ٹک ٹاک خواتین فنکاروں کو مصر میں سزائیں سنا دی گئیں
30 جولائی 2020
ایک مصری عدالت نے نصف درجن نوجوان خواتین بلاگرز کو سزائیں سنائی ہیں۔ یہ سزائیں سیاسی جرائم کی بنیاد پر نہیں بلکہ عوامی اخلاقی روایات توڑنے پر دی گئی ہیں۔
اشتہار
مصری دارالحکومت قاہرہ کی عدالت نے سزائیں سناتے ہوئے ان سرگرم افراد کی سرگرمیوں کو شہری آزادیوں پر حملہ اور کھلی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔ ان تمام خواتین کو دو دو برس کی سزا اور ہر ایک کو جرمانے کے طور پر سولہ ہزار یورو بھی ادا کرنا ہوں گے۔
رواں ہفتے کے اوائل میں ایک اور عدالت نے دو نوجوان خواتین انفلوئنسرز کو بھی دو دو سال کی سزائیں سنا چکی ہے۔ حالیہ ایام کے دوران تین دوسری نوجوان عورتوں کو بھی دو دو سال کی سزا سنا کر جیل بھیجا جا چکا ہے۔ ابھی دو روز قبل بدھ اٹھائیس جولائی کو ایک خاتون کو تین برس کی قید کی ساتھ جرمانے کی سزا دی گئی۔ یہ تمام خواتین ماتحت عدالت کی جانب سے دی گئی اپنی اپنی سزاؤں کے خلاف اعلیٰ عدالت میں اپیل کا حق رکھتی ہیں۔
سزا سنانے والے ججوں نے اپنے فیصلوں میں لکھا کہ سزا کے مرتکبین نے نامناسب ڈانس ویڈیوز آن لائن اپ لوڈ کی ہیں اور یہ ویڈیوز ملکی معاشرتی اقدار کی خلاف ورزیاں تھیں۔ فیصلے میں تحریر کیا گیا کہ ان عورتوں کی ویڈیوز دوسری خواتین کو فحاشی کی ترغیب دینے کے ساتھ ساتھ انسانی اسمگلنگ کا باعث بھی بن سکتی ہیں۔ دفتر استغاثہ نے سزاؤں کے حوالے سے جو بیان جاری کیا ہے، اس میں دو نوجوان لڑکیوں کے نام بھی ظاہر کیے گئے۔ ان میں ایک بیس سالہ طالبہ حنین حسام اور دوسری بائیس برس کی موادا الضام ہیں۔ یہ دونوں نوجوان لڑکیاں ٹک ٹاک پر سرگرم تھیں۔ ان کی مختصر دورانیے کی ویڈیوز نوجوان افراد میں بے پناہ مقبول ہوئی تھیں۔ ان کے فالورز کی تعداد دس لاکھ سے بھی زیادہ ہے۔
ان کی پندرہ سیکنڈز والی ویڈیوز میں وہ اسپورٹس موٹر کاروں کے ساتھ اپنے کچن میں رقص کرنے کے علاوہ بے ضرر سے مذاق بھی کرتے دیکھی جا سکتی ہیں۔ ان ویڈیوز میں یہ نوجوان عورتیں بھاری میک اپ اور چست لباس کے ساتھ ہوتی تھیں، جو مصری روایات کے برعکس خیال کیا گیا۔
سعودی عرب میں خواتین کے حقوق کی جدوجہد: ایک جائزہ
سعودی عرب نے اعلان کیا ہے کہ خواتین کو قانونی سرپرست کی اجازت کے بغیر ہی ڈرائیونگ لائسنس جاری کیے جائیں گے۔ آئیے نظر ڈالتے ہیں کہ اس اسلامی جمہوریہ میں خواتین کے حقوق کی صورتحال کس طرح مثبت انداز میں بدل رہی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Nureldine
سن 1955: لڑکیوں کے لیے پہلا اسکول
سعودی عرب میں لڑکیاں اس طرح کبھی اسکول نہیں جا سکتی تھیں، جیسا کہ ریاض میں لی گئی اس تصویر میں نظر آ رہا ہے۔ سعودی عرب میں لڑکیوں کو اسکولوں میں داخلے کا موقع پہلی مرتبہ سن 1955 میں ملا تھا۔ اسی طرح سعودی عرب میں خواتین کی اعلیٰ تعلیم کا پہلا ادارہ سن 1970 میں قائم کیا گیا تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Nureldine
سن2001 : شناختی کارڈز کا اجراء
اکیسویں صدی کے آغاز پر سعودی عرب میں خواتین کے لیے پہلی مرتبہ شناختی کارڈز کا اجراء شروع کیا گیا۔ کسی مشکل صورت میں مثال کے طور پر وارثت یا جائیداد کے کسی تنازعے میں ان خواتین کے لیے یہ کارڈ ہی ایک واحد ایسا ثبوت تھا کہ وہ اپنی شناخت ظاہر کر سکیں۔ آغاز میں یہ کارڈز صرف مرد سرپرست کی اجازت سے ہی جاری کیے جاتے تھے۔ تاہم سن دو ہزار چھ میں اس پابندی کا خاتمہ بھی کر دیا گیا۔
تصویر: Getty Images/J. Pix
سن2005 : جبری شادیوں کا اختتام ( کاغذی سطح پر)
سعودی عرب میں سن دو ہزار پانچ میں قانونی طور پر خواتین کی جبری شادیوں کا خاتمہ کر دیا گیا۔ تاہم آج بھی اس اسلامی ریاست میں حقیقی طور پر کسی خاتون کا اپنی رضا مندی سے شادی کرنا ناممکن ہی معلوم ہوتا ہے۔ اب بھی سعودی عرب میں شادیوں کے حتمی فیصلے لڑکیوں کے والد اور ان کے ہونے والے شوہر ہی کرتے ہیں۔
تصویر: Getty Images/A.Hilabi
سن 2009 : پہلی وزیر خاتون
سن دو ہزار نو میں شاہ عبداللہ نے ملک کی پہلی خاتون حکومتی وزیر کو چنا۔ تب نورہ بنت عبد الله الفايز کو نائب وزیر برائے تعلیم نسواں مقرر کیا گیا تھا۔
تصویر: Foreign and Commonwealth Office
سن 2012 : اولمپک مقابلوں کے لیے پہلی خاتون ایتھلیٹ
سعودی عرب نے سن دو ہزار بارہ میں پہلی مرتبہ اجازت دے دی کہ اولمپک مقابلوں کے لیے ملکی خواتین ایتھلیٹس کا دستہ بھی بھیجا جائے گا۔ اس دستے میں سارہ عطار بھی شامل تھیں، جنہوں نے اس برس لندن منعقدہ اولمپک مقابلوں میں ہیڈ اسکارف کے ساتھ آٹھ سو میٹر ریس میں حصہ لیا۔ تب ایسے خدشات تھے کہ اگر ریاض حکومت نے ملکی خواتین کو ان مقابلوں میں شریک ہونے کی اجازت نہ دی تو سعودی عرب پر پابندی عائد کی جا سکتی ہے۔
تصویر: picture alliance/dpa/J.-G.Mabanglo
سن 2013: موٹر سائیکل اور بائیسکل چلانے کی اجازت
سعودی عرب کی حکومت نے سن دو ہزار تیرہ میں پہلی مرتبہ خواتین کو موٹر سائیکل اور بائیسکل چلانے کی اجازت دے دی۔ تاہم اس کے لیے سیر و سیاحت کے کچھ مقامات کو مختص کیا گیا۔ خواتین باقاعدہ مکمل لباس کے ساتھ اپنے مرد رشتہ داروں کے ساتھ ہی وہاں جا کر اپنا یہ شوق پورا کر سکتی ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP
سن 2013: مشاورتی شوریٰ میں خواتین کی نمائندگی
فروری سن دو ہزار تیرہ میں شاہ عبداللہ نے سعودی عرب کی مشاورتی کونسل کے لیے تیس خواتین کا انتخاب کیا۔ تب اس قدامت پسند ملک میں خواتین کے لیے ان اہم عہدوں پر فائز ہونے کو ایک اہم پیشرفت قرار دیا گیا تھا۔
تصویر: REUTERS/Saudi TV/Handout
سن 2015: ووٹ ڈالنے اور الیکشن لڑنے کا حق
سعودی عرب میں سن دو ہزار پندرہ میں پہلی مرتبہ خواتین کو حق رائے دہی استعمال کرنے کی اجازت ملی۔ اسی برس اس ملک میں منعقدہ بلدیاتی انتخابات میں خواتین پہلی مرتبہ الیکشن میں حصے لینے کی بھی اہل قرار پائیں۔ نیوزی لینڈ وہ پہلا ملک تھا، جس نے خواتین کو ووٹ ڈالنے کا حق دیا تھا، یہ بات ہے سن 1893 کی۔ جرمنی میں خواتین کو ووٹ کا حق 1919ء میں ملا تھا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/A. Batrawy
سن 2017: سعودی اسٹاک ایکسچینج کی خاتون سربراہ
فروی سن دو ہزار سترہ میں سعودی اسٹاک ایکسچینج کی سربراہ کے طور پر سارہ السحیمی کا انتخاب کیا گیا۔ یہ پہلا موقع تھا کہ سعودی عرب میں اس اہم عہدے پر کسی خاتون کا تقرر عمل میں آیا۔
تصویر: pictur- alliance/abaca/Balkis Press
سن 2018: ڈرائیونگ کی اجازت
چھبیس ستمبر سن دو ہزار سترہ کو سعودی حکومت نے اعلان کیا کہ خواتین کو گاڑی چلانے کی قانونی اجازت دی جا رہی ہے۔ جون سن دو ہزار اٹھارہ سے سعودی خواتین کو ضرورت نہیں رہے گی کہ وہ ڈرائیونگ لائسنس کے لیے اپنے کسی مرد سرپرست سے اجازت لیں یا گاڑی چلاتے ہوئے مرد سرپرست کو بھی ساتھ بٹھائیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/H. Jamali
سن 2018: اسٹیڈیمز میں جانے کی اجازت
انتیس اکتوبر سن دو ہزار سترہ کو سعودی عرب کی ’جنرل اسپورٹس اتھارٹی‘ نے اعلان کیا کہ خواتین کو کھیلوں کے اسٹیڈیمز میں جانے کی اجازت دی جا رہی ہے۔ سن دو ہزار اٹھارہ سے سعودی خواتین ملک میں قائم تین بڑے اسپورٹس اسٹیڈیمز میں جا کر وہاں منعقد ہونے والے کھیلوں کے مقابلوں سے لطف انداز ہو سکیں گی۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Nureldine
11 تصاویر1 | 11
مصر میں خواتین کو دی جانے والی سزاؤں پر حقوق کے اداروں کی جانب سے سخت ردعمل سامنے آیا ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی جرمن دفتر سے منسلک انسانی حقوق کی ماہر وینیسا اُلرش کا کہنا ہے کہ مصری خواتین بلاگرز کی گرفتاریاں اور سزائیں شہری آزادیوں پر کھلے حملے ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ عدالتی فیصلے مبہم ہیں اور یہ خاندانی اقدار کے بھی منافی ہیں۔ ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے وینیسا اُلرش نے مزید کہا کہ ایسے اقدامات سے مصری حکومت آن لائن پلیٹ فورمز کو کنٹرول کرنے کے علاوہ پدر سری معاشرتی نظام اور مروجہ قانونی نظام کو مضبوط بنانے کی کوشش ہے۔
دوسری جانب حنین حسام اور موادا الضام کے حامیوں نے اپنی پسندیدہ فنکاروں اور بلاگرز کو دی جانے والی سزاؤں کے خلاف آن لائن مہم بھی شروع کر رکھی ہے۔ ایک صارف کا کہنا ہے کہ ایسا دکھائی دیتا ہے کہ حکومت منظم انداز میں بے چین عوام پر کریک ڈاؤن کرنے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے۔ کچھ یوزرز کا اس تناظر میں کہنا ہے کہ سزا پانے والی بعض خواتین کا تعلق قدرے کم سماجی و معاشی طبقے سے ہے۔ یہ بھی کہا گیا کہ غریب افراد کو نشانہ بنایا جا رہا ہے کیونکہ وہ عدالت میں اپنا دفاع کرنے سے قاصر ہیں۔