1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ٹیسٹ ٹیوب برگر کا کامیاب تجربہ

عابد حسین6 اگست 2013

پہلی مرتبہ سائنسدان تجربہ گاہ میں مصنوعی گوشت بنانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ اس تجربے کی کامیابی کے بعد خیال کیا جانے لگا ہے کہ یہ خوراک کی دنیا میں انقلاب کی ابتداء ہے۔

تصویر: David Parry/PA Wire

ہالینڈ کے شہر ماسٹرشٹ کی یونیورسٹی میں سائنسدانوں کی ایک ٹیم نے لیبارٹری میں گائے کے گوشت کے اسٹم سیل کی افزائش سے برگر کی پیٹی کو مکمل کیا۔ سائنسدانوں کی اس ٹیم کی قیادت پروفیسر مارک پوسٹ کر رہے تھے۔ لیبارٹری برگر کی تکمیل پر ڈھائی لاکھ یورو کا خرچہ آیا ہے۔ اس لیبارٹری کے تجربے میں سائنسدانوں کو مالی اعتبار سے گوگل سرچ انجن کے شریک بانی سرگئی برِن کا تعاون بھی حاصل تھا۔

لندن شہر میں پیر کے روز لیبارٹری میں تیار کیے گئے اس ٹیسٹ ٹیوب برگر کو باقاعدہ طور پر پیش کیا گیا۔ پرگر کی پیٹی کا وزن 140 گرام تھا۔ اس گوشت کے نمونے کو دو فوڈ ایکسپرٹ نے چکھا بھی۔ ٹیسٹ ٹیوب بیف برگر کی پیٹی کو پیش کرنے سے قبل تھوڑے سے تیل اور مکھن میں فرائی بھی کیا گیا۔ تجربہ گاہ میں پراسس کیے گئے اس بیف برگر کو تقریب میں موجود فوڈ ایکسپرٹس اور دوسرے حاضرین نے فرینکن برگر کا نام دیا۔

پروفیسر مارک پوسٹ مصنوعی گوشت کے برگر کے ساتھتصویر: David Parry/PA Wire

لیبارٹری میں جس گوشت کے نمونے کو پراسس کیا گیا تھا وہ ایک زندہ گائے سے حاصل کیا گیا تھا۔ اس گوشت کے ٹکڑے میں نمک اور انڈے کا پاؤڈر بھی شامل کیا گیا۔ بیف یا گائے کے گوشت کی مصنوعی افزائش کے دوران گوشت جیسی رنگت حاصل کرنے کے لیے زعفران اور چقندر کے جوس کا بھی استعمال کیا گیا۔ سرگئی برِن کے مطابق لیبارٹی میں تیار کی گئی شے ذائقے میں گوشت جیسی ضرور ہے لیکن ویسی رسیلی نہیں۔

ہالینڈ کی ماسٹرشٹ یونیورسٹی کے پروفیسر مارک پوسٹ کے مطابق ٹیسٹ ٹیوب برگر یقینی طور پر خوراک کی دنیا میں انقلاب کا پیش خیمہ ثابت ہو گا۔ پروفیسر پوسٹ کے مطابق ماحول دوست لیبارٹری برگر کے کمرشل بنیادوں پر استعمال سے یقینی طور پر مال مویشیوں سے جو ماحول پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں، ان میں بھی کمی واقع ہو گی۔ پروفیسر مارک پوسٹ نے یہ بھی بتایا کہ مصنوعی گوشت یقینی طور پر محفوظ ہے اور اس کے مضر اثرات بالکل نہیں ہیں۔ پروفیسر نے کئی مرتبہ اسے کھانے کا اعتراف بھی کیا اور پیر کے بعد سے وہ اسے اپنے بچوں کو بھی کھانے کے لیے دینے کا ارادہ ظاہر کیا۔

پروفیسر مارک پوسٹ کے مطابق مصنوعی گوشت کی ٹیکنالوجی ابھی بہت ہی ابتدائی مرحلے میں ہے اور اس کو مکمل طور پر کمرشل کرنے میں مزید دس سے بیس برس کا عرصہ درکار ہے۔ مصنوعی گوشت کے چکھنے کی تقریب پیر کے روز مغربی لندن کے ایک تھیٹر میں منعقد کی گئی۔ اس گوشت کو چکھنے کے لیے مدعو کیے گئے رضاکاروں کے لیے ایک ماہر باورچی گلابی رنگت والی پیٹی کو کم حرارت پر فرائی کر رہا تھا۔ لیبارٹری میں تیار کیے گئے بیف برگر کی پیٹی پر ڈبل روٹی کے سوکھے ٹکڑوں کو پاؤڈر کر کے لگایا گیا۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں