ٹکٹوں کی تقسیم: تحریک انصاف کی قیادت کے خلاف انصاف کی دہائی
عبدالستار، اسلام آباد
21 جون 2018
آئندہ عام انتخابات کے لیے ٹکٹوں کی تقسیم پر پاکستان تحریک انصاف کے کارکن اپنے رہنما عمران خان کی رہائش گاہ کے باہر ’انصاف کی دہائی‘ دے رہے ہیں لیکن عمران خان ان کارکنوں کی ’بلیک میلنگ‘ کا شکار ہونے پر تیار نہیں ہیں۔
اشتہار
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اپنے سیاسی مخالفین کی بد عنوانی، بے اصولی اور اقربا پروری کے خلاف دھرنے دینے والی تحریک انصاف کی قیادت خود اپنی ہی صفوں میں ’مخلص کارکنوں‘ کے دھرنے کے حصار میں آ گئی ہے۔ یہ کارکن اپنی وفاداریاں تبدیل کرنے والے سیاسی موقع پرستوں کو انتخابی ٹکٹیں دینے کا فیصلہ واپس لیے جانے تک اسلام آباد کے پر فضا علاقے بنی گالہ میں واقع اپنے رہنما کی رہائش گاہ کے سامنے سے اٹھنے کو تیار ہی نہیں ہیں۔ لیکن عمران خان نے بھی واشگاف الفاظ میں کہہ دیا ہے کہ وہ اس معاملے میں کسی دباؤ میں نہیں آئیں گے۔ ان حالات میں کئی پارٹی رہنماؤں اور کارکنوں کا یہ خیال بھی ہے کہ اعلیٰ قیادت کے فیصلوں کا احترام کیا جانا چاہیے۔
پاکستانی صوبے خیبر پختونخوا کے حلقہ 67 سے آئے ہوئے ایک کارکن عارف خان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے حلقے سے تحریک کے دیرینہ نظریاتی کارکن شہزاد خان کو پارٹی ٹکٹ دیا جائے۔ جب تک انہیں ٹکٹ نہیں ملے گا، ہم یہاں سے نہیں اٹھیں گے۔‘‘ اسی طرح پنجاب میں قومی اسمبلی کے حلقہ 154 سے پی ٹی آئی کے کارکن سابق وفاقی وزیر برائے زراعت سکندر بوسن کو ٹکٹ دیے جانے پر سخت نالاں ہیں۔ ملتان سے تعلق رکھنے والے پی ٹی آئی کے ایک کارکن جمیل احمد نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’ہم نے احتجاج کا پر امن طریقہ اپنایا ہے، جو ہمیں عمران خان نے ہی سکھایا ہے۔ ہماری پارٹی کا نام تحریک انصاف ہے، اگر پارٹی کارکنان کے ساتھ ہی انصاف نہیں ہو گا، تو ہم کس منہ سے لوگوں کے پاس جائیں گے؟‘‘
قومی اسمبلی کے حلقہ 154 سے پی ٹی آئی کے رہنما احمد حسن دیہڑ نے تین برس پہلے ٹکٹ ملنے کی توقع میں اس جماعت میں شمولیت اختیار کی تھی۔ انہوں نے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’اس علاقے میں سکندر بوسن کی ساکھ بہت خراب ہے۔ انہوں نے مسلم لیگ ن کے دور اقتدار میں مزے لوٹے اور وفاقی وزیر زراعت ہونے کے باوجود کسانوں کے لیے کچھ نہ کیا۔ کئی کسانوں نے خودکشیاں بھی کیں۔ اس فیصلے سے پارٹی کارکنان میں سخت مایوسی پائی جاتی ہے۔‘‘ احمد حسن دیہڑ کا مزید کہنا تھا، ’’میں نے ہزاروں کی تعداد میں پارٹی کی رکنیت سازی کی۔ عمران خان کے بہت کامیاب جلسے کا انتظام کیا۔ اس حلقے میں کم از کم تینتالیس ہزار ووٹ میرے پاس ہیں۔ اگر مجھے ٹکٹ نہ دیا گیا، تو میں آزاد امیدوار کے طور پر الیکشن لڑوں گا۔‘‘
اسلام آباد میں احتجاجی دھرنے
اسلام آباد میں پاکستان کی دو اپوزیشن جماعتیں اپنے ہزارہا کارکنوں کے ہمراہ وزیراعظم نواز شریف کے استعفے کے مطالبے کے ساتھ دھرنے دیے ہوئے ہیں۔ 30 اور 31 اگست کی درمیانی شب پولیس نے ان مظاہرین کے خلاف طاقت کا استعمال کیا۔
تصویر: DW/S. Raheem
دھاوا بولنے والے شناخت
دھرنے کے دوران پاکستان عوامی تحریک کے بے قابو مظاہرین پاکستان ٹیلی وژن کی عمارت کے اندر بھی داخل ہو گئے، جس کے بعد پی ٹی وی کی نشریات کچھ دیر کے لیے منقطع ہو گئیں۔ تاہم کچھ ہی دیر کے بعد فوج پہنچ گئی اور یہ مظاہرین پُر امن طور پر پی ٹی وی کے احاطے سے باہر آ گئے۔ مقامی میڈیا کے مطابق حکومت کا کہنا ہے کہ دھاوا بولنے والوں میں سے ستِّر کے قریب افراد کو شناخت کر لیا گیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo
عمارتیں فوج کے حوالے
اس احتجاج کے موقع پر حکومت نے اہم سرکاری عمارتوں کے تحفظ کی ذمہ داری پاکستانی فوج کو سونپ دی تھی۔ یہ فوجی مختلف مقامات پر پہرہ دیتے اور گشت کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ مظاہرین کی طرف سے پاکستان ٹیلی وژن کی عمارت پر دھاوے کے بعد نشریات کچھ دیر کے لیے منقطع ہو گئی تھیں۔ بعد ازاں فوج نے اس اہم عمارت کا کنٹرول سنبھال لیا۔
تصویر: Reuters
طاقت کا استعمال، سینکڑوں افراد زخمی
اسلام آباد میں ہفتے کی شب پولیس نے آزادی مارچ اور انقلاب مارچ کے مظاہرین کے خلاف طاقت کا استعمال کیا۔ اس موقع پر ڈھائی سو سے زائد افراد زخمی ہوئے، جنہیں مختلف ہسپتالوں میں داخل کیا گیا۔
تصویر: Reuters
پرامن دھرنے سے پرتشدد احتجاج تک
گزشتہ دو ہفتوں سے زائد عرصے سے جاری یہ دھرنے 30 اور 31 اگست کی درمیانی شب پرتشدد واقعے میں اس وقت تبدیل ہو گئے، جب پولیس کی جانب سے طاقت کے استعمال کے بعد مظاہرین نے بھی پولیس پر پتھراؤ شروع کر دیا۔ ان واقعات میں اب تک تین افراد ہلاک جب کہ دو سو سے زائد افراد زخمی ہو چکے ہیں۔
تصویر: Reuters
سکیورٹی فورسز کی کارروائی
دھرنوں کی وجہ سے اسلام آباد میں اہم عمارتوں کی حفاظت کے لیے پولیس کی بھارت نفری طلب کی گئی تھی۔ مظاہرین کی جانب سے اہم عمارتوں کی جانب بڑھنے پر پولیس نے طاقت کا بھرپور استعمال کیا۔
تصویر: DW/Shakoor Raheem
مظاہرین پر آنسو گیس کا استعمال
ہفتے اور اتوار کی درمیانی شب پارلیمان کی عمارت اور وزیراعظم ہاؤس کی جانب بڑھنے کی کوشش کرنے والے مظاہرین کے خلاف پولیس کی جانب سے آنسو گیس کا استعمال کیا گیا جب کہ ربر کی گولیاں چلائی گئیں۔
تصویر: Reuters
پنجاب پولیس کارروائی میں پیش پیش
مظاہرین سے نمٹنے کے لیے دارالحکومت کی پولیس کی مدد کے لیے وزارت داخلہ نے صوبہ پنجاب کی پولیس سے بھی مدد طلب کی تھی۔
تصویر: DW/Shakoor Raheem
مظاہرین کی جانب سے بھی پتھراؤ
پولیس کی جانب سے آنسو گیس اور ربر کی گولیوں کے استعمال کے بعد مظاہرین نے بھی لاٹھیوں اور پتھروں کا استعمال کیا۔
تصویر: DW/Shakoor Raheem
مظاہرین اور پولیس میں آنکھ مچولی
طاقت کے استعمال کے باوجود مظاہرین منتشر اور پھر جمع ہوتے رہے۔ سیکورٹی فورسز نے اہم عمارتوں تک جانے والے تمام راستوں کو بڑے بڑے کنٹینرز رکھ کر بند کر دیا گیا تھا۔
تصویر: DW/Shakoor Raheem
عوامی تحریک اور محفل سماع
پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ اور مذہبی رہنما طاہر القادری کے حامیوں کی ایک بڑی تعداد اس دھرنے میں شریک ہے۔ گاہے بگاہے یہاں محفل سماع کا بھی اہتمام کیا جاتا رہا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
پارلیمان کا ’تقدس‘
پاکستانی حکومت اور فوج دونوں نے کہ رکھا تھا کہ وہ پارلیمان اور دیگر اہم ریاستی اداروں کے تقدس کو یقینی بنائیں گے۔ اس لیے ایسی عمارتوں کے باہر سکیورٹی اہلکاروں کی بھاری نفری تعینات تھی۔
تصویر: DW/S. Raheem
احتجاج کے ساتھ میلہ بھی
پارلیمان کے سامنے شاہراہ دستور جسے اہم عمارات کی موجودگی کی وجہ سے انتہائی حساس علاقہ سمجھا جاتا ہے، وہاں گزشتہ دو ہفتوں سے وہاں مظاہرین چلتے پھرے نظر آتے رہے اور ایک میلے کا سا سماں رہا۔
تصویر: DW/S. Raheem
عوامی تحریک کی کرین
مظاہروں کو ریڈ زون میں داخلے سے روکنے کے لیے اس علاقے کو بڑے بڑے کنٹینرز رکھ کر بند کر دیا گیا تھا، تاہم عوامی تحریک اپنے ہمراہ لاہور سے ایک کرین ساتھ لیے ہوئے تھی، جس کے ذریعے ان کنٹینروں کو بآسانی راستے سے ہٹا دیا گیا اور لوگ ریڈ زون میں داخل ہو گئے۔
تصویر: DW/S. Raheem
گرمی بھی دھرنا بھی
احتجاجی خطابات عموماﹰ شام کے وقت ہوتے رہے، جب کہ باقی سارا دن یہ دھرنا دیے ہوئے مظاہرین موسم کی شدت سے بچنے کے لیے کہیں چھتریوں کی آڑ میں نظر آتے رہے ہیں اور کہیں ٹرکوں ہی کو سائبان کیے دِکھتے رہے۔
تصویر: DW/S. Raheem
مقامی میڈیا کی بازی گری
مقامی ٹی وی چینلز بریکنگ نیوز کی دوڑ میں ایک دوسرے پر سبقت لینے کے لیے جدید ٹیکنالوجی سے بھی کام لے رہے ہیں، جن میں کیمروں کے حامل ڈرونز کا استعمال بھی شامل ہے، جس کے ذریعے جلسے میں مظاہرین کی تعداد اور فضائی منظر کی مدد سے عوام کو لمحے لمحے کی خبر دینے کی تگ و دو دیکھی جا سکتی ہے۔
تصویر: DW/S. Raheem
15 تصاویر1 | 15
جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے کئی روایتی سیاست دانوں نے حالیہ مہینوں یا ہفتوں میں تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی ہے۔ پنجاب کے سابق گورنر غلام مصطفٰے کھر بھی انہی سیاستدانوں میں سے ایک ہیں۔ ان کے حلقے سے پی ٹی آئی کے رہنما شبیر علی قریشی کو نظر انداز کرتے ہوئے پارٹی نے انتخابی ٹکٹ غلام مصطفٰے کھر کو دے دیا ہے، جس پر پارٹی رہنماؤں اور کارکنوں میں اشتعال پایا جاتا ہے۔ پارٹی کے ایک رہنما شبیر علی قریشی نے اس فیصلے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’ہم تین برسوں سے اس حلقے میں پارٹی کے لیے محنت کر رہے ہیں۔ روایتی سیاست دانوں کو ٹکٹ دینے کے فیصلے سے نوجوان قیادت کو آگے لانے کے دعووں کی نفی ہوتی ہے۔ کئی کارکن اب یہ سوال بھی کر رہے ہیں کہ آیا ’تبدیلی‘ کا نعرہ محض ایک دھوکا تھا۔‘‘
دوسری طرف اسی پارٹی کے ایک رہنما اور سیالکوٹ سے تعلق رکھنے والے قومی اسمبلی کے سابق اسپیکر چوہدری امیر حسین نے تحریک انصاف کی قیادت کے فیصلوں کا دفاع کرتے ہوئے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’مجھے بھی پارٹی نے ٹکٹ نہیں دیا۔ لیکن اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ میں دھرنے دینا شروع کر دوں۔ ہمیں پارٹی فیصلوں کا احترام کرنا چاہیے اور تحریک کی قیادت کے لیے مشکلات پیدا نہیں کرنا چاہیے۔‘‘
کئی سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ جاگیرداروں، سرمایہ داروں اور بار بار آزمائے ہوئے اسٹیبلشمنٹ کے مہروں کو ٹکٹیں دینے سے پی ٹی آئی کا ’تبدیلی‘ کا نعرہ کمزور پڑا ہے اور پارٹی کارکنوں میں بددلی پھیلی ہے۔ پنجاب کی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے تجزیہ نگار احسن رضا کے خیال میں روایتی سیاست دانوں کو پارٹی ٹکٹیں دینے کے بعد تحریک انصاف خاص طور پر ’پنجاب میں انتشار کا شکار‘ نظر آتی ہے۔ انہوں نے ڈوئچے ویلے کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا، ’’یہ کوئی ایک دو حلقوں کی بات نہیں ہے۔ ڈیرہ غازی خان، ملتان، رحیم یار خان، سیالکوٹ، منڈی بہاؤالدین، گجرات، راجن پور اور مظفر گڑھ سمیت کئی علاقوں میں اس پارٹی کو انتخابی ٹکٹوں کی تقسیم کے حوالے سے مزاحمت کا سامنا ہے۔‘‘
عمران اور ریحام خان کا غیر روایتی ولیمہ
تصویر: DW/S. Rahim
عمران خان کا نکاح ان کی جماعت پی ٹی آئی کی مرکزی مجلس عاملہ کے ایک رکن مفتی سعید نے پڑھایا۔عمران اور انکی اہلیہ نے بعد میں مفتی سعید کے مدرسے میں ہی طلباء کے ہمراہ ولیمے کاکھا نا کھایا۔
تصویر: DW/S. Rahim
عمران خان اور ان کی اہلیہ ریحام خان نے ولیمہ غیر روایتی انداز میں منایا
تصویر: DW/S. Rahim
عمران خان نے ولیمے کا کھانا اسلام آباد میں کم سن بچوں کے فلاحی ادارے" سویٹ ہومز" کو بھجوایا۔
تصویر: DW/S. Rahim
سویٹ ہومز میں رہائش پذیر بچوں میں سے زیادہ تر کا تعلق پاکستان کے شورش زدہ علاقوں سے ہے۔
تصویر: DW/S. Rahim
سویٹ ہومز کے بچوں کی مرغ پلاؤ اور کولڈ ڈرنکس سے تواضع کی گئی۔
تصویر: DW/S. Rahim
سویٹ ہومز کے بچے عمران خان کی جانب سے کھانا بھجوائے جانے پر خوش نظر آئے۔
تصویر: DW/S. Rahim
سویٹ ہومز اسلام آباد کی عمارت
تصویر: DW/S. Rahim
سویٹ ہومز کا ایک بچہ ڈرم بجا کر عمران خان اور ریحام خان کی شادی پر خوشی کا اظہار کر رہا ہے۔
تصویر: DW/S. Rahim
عمران خان اور ریحام خان کی طرف سے سویٹ ہومز کے بچوں کے لئے کھانا گاڑیوں کے زریعے بھجوایا گیا۔
تصویر: DW/S. Rahim
عمران خان نے گزشتہ روز بنی گالہ میں واقع اپنی رہائش گاہ پر ریحام خان سے نکاح کیا تھا۔