے کر رہے ہیں کہ ان کی وجہ سے پیدا ہونے والے 'خوفناک مسئلے‘ کو بروقت حل کرنا بظاہر مشکل سے مشکل تر نظر آنے لگا ہے۔
عالمی ادارے نے بین الاقوامی برادری سے اس ٹڈی دل سے نمٹنے کی کارروائیوں میں مدد کی اپیل کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان حشرات کی وجہ سے سوا کروڑ سے زائد (13 ملین) انسانوں کی بقا کو شدید خطرہ پیدا ہو چکا ہے، کیونکہ یہ ٹڈیاں ان انسانوں کی خوراک یا تو کھا جائیں گی یا اسے بالکل ناکارہ بنا دیں گی۔
کئی ممالک بری طرح متاثر
اقوام متحدہ کے ہنگامی بنیادوں پر امدادی کارروائیوں کے رابطہ کار مارک لوکاک نے نیو یارک میں بتایا کہ اگر عالمی برادری نے اس مسئلے کے حل کی طرف فوری توجہ نہ دی، تو پورے مشرقی افریقی خطے میں اس سال کے دوران عام لوگوں کے لیے خوراک کی دستیابی کی صورت حال تشویش ناک صورت اختیار کر جائے گی۔
اپنے پیچھے کسی قدرتی آفت کی طرح کے اثرات چھوڑ جانے والے ان ٹڈی دلوں سے سب سے زیادہ متاثرہ ممالک میں صومالیہ، ایتھوپیا اور کینیا شامل ہیں۔ اس کے علاوہ چند روز پہلے یہی ٹڈی دل یوگنڈا بھی پہنچ گئے تھے۔
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خوراک و زراعت (ایف اے او) کے مطابق ان ٹڈی دلوں سے نمٹنے کے لیے کم از کم بھی 76 ملین ڈالر کے برابر مالی وسائل درکار ہیں جبکہ اب تک ان رقوم میں سے اس ادارے کو صرف 20 ملین ڈالر ہی مل سکے ہیں۔
تباہی کی شدت
ماہرین کے مطابق صحراؤں میں پرورش پانے والے ٹڈی دل علاقائی سطح پر موسمی حالات کے باعث اس وقت انتہائی تیز رفتاری سے نمو پا رہے ہیں اور حیاتیاتی حوالے سے ان حشرات کی فی کس اوسط عمر بھی کافی زیادہ ہو چکی ہے۔ مزید یہ کہ کسی بھی خطے میں جب ان ٹڈیوں کو اپنی بقا خطرے میں محسوس ہونے لگتی ہے، تو وہ کئی کئی لاکھ کے گروہوں کی صورت میں مل کر کسی نہ کسی نئے علاقے کا رخ کر لیتے ہیں۔
ادارہ برائے خوراک و زراعت کے مطابق یہ ٹڈی دل اتنے بڑے اور اتنے تیز رفتار ہیں، کہ وہ ایک دن میں 150 کلومیٹر تک کا فاصلہ طے کر سکتے ہیں۔ پھر جب یہ کسی بھی علاقے پر حملہ کرتے ہیں تو اپنی شدید بھوک اور افزائش نسل کے بہت شدید حیاتیاتی رویوں کے نتیجے میں اپنے پیچھے تباہی اور بربادی کے وسیع و مناظر چھوڑ جاتے ہیں۔
م م / ع ا (اے ایف ی، اے پی)
ہماری خدمت کرنے والے قدرتی خاکروب
بہت سے فاضل مادے ہماری سڑکوں اور گلیوں میں پڑے رہتے ہیں۔ ان کو صاف کون کرتا ہے؟ جواب ہے، کیڑے مکوڑے! سائنسدانوں کے مطابق ان جانداروں کے بغیر ماحولیاتی صفائی ممکن ہی نہیں۔
تصویر: Thangasami Sivanu
چھوٹے خاکروب
تعارف: لان چیونٹی۔ اس چیونٹی ہی کی وجہ سے ہمارے گھر اور سڑکیں چوہوں اور دیگر بڑے جانوروں کی کثیر تعداد سے محفوظ رہتے ہیں۔ جہاں بھی کوڑا کرکٹ پھینکا جاتا ہے، وہاں یہ چھوٹی چھوٹی چیونٹیاں دیگر بڑے اور نقصان دہ جانوروں کے لیے کم ہی کچھ باقی چھوڑتی ہیں۔
تصویر: April Nobile/AntWeb.org/cc-by-sa
بہترین سروس
چیونٹیاں شہروں کو صاف رکھتی ہیں۔ امریکی ریاست نارتھ کیرولائینا کی اسٹیٹ یونیورسٹی کی ایک خاتون سائنسدان اس کی تصدیق کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ یہ چیونٹیاں درحقیقت بہترین سروس فراہم کرتی ہیں۔ یہ فاضل مادوں کو بہترین انداز سے ٹھکانے لگاتی ہیں۔
تصویر: picture alliance/landov/Jason Wambsgans
سارا عملہ صفائی کے لیے
صرف چیونٹیاں ہی صفائی نہیں کرتیں۔ اس عمل میں تمام کیڑے مکوڑے، مثلاﹰ مکڑیاں، کنکھجورے اور بہت بدنام کاکروچ تک سبھی ایک دوسرے کا ساتھ دیتے ہیں۔ سائنسدانوں کے مطابق انہی جانداروں کی وجہ سے گلیاں اور سڑکیں گرم اور خشک رہتی ہیں اور انسانی رہائشی علاقے دیگر خطرناک جانوروں سے محفوظ رہتے ہیں۔
تصویر: picture alliance/epa/Vinai Dithajohn
کیڑوں کی چہل قدمی
امریکی سائنسدانوں کے مطابق نیو یارک شہر کے علاقے مین ہیٹن کی مشہور سڑکوں براڈوے اور ویسٹ اسٹریٹ پر ان حشرات الارض کی چہل قدمی آسانی سے دیکھی جا سکتی ہے۔ تحقیق کے مطابق وہاں یہ کیڑے سالانہ ایک ہزار کلو گرام پھینکا ہوا کھانا کھا جاتے ہیں۔ یہ مقدار 60 ہزار ہاٹ ڈاگ برگروں کے برابر بنتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/Sergi Reboredo
گھروں اور گلیوں میں
کیڑے ہمیشہ خوراک کا پیچھا کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ ہمیشہ ایسی جگہوں کا رخ کرتے ہیں، جہاں انہیں کچھ کھانے کو ملتا ہو۔ امریکی ماہرین کے مطابق یہی بات ان کیڑوں کو سڑکوں اور آبادی والے علاقوں تک کھینچ لاتی ہے۔
تصویر: picture alliance/dpa/Sven Hoppe
چوہوں کے بجائے چیونٹیاں
اصل میں کوڑے کے طور پر فاضل مادوں کے معاملے میں حشرات اور ریڑھ کی ہڈی والے جانوروں میں مقابلہ بازی رہتی ہے۔ اگر یہ مقابلہ بازی نہ ہو تو چوہوں کی تعداد میں بےتحاشا اضافہ ہو جائے۔ اگر چوہے کم ہوں گے تو ان سے انسانوں کو منقتل ہونے والی بیماریاں بھی کم ہوں گی۔ اسی وجہ سے امریکی سائنسدانوں نے نیویارک شہر کو ’چیونٹیوں کے لیے فرینڈلی شہر‘ بنانے کا مشورہ دیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Andrew Gombert
اپنا اپنا حصہ
کبوتر ہوں، کوّے یا پھر گلہریاں، یہ سبھی خوراک میں سے اپنا اپنا حصہ چاہتے ہیں۔ ضائع کر دیے گئے یا پھر پھینک دیے گئے کھانے کا زیادہ تر حصہ حشرات کے بجائے بڑے جانوروں کے معدے میں جاتا ہے۔ کبوتر، کوّے اور کتے وغیرہ ہر قسم کے کھانے پر نظر رکھتے ہیں۔
تصویر: Imago
شاندار مستقبل
ابھی تک انسان اتنی زیادہ خوراک ضائع کرتا ہے یا پھینک دیتا ہے کہ اس سے اربوں کی تعداد میں چھوٹے چھوٹے حشرات، چوہے، کبوتر اور کوّے خوش ہو جاتے ہیں۔ یہ ایک ایسا نظام ہے، جو ہمارے ماحول کے لیے بھی ضروری ہے۔