ٹیکس چوروں نے یورپی حکومتوں کے پچاس ارب یورو چرا لیے
مقبول ملک الزبتھ شوماخر / ع ا
8 مئی 2019
یورپی ممالک میں جرائم پیشہ افراد کے گروہوں نے گزشتہ برسوں کے دوران ٹیکسوں کی مد میں تقریباﹰ پچاس ارب یورو چرا لیے۔ یہ عوامی شعبے کی وہ رقوم تھیں، جو یورپی ممالک کی حکومتوں کو ٹیکسوں کے طور پر ادا کی جانا چاہییں تھیں۔
اشتہار
دنیا کے بہت سے دیگر ممالک کی طرح یورپی یونین کی رکن ریاستوں میں بھی تجارتی شعبے پر مختلف شرحوں سے وہ ٹیکس عائد ہے، جو عام صارفین ادا کرتے ہیں اور جو ویلیو ایڈڈ ٹیکس یا VAT کہلاتا ہے۔ تقریباﹰ 50 ارب یورو کی یہ رقوم اسی مخصوص سیلز ٹیکس کی مد میں سرکاری خزانوں میں جمع کرائی جانا تھیں لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔
کئی طرح کے مجرمانہ ہتھکنڈوں اور پیچیدہ طریقوں کی مدد سے جرائم پیشہ گروہوں کی طرف سے کی جانے والی یورپ میں اس طرح کی ٹیکس چوری سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والا ملک جرمنی ہے، جو یورپی یونین کی سب سے زیادہ آبادی والی ریاست بھی ہے اور یورپ کی سب سے بڑی معیشت بھی۔
درجنوں ممالک میں پھیلا ہوا نیٹ ورک
جرمنی کی ایک غیر سرکاری صحافتی تحقیقاتی تنظیم Correktiv نے اس بارے میں 30 ممالک کے صحافیوں کی مدد سے گزشتہ کئی برسوں کے اعداد و شمار جمع کیے، تو نتیجہ یہ نکلا کہ مالیاتی دھوکا دہی کا جو ایک واقعہ اس پیشہ ورانہ چھان بین کی وجہ بنا تھا، اس کے نتیجے میں جرائم پیشہ افراد کے گروہوں کا ایک ایک ایسا پورا نیٹ ورک سامنے آیا، جو برس ہا برس سے یورپی حکومتوں کی بیسیوں ارب یورو کی ٹیکس کی رقوم چوری کرتا آ رہا ہے۔
اس تنظیم کی منگل سات مئی کو جاری کردہ ایک رپورٹ کے مصنفین کے مطابق یہ ٹیکس چوری سب سے زیادہ جرمنی میں کی گئی، اور اس کی وجہ سے قومی سطح پر سب سے زیادہ نقصان بھی جرمن خزانے ہی کو ہوا۔
سہولت کا ناجائز فائدہ
یہ ٹیکس چوری خاص طور پر مہنگی اشیائے صرف یا اشیائے تعیش کی تجارت کے دوران کی جاتی ہے، جن میں گاڑیوں سے لے کر مہنگے موبائل فون تک بھی شامل ہوتے ہیں اور ماحول کے لیے نقصان دہ سبز مکانی گیسوں کے اخراج سے متعلق وہ دستاویزات بھی، جو ’CO2 سرٹیفیکیٹس‘ کہلاتی ہیں۔
جرمن صحافتی این جی او ’کورَیکٹِیو‘ کے مطابق یہ جرائم پیشہ گروہ ان ٹیکس رقوم کی جو چوری کرتے ہیں، اس میں ان کے لیے سب سے بڑا چور دروازہ اس وجہ سے کھل جاتا ہے کہ یورپی یونین کے رکن مختلف ممالک میں وی اے ٹی ٹیکس کی شرح مختلف ہے۔ رپورٹ کے مصنفین کے مطابق، ’’یہ گروہ یونین کے اندر اشیاء اور پیشہ ورانہ خدمات کی آزادانہ نقل و حمل کی سہولت کو استعمال کرتے ہوئے اپنی اشیاء زیادہ ٹیکس والی ریاستوں سے کم ٹیکس والے ممالک میں منتقل کر دیتے ہیں۔ اس طرح انہیں ٹیکسوں کی ان رقوم کی قانونی واپسی کی سہولت بھی حاصل ہو جاتی ہے، جو انہوں نے ادا کی ہی نہیں ہوتیں یا جو رقوم وہ لوٹائے جانے کے بعد ان ممالک کو ادا کرتے ہی نہیں، جن کا ان پر قانونی حق ہوتا ہے۔
پاناما صرف ٹیکس فری جنت ہی نہیں
پاناما پیپرز کے منظر عام پر آنے کے بعد سے وسطی امریکا کے اس ملک کا نام ہر کسی کی زبان پر ہے لیکن یہ ملک ٹیکس چوروں کی جنت کے علاوہ بھی بہت کچھ ہے۔
تصویر: picture-alliance/Demotix/E. Gerald
پاناما کی پہچان
پاناما نہر بھی بینکوں کے طرح انتہائی اہم ہے۔ 1914ء میں اس کا باقاعدہ افتتاح ہوا تھا اور تب سے یہ اس ملکی آمدنی میں اضافے کا باعث بنی ہے۔ اس نہر کی وجہ سے بحری جہاز بحر اوقیانوس اور بحر الکاہل کے درمیان سفر کر سکتے ہیں۔ اس نہر سے پہلے بحری جہازوں کو کم از کم تین ماہ زیادہ سفر کرنا پڑتا تھا۔
پاناما کی مجموعی قومی پیداوار کا آٹھ فیصد حصہ صرف اس نہر سے حاصل ہوتا ہے۔ گزشتہ تقریباﹰ دس برسوں سے اس کی توسیع پر کام جاری ہے۔ اندازوں کے مطابق رواں برس جون میں توسیع کا کام مکمل کر لیا جائے گا اور اس طرح کنٹینر لے جانے والے بڑے بحری جہاز بھی اس راستے کو استعمال کر سکیں گے اور پاناما کی معیشت مزید ترقی کرے گی۔
تصویر: Getty Images/AFP/R. Arangua
ایک قدرتی جنت
اس ملک میں آبشاریں، جھرنے، پہاڑ اور جنگل بھی بڑی تعداد میں ہیں۔ یونیسکو نے اس کے نیشنل پارک کو عالمی ثقافتی ورثہ قرار دے رکھا ہے۔ سالانہ بیس لاکھ سے زائد سیاح اس ملک کا سفر کرتے ہیں تاکہ وہ قدرتی مناظر کو قریب سے دیکھ سکیں۔
تصویر: picture-alliance/Epa efe Fudacion Marviva
جدیدیت اور غربت کے درمیان
پاناما اگر ایک سکہ ہے تو اس کا ایک دوسرا رخ بھی ہے۔ اس ملک کی شہریوں کی اوسط آمدنی دیگر ہمسایہ ملکوں کے مقابلے میں زیادہ ہے لیکن غربت کے نشانات بھی جگہ جگہ دیکھے جا سکتے ہیں۔ پاناما شہر کی بلند و بالا عمارتوں کے مضافات میں کئی کچی بستیاں ہیں۔
تصویر: Reuters/C. Jasso
بالبوآ ایونیو
ملک کی یہ سب سے مہنگی سڑک نہ صرف سیاحوں کی توجہ کا مرکز ہے بلکہ پاناما شہر کا مرکز بھی بالبوآ ایونیو کو ہی سمجھا جاتا ہے۔ یہ پاناما کے امراء کا علاقہ ہے، جہاں صرف اس ملک کے مخصوص شہری گھر خرید سکتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Sergi Reboredo
دنیا کا دوسرا بڑا کارنیوال
کارنیوال کا لفظ سن کر ریو کا نام ذہن میں آتا ہے لیکن یہ جشن پاناما میں بھی انتہائی اہتمام سے منایا جاتا ہے۔ اس ملک میں دنیا کے دوسرے بڑے چار روزہ کارنیوال کا انعقاد کیا جاتا ہے، جس دوران ملک بھر میں پارٹیوں کا انعقاد ہوتا ہے اور لوگوں نے روایتی علاقائی لباس پہن رکھے ہوتے ہیں۔
تصویر: imago/Xinhua
قومی جھنڈا اور امریکا کو خراج تحسین
1903ء میں امریکا کی فوجی مداخت کے بعد پاناما نے کولمبیا سے آزادی حاصل کی تھی۔ اس قومی جھنڈے پر عقاب کا نشان امریکا کی نمائندگی کرتا ہے۔ پاناما کو سرکاری سطح پر سب سے پہلے امریکا نے تسلیم کیا تھا اور یہی وجہ ہے کہ پاناما امریکا کا اپنا ’بڑا بھائی‘ سمجھتا ہے۔
تصویر: gemeinfrei
ڈیوٹی فری شاپنگ
پاناما سٹی میں واقع آلبروک شاپنگ مال کا شمار لاطینی امریکا کے سب سے بڑے شاپنگ سینٹروں میں ہوتا ہے۔ یہ سیاحوں کی بھی پسندیدہ منزل ہے۔ پاناما کا شمار ’آزاد تجارتی علاقوں‘ میں ہوتا ہے اور وہاں سے انتہائی سستے داموں اشیاء خریدیں جا سکتی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Sergi Reboredo
8 تصاویر1 | 8
جرمن ٹیکس نظام کا ’مجرمانہ استعمال‘
اس رپورٹ کے مطابق جرمنی میں مروجہ ٹیکس نظام ایسا ہے کہ اس سے بھی جرائم پیشہ گروہوں کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے یا انہیں اس سسٹم کے غیر قانونی استعمال کا موقع مل جاتا ہے۔ یوں جرمن ریاست ایسے گروہوں کو مخصوص قانونی سقم کے باعث سالانہ اتنا زیادہ ٹیکس واپس کر دیتی ہے کہ اس کی مالیت پانچ ملین یورو سے لے کر پندرہ ملین یورو تک بنتی ہے۔
دوسری طرف ایسے گروہوں کے خلاف قانونی کارروائی کی خاطر تفتیشی ماہرین کے کام کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بھی جرمن قانون ہی ہے۔ اس لیے کہ جرمنی میں وی اے ٹی نامی ٹیکس تمام سولہ وفاقی صوبوں کی انفرادی عمل داری میں آتا ہے، ہر صوبے کے اپنے قوانین ہیں اور وفاقی صوبے اس سلسلے میں اپنے اپنے اختیارات وفاقی حکومت کے حوالے کرنے پر تیار نہیں ہیں۔
گیارہ کمپنیوں کا مالک جرمن نوجوان
اس رپورٹ میں شامل کردہ حقائق میں ایک ایسے جرمن نوجوان کی مثال بھی دی گئی ہے، جس کا تعلق جرمنی کے ایک مغربی صوبے سے ہے اور جو چند برس پہلے تک ایک مقامی اسکول کے پیچھے ایک خالی جگہ پر کھڑا ہو کر موبائل فون فروخت کرتا تھا۔
یورپی یونین میں کونسا ملک کب شامل ہوا؟
سن 1957ء میں مغربی یورپ کے صرف چھ ممالک یورپی یونین میں شامل تھے۔ اس کے بعد مزید 22 ممالک اس بلاک میں شامل ہوئے۔ ڈی ڈبلیو کی طرف سے یورپی یونین کے ماضی اور حال پر ایک نظر۔
تصویر: picture-alliance/dpa/G. Diezins
سن1957ء: نئے یورپ کی بنیاد
جرمنی، فرانس، اٹلی، بیلجیم، ہالینڈ اور لکسمبرگ نے پچیس مارچ 1957ء کو یورپی یونین کی بنیاد رکھتے ہوئے روم معاہدے پر دستخط کیے۔ یورپین اکنامک کمیونٹی ( ای سی سی) نے اندرونی اور بیرونی تجارت کو وسعت دینے کا عہد کیا۔ اس وقت ای سی سی اور یورپ کی دو دیگر تنظیموں کے اتحاد کو یورپین کمیونیٹیز (ای سی) کا نام دیا گیا۔
تصویر: picture-alliance/AP Images
سن 1973ء: برطانیہ، آئرلینڈ اور ڈنمارک
برطانیہ شروع میں تو یورپی یونین کا حصہ بننے سے گریز کرتا رہا لیکن ساٹھ کی دہائی میں اس نے اپنے ارادے تبدیل کرنا شروع کر دیے تھے۔ فرانس کی شدید مخالفت کی وجہ سے شمولیت کے لیے اس کی پہلی دو کوششیں ناکام رہی تھیں۔ لیکن 1973ء میں برطانیہ کے ساتھ ساتھ آئرلینڈ اور ڈنمارک بھی اس بلاک کا حصہ بن گئے۔ تاہم برطانوی عوام نے اس کی منظوری 1975ء میں ایک ریفرنڈم کے ذریعے دی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Lipchitz
سن1981ء: یونان
چھ سالہ مذاکرات کے بعد یونان ای سی کا دسواں رکن ملک بن گیا۔ سن 1974ء میں فوجی ڈکٹیٹر شپ کے خاتمے کے بعد ہی یونان نے اس بلاک میں شمولیت کی درخواست دے دی تھی۔ یونان کی اس یونین میں شمولیت متنازعہ تھی کیوں کہ یہ ملک غریب تھا اور باقی ملکوں کو اس حوالے سے تحفظات تھے۔
تصویر: Getty Images/C. Furlong
سن 1986ء: اسپین اور پرتگال
یونان کے پانچ برس بعد اسپین اور پرتگال بھی یونین میں شامل ہو گئے۔ ان کی حالت بھی یونان کی طرح ہی تھی اور یہ بھی جمہوریت کے دور میں نئے نئے داخل ہوئے تھے۔ اسپین میں جمہوری تبدیلی سابق ڈکٹیٹر فرنسیسکو فرانکو کی 1975ء میں وفات کے بعد آئی تھی۔
تصویر: picture-alliance/G. Silva
سن 1995ء: آسٹریا، سویڈن اور فن لینڈ
سن انیس سو بانوے میں ای سی بلاک کے رکن ممالک نے ایک نئے معاہدے پر دستخط کیے اور موجودہ دور کی یورپی یونین (ای یو) کی شکل سامنے آئی۔ اس کے بعد سب سے پہلے اس تنظیم میں آسٹریا، سویڈن اور فن لینڈ شامل ہوئے۔ یہ تمام رکن ممالک سرد جنگ کے دوران سرکاری طور پر غیرجانبدار تھے اور نیٹو کے رکن بھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/L. Bry
سن2004ء: 10 مشرقی یورپی ممالک
یہ یورپی یونین میں سب سے بڑی وسعت تھی۔ ایک ساتھ دس ممالک یورپی یونین کا حصہ بنے۔ ان ممالک میں چیک ریپبلک، ایسٹونیا، قبرص، لیٹویا، لیتھوانیا، ہنگری، مالٹا، پولینڈ، سلوواکیا اور سلووینیا شامل تھے۔ دو عشرے قبل کمیونزم کے زوال کے بعد ان تمام ممالک کے لیے جمہوریت نئی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa
سن 2007ء: رومانیہ اور بلغاریہ
رومانیہ اور بلغاریہ نے یورپی یونین میں شمولیت کا منصوبہ سن دو ہزار چار میں بنایا تھا۔ لیکن عدالتی اور سیاسی اصلاحات میں تاخیر کی وجہ سے انہیں اس بلاک میں شامل نہیں کیا گیا تھا۔ ان دونوں ملکوں کو غریب اور بدعنوان ترین قرار دیا جاتا تھا لیکن بعد ازاں اصلاحات کے بعد انہیں بھی یورپی یونین میں شامل کر لیا گیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/V. Donev
سن 2013ء: کروشیا
یورپی یونین کو آخری وسعت کروشیا کو اس بلاک میں شامل کرتے ہوئے دی گئی۔ سلووینیا کے بعد یہ دوسرا چھوٹا ترین ملک تھا، جو نوے کی دہائی میں یوگوسلاویا کی خونریز جنگ کے بعد یورپی یونین کا حصہ بنا۔ مونٹی نیگرو اور سربیا بھی یوگوسلاویا کا حصہ تھے اور یہ بھی یونین میں شمولیت کے لیے مذاکرات کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اسی طرح مقدونیا اور البانیا کی قسمت کا فیصلہ بھی جلد ہی کیا جائے گا۔
تصویر: picture-alliance/D. Puklavec
8 تصاویر1 | 8
لیکن آج یہی جرمن باشندہ چند برس کے اندر اندر ٹیکس چوری کے نیٹ ورک کا ایسا مرکزی کردار بن چکا ہے کہ وہ گیارہ ایسی کمپنیاں چلا رہا ہے، جو سب کی سب دوسرے لوگوں کے ناموں پر کھولی گئی ہیں۔
یورپی یونین میں یکساں وی اے ٹی شرح کی تجویز
اس رپورٹ میں متعلقہ جرمن این جی او نے یہ تجویز بھی پیش کی ہے کہ یورپی یونین کے رکن ممالک کی حکومتوں کے لیے اس طرح پہنچنے والے مالیاتی نقصان سے بچنے کا ایک ممکنہ راستہ یہ ہے کہ پوری یورپی یونین میں تجارتی شعبے کے لیے یکساں شرح سے ویلیو ایڈڈ ٹیکس متعارف کرا دیا جائے۔
عملی طور پر یورپی یونین میں ایسے کسی متفقہ وی اے ٹی ٹیکس سسٹم کی حمایت کافی کم ہے۔ اب تک چیک جمہوریہ ہی یونین کا رکن وہ واحد ملک ہے، جس نے یونین میں وی اے ٹی سسٹم کے غلط استعمال کے ذریعے ٹیکس چوری کی روک تھام کے معاملے کو اپنے ہاں کے حکومتی ایجنڈے کا حصہ بنایا ہے۔
کپاس سے کرنسی نوٹ تک: یورو کیسے بنایا جاتا ہے؟
ای سی بی نے پچاس یورو کے ایک نئے نوٹ کی رونمائی کی ہے۔ پرانا نوٹ سب سے زیادہ نقل کیا جانے والا نوٹ تھا۔ ڈی ڈبلیو کی اس پکچر گیلری میں دیکھیے کہ یورو کرنسی نوٹ کس طرح چھپتے ہیں اور انہیں کس طرح نقالوں سے بچایا جاتا ہے۔
تصویر: Giesecke & Devrient
ملائم کپاس سے ’ہارڈ کیش‘ تک
یورو کے بینک نوٹ کی تیاری میں کپاس بنیادی مواد ہوتا ہے۔ یہ روایتی کاغذ کی نسبت نوٹ کی مضبوطی میں بہتر کردار ادا کرتا ہے۔ اگر کپاس سے بنا نوٹ غلطی سے لانڈری مشین میں چلا جائے تو یہ کاغذ سے بنے نوٹ کے مقابلے میں دیر پا ثابت ہوتا ہے۔
تصویر: tobias kromke/Fotolia
خفیہ طریقہ کار
کپاس کی چھوٹی چھوٹی دھجیوں کو دھویا جاتا ہے، انہیں بلیچ کیا جاتا ہے اور انہیں ایک گولے کی شکل دی جاتی ہے۔ اس عمل میں جو فارمولا استعمال ہوتا ہے اسے خفیہ رکھا جاتا ہے۔ ایک مشین پھر اس گولے کو کاغذ کی لمبی پٹیوں میں تبدیل کرتی ہے۔ اس عمل تک جلد تیار ہو جانے والے نوٹوں کے سکیورٹی فیچرز، جیسا کہ واٹر مارک اور سکیورٹی تھریڈ، کو شامل کر لیا جاتا ہے۔
تصویر: Giesecke & Devrient
نوٹ نقل کرنے والوں کو مشکل میں ڈالنا
یورو بینک نوٹ تیار کرنے والے اس عمل کے دوران دس ایسے طریقے استعمال کرتے ہیں جو کہ نوٹ نقل کرنے والوں کے کام کو خاصا مشکل بنا دیتے ہیں۔ ایک طریقہ فوئل کا اطلاق ہے، جسے جرمنی میں نجی پرنرٹز گائسیکے اور ڈیفریئنٹ نوٹ پر چسپاں کرتے ہیں۔
تصویر: Giesecke & Devrient
نقلی نوٹ پھر بھی گردش میں
پرنٹنگ کے کئی پیچیدہ مراحل کے باوجود نقال ہزاروں کی تعداد میں نوٹ پھر بھی چھاپ لیتے ہیں۔ گزشتہ برس سن دو ہزار دو کے بعد سب سے زیادہ نقلی نوٹ پکڑے گئے تھے۔ یورپی سینٹرل بینک کے اندازوں کے مطابق دنیا بھر میں نو لاکھ جعلی یورو نوٹ گردش کر رہے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Hoppe
ایک فن کار (جس کا فن آپ کی جیب میں ہوتا ہے)
رائن ہولڈ گیرسٹیٹر یورو بینک نوٹوں کو ڈیزائن کرنے کے ذمے دار ہیں۔ جرمنی کی سابقہ کرنسی ڈوئچے مارک کے ڈیزائن کے دل دادہ اس فن کار کے کام سے واقف ہیں۔ نوٹ کی قدر کے حساب سے اس پر یورپی تاریخ کا ایک منظر پیش کیا جاتا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP
ہر نوٹ دوسرے سے مختلف
ہر نوٹ پر ایک خاص نمبر چھاپا جاتا ہے۔ یہ نمبر عکاسی کرتا ہے کہ کن درجن بھر ’ہائی سکیورٹی‘ پرنٹرز کے ہاں اس نوٹ کو چھاپا گیا تھا۔ اس کے بعد یہ نوٹ یورو زون کے ممالک کو ایک خاص تعداد میں روانہ کیے جاتے ہیں۔
تصویر: Giesecke & Devrient
پانح سو یورو کے نوٹ کی قیمت
ایک بینک نوٹ پر سات سے سولہ سینٹ تک لاگت آتی ہے۔ چوں کہ زیادہ قدر کے نوٹ سائز میں بڑے ہوتے ہیں، اس لیے اس حساب سے ان پر لاگت زیادہ آتی ہے۔
تصویر: Giesecke & Devrient
آنے والے نئے نوٹ
سن دو ہزار تیرہ میں پانچ یورو کے نئے نوٹ سب سے زیادہ محفوظ قرار پائے تھے۔ اس کے بعد سن دو ہزار پندرہ میں دس یورو کے نئے نوٹوں کا اجراء کیا گیا۔ پچاس یورو کے نئے نوٹ اگلے برس گردش میں آ جائیں گے اور سو اور دو یورو کے نوٹ سن دو ہزار اٹھارہ تک۔ پانچ سو یورو کے نئے نوٹوں کو سن دو ہزار انیس تک مارکیٹ میں لایا جا سکتا ہے۔