1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ٹیلی وژن مباحثے میں میرکل کا پلہ بھاری : ڈوئچے ویلے کا تبصرہ

کائے الکزانڈر شولس/ کشور مصطفیٰ2 ستمبر 2013

90 منٹ پر مشتمل ٹیلی وژن مباحثے کو جرمنی کے چار ٹی وی چینلز نے نشر کیا اور یہ امر صاف ظاہر تھا کہ انگیلا میرکل مباحثے پر چھائی رہیں۔

تصویر: Reuters

جرمنی میں 22 ستمبر کو آئندہ پارلیمانی انتخابات کا انعقاد ہوگا۔ گزشتہ شب چانسلر کے عہدے کے امیدواروں کے مابین ٹی وی مباحثہ ہوا جس میں اس امر کا خاص خیال رکھا گیا تھا کہ دونوں امیدواروں کو بولنے کا برابر وقت ملے۔ موجودہ جرمن چانسلر اور کرسچن ڈیموکریٹک یونین سی ڈی یو کی سربراہ انگیلا میرکل کے مد مقابل سوشل ڈیموکریٹک پارٹی ایس پی ڈی کے سیاستدان پیئر اشٹائن بروک تھے۔

90 منٹ پر مشتمل ٹیلی وژن مباحثے کو جرمنی کے چار ٹی وی چینلز نے نشر کیا اور یہ امر صاف ظاہر تھا کہ انگیلا میرکل مباحثے پر چھائی رہیں۔ مباحثے کے پہلے گھنٹے میں ہی میرکل کی گفتگو نہایت نپی تُلی، معیاری اور پُر اعتماد تھی جبکہ اشائن بروک محتاط اور کافی حد تک خوفزدہ نگاہوں سے انگیلا میرکل کو دیکھ رہے تھے۔ میرکل کی باڈی لینگویج سے ظاہر تھا کہ وہ اشٹائن بروک کو چیلنج دے رہی ہیں۔

میرکل نے موڈریٹر کو اپنی گفتگو کے دوران مداخلت کا ذرا بھی موقع نہیں دیا۔ کبھی کبھی اُن کا لہجہ کرخت ہوتا تھا۔ اشٹائن بروک کے بیانات پر میرکل براہ راست رد عمل ظاہر کر رہی تھیں۔ قبل اس کے کہ چاروں موڈریٹر میں سے کوئی ایک بھی بیچ میں بولتا، میرکل اپنا موقف ظاہر کرنے لگتیں۔ میرکل جنہیں جرمن زبان میں ’ مُوٹی‘ کے لقب سے بھی پکارا جاتا ہے، جس کا مطلب ’ماں‘ ہے، اپنے معمول کے لباس میں ملبوس تھیں۔

میرکل نے موڈریٹر کو اپنی گفتگو کے دوران مداخلت کا ذرا بھی موقع نہیں دیا۔تصویر: Reuters

میرکل دلائل چاہتی تھیں

میرکل اپنی پالیسیوں کی وضاحت کرنا چاہتی تھیں۔ ظاہر ہے کہ یہ 30 سیکنڈ میں مکمل ہونے والا کام نہیں ہے۔ تاہم میرکل جس انداز سے بول رہی تھیں اُس نے تمام مباحثے کا رنگ ہی بدل کر رکھ دیا۔ عموماً ٹی وی مباحثوں میں فریقین ایک دوسرے پر تند و تیز الزامات کی بوچھاڑ کرتے ہیں۔ تاہم میرکل اور اشائن بروک کے مباحثے میں ایسا نہیں ہوا بلکہ دونوں سیاستدانوں نے مختلف موضوعات پر اپنے اپنے دلائل پیش کیے۔ جرمنی میں چانسلر کے عہدے کے امیدواروں کے مابین ہونے والے مباحثے کا مقصد بھی دراصل یہی ہوتا ہے کہ دونوں لیڈر اپنے اپنے انتخابی پروگرام کو متعارف کروائے۔ تاہم اس ضمن میں میرکل کی طرف سے کوئی نئی بات سامنے نہیں آئی۔

میرکل کو ’ مُوٹی‘ یا ماں کے لقب سے اس لیے بھی پکارا جاتا ہے کہ اُن کا ایمیج مشکل حالات میں سہارا دینے والی شخصیت کا ہے۔ آئندہ پارلیمانی انتخابات میں میرکل کو مرکزی حیثیت حاصل ہے کیونکہ وہ کرسچن ڈیموکریٹک یونین سی ڈی یو کا طاقتور ترین ہتھیار مانی جاتی ہیں۔ جس کے ساتھ اُن کی وفاداری بڑی گہری ہے۔ میرکل نے اپنے اختتامی بیان میں کہا، ’’آپ مجھے جانتے ہیں، ہم نے جرمنی میں چار خوشگوار سال گزارے ہیں۔ ہم مل جُل کر ہی آگے بڑھ سکتے ہیں۔‘‘

میرکل کے بہت سے سوالات کا جواب اشٹائن بروک نے نفی میں دیاتصویر: Reuters

’نہیں‘ کہنے والا

ٹیلی وژن مباحثے کے فوراً بعد کروائے گئے سروے کے نتائج تاہم یہ بتا رہے تھے کہ اشٹائن بروک مباحثے کے فاتح نہیں تو کم از کم میرکل کی برابری میں رہے۔ انہوں نے مباحثے کے آغاز میں ہی عوام کو متنبہ کیا تھا کہ وہ میرکل کی لوریوں کے اثر میں نہ آئے۔ اشٹائن بروک نے میرکل کے بیانات کو بے معنی اور زبانی جمع خرچ قرار دیا۔ میرکل کی پالیسی کو ایس پی ڈی کے سیاستدان نے خوشگوار موسم کے شوُ سے تشبیہ دی۔ میرکل کے بہت سے سوالات کا جواب اشٹائن بروک نے نفی میں دیا۔ ایس پی ڈی دراصل سی ڈی یو کی پالیسیوں سے بالکل مختلف پالیساں وضح کرنا چاہتی ہے۔ کبھی کبھی اشٹائن بروک میرکل کی ناقص پالیسیوں کو گنواتے ہوئے ان کا ذکر بغیر کسی وقفے کے یکے بعد دیگرے کرتے جاتے۔ میرکل کی موجودہ حکومتی پالیسیوں میں سے سب سے زیادہ تنقید اشٹائن بروک نے صحت کی پالیسی کو بنایا۔ اس کے علاوہ اس امر پر بھی روشنی ڈالی کہ جرمنی میں امیر اور غریب میں طبقاتی فرق تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ اس کے مقابلے میں انگیلا میرکل نے سابق جرمن چانسلر گیرہارڈ شرؤڈر کے دور میں ایس پی ڈی کی طرف سے متعارف کروائے جانے والے ’جُز وقتی محنت یا روزگار‘ کی پالیسی کو ہدف تنقید بنایا۔

گزشتہ روز کے ٹیلی وژن مباحثے میں جہاں جرمن چانسلر انگیلا میرکل اپنی پالیسیوں کی وضاحت کے موقع سے فائدہ اٹھا رہی تھیں وہاں ایس پی ڈی کے سیاستدان پیئر اشٹائن بروک عوام کو جذباتی کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ بہر حال اس مباحثے کو دو غیر مساوی ہتھیاروں کے مابین مقابلہ قرار دیا جا رہا ہے۔ ’یعنی سر کا مقابلہ پیٹ سے‘۔


اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں