ٹیسٹ ڈرائیو: ممکنہ خریدار دو ملین یورو کی فیراری لے اڑا
15 مئی 2019
جرمن پولیس ایک ایسے شہری کی تلاش میں ہے، جو دو ملین یورو مالیت کی ایک فیراری خریدنا چاہتا تھا لیکن ٹیسٹ ڈرائیو کے دوران اس گاڑی سمیت غائب ہی ہو گیا۔ پولیس اس انتہائی مہنگی اور نایاب کار اور چور دونوں کی تلاش میں ہے۔
اشتہار
جرمنی کے مغربی شہر ڈسلڈورف کی پولیس کے مطابق یہ گاڑی چوری کر لینے والے شخص نے خود کو انتہائی مہنگی سپورٹس کاروں کے شوقین ایک امیر آدمی کے طور پر پیش کیا تھا، جس نے ایک اشتہار کے بعد اس گاڑی کو فروخت کرنے کے خواہش مند مالک کے ساتھ ملاقات اور تجرباتی طور پر گاڑی کو چلا کر دیکھنے کے لیے وقت اور جگہ کا تعین بھی کر لیا تھا۔
یہ فیراری سن 1985 میں تیار کی گئی سرخ رنگ کی جی ٹی ایس ماڈل کی ایک ایسی گاڑی بتائی گئی ہے، جو اس برانڈ کی انتہائی کامیاب اور اب نایاب ہو چکی کاروں میں شمار ہوتی ہے۔ ممکنہ خریدار اور گاڑی کا مالک جب پہلے سے طے شدہ جگہ پر پہنچے، تو ’گاہک‘ نے کہا کہ وہ یہ گاڑی چلا کر دیکھنا چاہتا ہے۔ اس پر مالک ڈرائیونگ سیٹ سے اترا اور اس شخص کے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھنے کے لیے گھوم کر گاڑی کے دوسری طرف جا ہی رہا تھا کہ تب تک ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا ’چور‘ مالک کے دیکھتے ہی دیکھتے یہ گاڑی لے اڑا۔
پولیس کے مطابق اس گاڑی کی قیمت تقریباﹰ دو ملین یورو یا 2.2 ملین امریکی ڈالر کے برابر بنتی ہے۔ اس کار کی خاص بات یہ ہے کہ ماضی میں یہی کار فاومولا ون موٹر ریسنگ کے عالمی چیمپئن شپ مقابلوں میں حصہ لینے والے برطانیہ کے معروف پیشہ ور ڈرائیور ایڈی اِروائن کی ملکیت رہی ہے۔
پولیس نے یہ نہیں بتایا کہ یہ واقعہ کب پیش آیا لیکن یہ تصدیق کر دی گئی ہے کہ تمام تر کوشش کے باوجود اس چوری شدہ فیراری اور چور کا تاحال کوئی پتہ نہیں چلا۔
اس تفتیش کے دوران اب تک بیس لاکھ یورو کی فیراری چوری کرنے والے شخص کی شناخت بھی نہیں ہو سکی حالانکہ چور اور مالک کی پہلی ملاقات کے وقت گاڑی کے مالک نے ممکنہ خریدار کے ساتھ اپنے موبائل فون سے ایک سیلفی بھی بنا لی تھی۔
بالکل اسی طرح کی فیراری سپورٹس کار سن 1980 کی دہائی میں ’میگنم‘ نامی امریکی ٹیلی وژن سیریز کے کردار تھامس میگنم کے استعمال میں بھی رہی ہے۔ اسی طرح کی اطالوی ساختہ انتہائی مہنگی سپورٹس کاریں ماضی میں کئی مشہور ٹی وی سیریز اور فلموں میں بھی استعمال کی جاتی رہی ہیں، جن میں سے امریکی ٹی وی سیریز ‘میامی وائس‘ کے علاوہ ’ڈے آف‘ نامی فلم اور جیمز بانڈ سیریز کی فلم ’گولڈن آئی‘ خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔
م م / ع ا / اے پی، ڈی پی اے
جتنی بڑی کار اتنا زیادہ منافع ! کیا یہ مفروضہ اب بھی درست ہے؟
کچھ عشروں قبل کہا جاتا تھا کہ لگژری کاریں زیادہ منافع دیتی ہیں۔ تب یہ بات درست تھی لیکن اب صورتحال کچھ بدل گئی ہے اور یہ مفروضہ سو فیصد درست نہیں رہا۔ اب کچھ برانڈز ہی ایسے ہیں، جو اپنی لگژری کاروں سے منافع کما رہے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Yonhap
فیراری، لگژری گاڑیوں کا فیشن
سن دو ہزار اٹھارہ کی پہلی شمشاہی کے دوران فیراری کی جوکار بھی فروخت ہوئی، اس پر اس کار ساز ادارے نے تقریبا 69 ہزار یورو کا منافع کمایا۔ جرمن آٹو ایکسپرٹ فرڈیناڈ ڈوڈنہوفر کے مطابق اس منافع سازی کی مثال کہیں اور نہیں ملتی۔
تصویر: Imago/A. Hettrich
پورشے بھی کم نہیں
جرمنی میں سب سے زیادہ منافع بخش برانڈ پورشے ثابت ہوا ہے۔ پورشے کی ہر کار کی فروخت پر ٹیکس سے قبل سترہ ہزار یورو کا منافع کمایا گیا۔ اس کمائی نے جرمن کار ساز اداروں کو کہیں پیچھے چھوڑ دیا ہے۔
تصویر: DW
جرمن لگژری کاریں بس ٹھیک ہی ہیں
جرمن کار ساز ادارے اس برس پورشے کا مقابلہ تو نہیں کر سکے لیکن ان کا منافع بھی کچھ برا نہیں رہا۔ جرمن کمپنیوں بی ایم ڈبلیو، مرسیڈیز اور آوڈی کی فی کار پر اوسطا تین ہزار یورو کا آپریٹنگ منافع ہوا۔
تصویر: DW/H.Böhme
ابھی تک منافع بخش لیکن!
برطانیہ میں کار ساز اداروں نے بھی تھوڑا بہت منافع کمایا۔ نمایاں برانڈز جیگوآر اور لینڈ رووَر کی فی یونٹ فروخت پر آٹھ سو یورو کا منافع ہوا۔ یہ بڑے برانڈز کی بڑی گاڑیاں ہیں لیکن ان کا منافع پہلے جیسا نہیں رہا۔ یہ منافع مستقبل میں مزید بھی ہو سکتا ہے۔
تصویر: Andrew H. Walker/Getty Images for Jaguar
کمپنی کے لیے بھی مہنگی کاریں
کچھ کاریں ایسی ہیں، جو نہ صرف خریدار کے لیے مہنگی ہیں بلکہ کار ساز کمپنیوں کے لیے بھی ان کا مالی بوجھ کچھ کم نہیں۔ اس کی ایک مثال ایلون مسک کی ٹیسلا آئیکونک کاریں بھی ہیں۔ اس کمپنی کی لگژری کاروں نے ابھی تک کوئی منافع نہیں کمایا۔ الٹا کمپنی کو فی کار گیارہ ہزار یورو اضافی پڑے۔
تصویر: Reuters/L. Nicholson
منافع نہیں بلکہ نقصان ہی نقصان
جرمن آٹو ایکسپرٹ فرڈیناڈ ڈوڈنہوفر کی ایک رپورٹ کے مطابق سب سے زیادہ بری کارکردگی بینٹلے لگژری کاروں کی رہی۔ ایک سروے کے مطابق چیشائر میں واقع اس کمپنی کو نقصان ہی ہو رہا ہے۔ رواں سال کے دوران اس کمپنی کی جو کار بھی فروخت ہوئی ہے، اس میں فی کس سترہ ہزار کا خسارہ نوٹ کیا گیا ہے۔