ایئرکنڈیشنر اور دیگر کولنگ آلات، ایک طرف تو بڑھتے درجہء حرارت اور حدت میں دنیا بھر میں کروڑوں انسانوں کے لیے نہایت ضروری ہیں، مگر یہی آلات گلوبل وارمنگ کے اسباب میں بھی سرفہرست ہیں۔
اشتہار
گرمی کے دنوں میں ہم میں سے کئی افراد سوچے بغیر ہی ایئرکنڈیشنر چلا دیتے ہیں یا فریج سے کوئی ٹھنڈا شربت نکال کر پینے لگتے ہیں۔ مگر یہ آلات، جن تک اب بھی دنیا کے کروڑوں انسانوں کی رسائی نہیں، کبھی کبھی لوگوں کے لیے زندگی اور موت تک کا معاملہ ہوتے ہیں۔
کولنگ بھوک اور افلاس کے خاتمے کی کنجی بھی ہے۔ مثال کے طور پر ریفریجریٹر کی سہولت کا مطلب ہے کہ آپ ادویات کو اسٹور کر سکتے ہیں اور خوراک کا ضیاع بچا سکتے ہیں۔ ٹھنڈا کرنے والے آلات صحت میں بہتری کے لیے بھی نہایت ضروری ہیں۔ یوں سمجھیے کہ پائیدار ترقی میں ان کا ایک کردار ہے۔ مگر جوں جوں ان آلات کا استعمال بڑھ رہا ہے، ضرر رساں گیسوں کے اخراج میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ یہی ضرر رساں گیسیں زمینی درجہ حرارت میں اضافے کا بنیادی سبب بھی ہیں۔ یعنی پیچیدہ دائرہ کچھ یوں ہے کہ یہ گرمی سے بچنے کے لیے یہ آلات ضروری ہیں اور آلات استعمال کرنے کا مطلب ہے مزید گرمی۔
تحقیقاتی جائزوں کے مطابق سن 2050 تک دنیا بھر میں ان کولنگ آلات کی تعداد میں اب کے مقابلے میں چار گنا اضافہ ہو چکا ہو گا اور ان کی مجموعی تعداد قریب 14 ارب تک ہو گی۔ اگر اعداد و شمار یہی رہے، اور اس سیکٹر میں کوئی غیرمعمولی تبدیلی نہ کی گئی یعنی ضرر رساں گیسوں کا اخراج اسی طرح جاری رہا، تو عالمی درجہء حرارت میں اضافہ غیرمعمولی طور پر تیز ہو گا۔ ماہرین کے مطابق ایسی صورت حال میں پیرس میں رواں صدی میں درجہء حرارت کو دو ڈگری اضافے تک محدود رکھنے کے حوالے سے طے کردہ ہدف حاصل نہیں کیا جا سکے گا۔
افراد اور شہر گرمی کی حدت کو کیسے شکست دے سکتے ہیں؟
گلوبل وارمنگ کے سبب دنیا کے مختلف خطوں میں گرمی میں اضافہ اب معمول کی بات بن گیا ہے۔ سائنسدانوں کے بقول مستقبل میں موسم گرما زیادہ طویل اور جھلسا دینے والا ہو جائے گا۔ تو پھر اس گرمی سے بچاؤ کا طریقہ کیا ہے؟
تصویر: picture-alliance/dpa/W. Grubitzsch
شہر کو سفید رنگ سے پینٹ کریں
موسم گرما کے آگ برساتے سورج سے بچنے کا ایک طریقہ تو یہ ہے کہ اپنی چھتوں اور دیواروں کو سفید رنگ سے روغن کر لیا جائے۔ سیاہ رنگ کی دیواریں سورج کی حدت کو سب سے زیادہ جذب کرتی ہیں جس کے نتیجے میں گھر تندور کی طرح دہکنے لگتا ہے۔ ہلکے رنگوں سے پینٹ کی گئی دیواریں اور چھتیں تقریباﹰ اسّی فیصد تک سورج کی شعاعوں کو واپس پلٹا دیتی ہیں۔ جس سے اندرونی سطح پر گرمی کم ہو جاتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/robertharding/M. Simoni
جھیلوں اور دریاؤں کی موجودگی
جھیلیں، دریا اور نہریں کسی بھی مقام کے درجہ حرارت کو نیچے لانے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ پانی کی ایک خاصیت یہ ہے کہ یہ درجہ حرارت میں تبدیلیوں کے ساتھ بہت جلد موافقت اختیار نہیں کرتا اور اسی لیے اپنے اندر حرارت یا خنکی کا ایک خاص ٹمپریچر برقرار رکھتا ہے۔ شہری علاقوں میں جہاں جھیلوں کے لیے بہت زیادہ جگہ مختص نہیں کی جا سکتی، یہ کام چشموں سے بھی لیا جا سکتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/W. Grubitzsch
شہروں میں سبزہ بڑھائیں
شہروں میں گرمی کا زور کم کرنے کے لیے ایک سادہ طریقہ زیادہ سے زیادہ شجر کاری کرنا ہے۔ یہ درخت ہی ہیں جو سایہ بھی دیتے ہیں اور اپنے پتوں سے آبی بخارات خارج بھی کرتے ہیں جس سے درجہ حرارت کم کرنے میں بہت مدد ملتی ہے۔
جرمن شہر میونخ کی ٹیکنیکل یونیورسٹی کے ایک جائزے کے مطابق کئی چھوٹے چھوٹے پارک صرف ایک بہت بڑے پارک کی نسبت شہر کو ٹھنڈا رکھنے میں زیادہ معاون ثابت ہوتے ہیں۔ یہ اس لیے کہ ایک بڑے پارک کا دائرہ اثر ایک ہی مقام تک محدود رہتا ہے جبکہ کئی چھوٹے پارک اپنے ارد گرد کے کئی مقامات کو معتدل درجہ حرارت پر لا سکتے ہیں۔
اگر آپ اپنے گھر کی چھت کو سفید رنگ روغن نہیں کرانا چاہتے تو پھر انہیں سبز رنگ دیں یا پر چھت پر گارڈن بنائیں۔ اس سے بھی مجموعی طور پر شہروں کا درجہ حرارت کم ہونے میں مدد ملے گی۔
تصویر: Getty Images/AFP/P. Lopez
باغ میں مرچیں لگانا نہ بھولیں
اپنے باغ میں مرچوں کے پودے لگانا نہ بھولیں۔ کوئی مانے یا نہ مانے حقیقت یہی ہے کہ مرچ مصالحے جسمانی درجہ حرات کو معتدل رکھتے ہیں۔ اور وہ اس طرح کہ انہیں کھانے سے پسینہ آتا ہے جس سے جسم کا ٹمپریچر کم ہوتا ہے اور گرمی نہیں لگتی۔
تصویر: picture-alliance/AP Images/D. Epperly
آئس کریم نہیں بلکہ گرما گرم چائے
موسم زیادہ گرم ہو تو آئس کریم یا پھر ٹھنڈے مشروبات پینے کو جی چاہتا ہے۔ لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ اشیا گرمی کا توڑ نہیں بلکہ فضا میں بڑھتے ٹمپریچر کے ساتھ گرم چائے پینا موزوں ہے۔ دلیل پھر وہی یعنی چائے پینے سے پسینہ آئے گا اور جسم کو گرمی کم لگے گی۔
تصویر: picture-alliance/landov
7 تصاویر1 | 7
اقوام متحدہ کے ماحولیاتی اقتصادیات کے ادارے کے توانائی اور ماحولیات کے شعبے کے سربراہ مارک راڈکا کے مطابق، ’’اگر ماحولیات کوئی مسئلہ نہ ہوتا، تو ہم ضرور کہتے کہ کولنگ آلات تک انسانوں کی پہنچ صاف پانی کی رسائی جیسی اہم ہے۔‘‘
تاہم امید کی بات یہ ہے کہ اس شعبے میں تحقیق کا کام بھی تیزی سے جاری ہے۔ مبصرین کا خیال ہے کہ نئے بنائے جانے والے آلات کی استعداد کو بڑھایا جا رہا ہے اور اگر ان کی استعداد کو دوگنا بھی کر دیا گیا، تو اس کے ماحولیات پر غیرمعمولی مثبت اثرات پڑیں گے۔